Urdu News

عزاداروں میں مایوسی کیوں؟ اودھ میں عزادا رمذہبی اور سیاسی قیادت سے کیوں ہیں ناراض ؟

عزاداروں میں مایوسی کیوں؟

علمائے کرام اور دانشوروں کی جانب سے متعدد بارکیے گئے مطالبوں کے باوجود بھی حکومت و ضلع انتظامیہ کے رخ میں کوئی تبدیلی نہ ہونے سے اودھ بالخصوص لکھنو کے عزادار مایوس و افسردہ ہیں ، عزادار یوگی حکومت سے تو ناراض ہیں ہی ساتھ ہی اپنی مذہبی اور سیاسی قیادت سے بھی بدظن اور برہم ہیں۔عزاداروں کو شکایت ہے کہ وہ گزشتہ کی سال سے تعزیے دفن نہیں کر پائے ہیں۔ یہ بالکل اسی طرح ہیں جیسے گھروں میں رکھی مٹی کو جبراً دفن نہ کرنے دیا جارہا ہو۔ عام طور پر لوگوں میں یہ احساس پنپ رہاہے کہ حکومت جو چاہتی ہے وہ کرتی ہے اسے لوگوں کے بالخصوص اقلیتوں کے جذبات و احساسات کا ذرا بھی پاس نہیں۔ مولانا شباہت کہتے ہیں کہ الیکشن کی ریلیوں میں ہزاروں لاکھوں لوگ جمع ہو سکتے ہیں لیکن عقیدت مندانِ اہل بیت کورونا کی گائڈ لائن اور اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے تعزیے اور علم لے کر کربلا نہیں جاسکتے۔ یہ کون سا انصاف ہے؟

امامیہ ایجوکیشنل ٹرسٹ کے صدر مولانا علی حسین قمی کہتے ہیں کہ مذہبی اور سیاسی دونوں قیادتیں اقلیتوں میں اقلیت شیعوں کو گمراہ کررہی ہیں شیعہ طبقے سے تعلق رکھنے والے وہ لیڈر جو چھوٹی چھوٹی باتوں پر یوگی اور مودی کی قصیدہ خوانی کرتے ہیں عزاداری اور شیعوں کو درپیش مسائل پر گونگے بہرے ہوجاتے ہیں ۔۔ماضی سے حال تک اودھ کی عزاداری نے جتنے نشیب و فراز دیکھے ہیں جتنی کروٹیں بدلی ہیں جتنے سرد وگرم جھیلے ہیں وہ یہاں کی مذہبی تاریخ کا اہم حصہ ہیں۔لیکن عزاداری اور عزادار دونوں پر اتنا تشدد کبھی نہیں ہوا جتنا اس عہد میں کیا جارہا ہے ۔

یوں تو اودھ کی عزاداری کی تاریخ خاصی پرانی اور زریں ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ نواب آصف الدولہ کے دور سےلکھنؤ کی عزاداری کا درخشاں دور شروع ہوا ۔آصف الدولہ نے مساجد،مدارس اور امام بارگاہوں کی تعمیر پر خاص توجہ دی۔ماتمی جلوسوں اور شاہی جلوسوں کا خصوصی طور پر اہتمام و انصرام کرایا ۔نواب آصف الدولہ کے ذریعے تعنیر کرائی گئی عمارات میں تین بڑی امام بارگاہیں اور آصفی مسجد آج تک قائم ہیں۔ آصف الدولہ کے کیے گئے کاموں میں سے سب سے پہلا کام یہ تھا کہ ایک وسیع و عریض اور خوبصورت امام بارگاہ تعمیر کروائی۔

تاریخ آج تک آصفی امام باڑہ جیسی فنِ تعمیر کی مثال پیش نہیں کر سکی۔ بڑا امام باڑہ لکھنؤ میں آصف الدولہ نے بنوایا اسی وجہ سے اسے آصفی امام باڑہ کہا جاتا ہے۔ پھر آصف الدولہ نے سرکاری طور پہ یہ قانون پاس کروایا کہ یہاں سے جب بھی جلوس نکلے گا وہ سرکاری پرمٹ پہ نکلے گا کسی سنی شیعہ کو پرمٹ اپنے نام کرانے کی ضرورت نہیں،یہ سرکار کی ذمہ داری ہو گی۔ آج بھی لکھنؤ کے اندر تین بڑے مرکزی جلوس نکالنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اس زمانے کے پرانے تعزیے آج تک وہاں پر نکالے جاتے ہیں۔

گزشتہ دو سال سے کورونا کے سبب انسانی زندگی مفلوج۔ ہو کر رہ گئی ہے۔ کورونا کی عالمی وبا کے منفی اثرات یہاں کی عزاداری پر بھی مرتب ہوئے لکھنئو میں دفعہ ایک سو چوالیس نافذ ہے ، محرم کے جلوسوں پر پابندی ہے جسکے سبب اب نہ وہ روح پرور و دل گرفتہ مناظر نظر آتے ہیں۔ اور نہ لاکھوں کی بھیڑ والے وہ جلوس اور انجمنیں جو اس شہر ہی کا خاصہ رہے ہیں ۔۔اہل بیت سے عقیدت رکھنے واکےکل بھی تھے آج بھی ہیں اور ہمیشہ رہیں گے لیکن لکھنئو کی شناخت رہی عزاداری ، جلوس ، ماتم سبیلیں مجلسیں تبرکات کی تقسیم سینہ زنی نوحہ خوانی۔ سوز و سلام کی محافل اور کتنی ہی رسومات کورونا کے سبب محدود دائروں میں سمٹ کر رہ گئی ہیں۔

لکھنو میں قیام پذیر گجرات سے تعلق رکھنے والے مولانا حسن علی راجانی بھی ان شیعہ لیڈروں اور رہنماؤں کی مذمت کرتے ہیں جو اپنی کرسیاں بچانے کے لئے مولا سے زیادہ مودی اور یوگی کا نام لیتے ہیں ، اور جو بنام ملت وزیر اعلیٰ سے ملاقات کرکے اپنے ذاتی کاموں کی فائلیں پیش کرتے ہیں۔ اور سوشل میڈیا پر تصویریں یہ کہہ کر نشر کی جاتی ہیں کہ “ وزیر اعلیٰ سے ہوئی ملاقات ، کرائی گئی یقین دہانی ، جلد حل ہوجائیں گے مسائل” ۔۔ یہ روایتی اور نقلی جملے سن سن کر کان پک گئے ۔سچائی یہی ہے کہ اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے ۔۔اگر ہماری قیادت نے اہل بیت کے مقصد و مشن کو سمجھا ہوتا تو آج لوگ اتنے افسردہ و مایوس نہ ہوتے۔

Recommended