حضرت بابا جان ایک ایسی خاتون جن کی راہ سب سے جدا تھی

<p style="text-align: right;">
خیبر پختون خوا سے ممتاز اسکالر باسط خٹک کی تحریر </p>
<p style="text-align: right;">
 <span style="color: rgb(5, 5, 5); font-family: "Segoe UI Historic", "Segoe UI", Helvetica, Arial, sans-serif; font-size: 15px; white-space: pre-wrap;">*حضرت بابا جان*</span></p>
<div dir="auto" style="font-family: "Segoe UI Historic", "Segoe UI", Helvetica, Arial, sans-serif; color: rgb(5, 5, 5); font-size: 15px; white-space: pre-wrap; text-align: right;">
ان کا نام گل رخ رکھا گیا اور تعلق بلوچستان (افغانستان) سے تھا. پشتون تھیں اور پردہ دار بھی۔ والد افغان حکومت میں اعلیٰ عہدے دار تھے۔ بچپن سے ہی روحانیت کی طرف مائل تھیں لیکن تعلیم تھی نہ رہنما۔ اٹھارہ انیس سال کی عمر میں نسبت طے کر دی گئی تو شادی کے دن گھر سے برقع اوڑھے فرار ہو گئیں۔ ان کا خیال تھا کہ یہ زندگی گرہستی کے لیے ہے ہی نہیں۔ پشاور پہنچیں اور پھر راولپنڈی کا رخ کیا۔ یہیں انہیں ایک ہندو مہاتما ملے جن کی ہدایات کے مطابق قریبی غاروں میں تقریباً دو سال تک روحانی ریاضت کی۔</div>
<div dir="auto" style="font-family: "Segoe UI Historic", "Segoe UI", Helvetica, Arial, sans-serif; color: rgb(5, 5, 5); font-size: 15px; white-space: pre-wrap; text-align: right;">
قریب سنتیس سال کی عمر میں انہوں نے ملتان کا سفر کیا جہاں ایک مسلمان ولی اللہ سے ملاقات ہوئی جنہوں نے اللہ کی ذاتِ اقدس کی ادراک کے راستے دکھائے۔ یہ بالکل ہی ایک الگ تجربہ تھا۔ حضرت بابا جان کے لیے زندگی اور کائنات کا نیا منظر سامنے آیا۔ سو انہوں نے واپس اپنے ہندو مہاتما کے پاس جانے کا قصد کیا تاکہ وہ ان حالات میں بہتر رہنمائی کر سکیں اور ان کی ذہنی تربیت کی راہوں میں رکاوٹیں ہٹا سکیں۔</div>
<div dir="auto" style="font-family: "Segoe UI Historic", "Segoe UI", Helvetica, Arial, sans-serif; color: rgb(5, 5, 5); font-size: 15px; white-space: pre-wrap; text-align: right;">
اپنے روحانی پیشواؤں کی روشنی میں سلوک کی منازل طے کرنے کے واسطے حضرت بابا جان افغانستان، ایران، ترکی، شام، لبنان سے ہوتے ہوئے مکہ مکرمہ حج کی سعادت حاصل کرنے آئیں۔ وہ مردانہ روپ میں مکہ اور مدینہ گئیں تاکہ کوئی رکاوٹ نہ بنے۔ فریضہ حج کی ادائیگی کے بعد واپس ناسک پہونچ کر ممبئی کا رخ کیا۔ کچھ عرصہ وہیں گزارنے کے بعد 1903 میں پھر سے حج کی سعادت حاصل کرنے چلی گئیں۔ اگلے سال ممبئی واپسی کے ساتھ ہی حضرت معین الدین چشتی اجمیری کے مزار پر حاضری دینے اجمیر شریف حاضر ہوئیں۔ وہیں سے واپس ممبئی آئیں تو 1905 میں پونے چلی گئیں۔ وہیں پر جہاں ٹھکانا بنایا اس کو چارباودی کا علاقہ کہا جاتا تھا۔ اس علاقے کو گندگی، ویرانی اور بدصورتی کی تصویر، طاعون اور وبا کا ایک افزائشی مقام تصور کیا جاتا تھا۔ حضرت بابا جان ایک نیم کے درخت تلے دن رات گزارنے لگیں۔ بچے اس پر پتھر پھینکتے جاتے۔ وہ محض بے گھر فقیرنی تھیں۔ روحانی ریاضت و مجاہدہ کے باعث ان کا نام و مقام اولیاء اللہ میں ہونے لگا تھا۔ اب وہ جان گئی تھیں کہ زندگی کیسے کرتے ہیں۔ وہ اپنے عقیدت مندوں کی طرف سے تحائف غریبوں اور مسکینوں میں بانٹ دیتی تھیں، ان کے سامنے مادی دنیا کی حیثیت تھی ہی نہیں۔ وہ مادی پیش کش یا نقصان سے لاپرواہ ہو چکی تھیں۔ آہستہ آہستہ، عقیدت یا محض تجسس کے سبب پونے اور دوسری جگہوں سے بڑھتی ہوئی تعداد میں لوگوں نے اسے ڈھونڈ لیا۔ کئی مبینہ معجزات باباجان سے منسوب کیے گئے۔ اب وہ ولی اللہ یا قطب شمار کی جانے لگیں۔</div>
<div dir="auto" style="font-family: "Segoe UI Historic", "Segoe UI", Helvetica, Arial, sans-serif; color: rgb(5, 5, 5); font-size: 15px; white-space: pre-wrap; text-align: right;">
وہیں نیم کے درخت تلے خمیدہ کمر، کمزور بوڑھی عورت جس کا لباس ایک گدڑی تھا، کے درشن کرنے ہر مذہب و ملت و مسلک کے لوگوں کا ہجوم اکٹھا رہتا اور وہ دنیا کے ہنگاموں سے بے نیاز اپنے وظائف اور مراقبے میں مصروف ہوتیں۔</div>
<div dir="auto" style="font-family: "Segoe UI Historic", "Segoe UI", Helvetica, Arial, sans-serif; color: rgb(5, 5, 5); font-size: 15px; white-space: pre-wrap; text-align: right;">
اپنی وفات سے کچھ دن پہلے حضرت باباجان نے بتایا، "اب وقت آگیا ہے۔ اب میرے جانے کا وقت آگیا ہے۔ کام ختم ہوچکا ہے، مجھے دکان بند کرنی ہوگی۔" عقیدت مندوں میں سے کسی نے التجا کی، "بابا جان ایسی باتیں نہ کہیں ، ہمیں آپ کے ساتھ کی ضرورت ہے" لیکن اس نے چپکے سے جواب دیا ، "کوئی بھی نہیں، کوئی بھی میرا سامان نہیں چاہتا۔ کوئی بھی قیمت کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ میں نے اپنا سامان اس کے حق دار کے حوالے کردیا ہے"</div>
<div dir="auto" style="font-family: "Segoe UI Historic", "Segoe UI", Helvetica, Arial, sans-serif; color: rgb(5, 5, 5); font-size: 15px; white-space: pre-wrap; text-align: right;">
1914 میں انہوں نے بیس سالہ مروان شہریار ایرانی کو اپنا جانشین نامزد کیا جو بعد میں مہر بابا کے نام سے مشہور ہوئے۔ یہ بذاتِ خود ایک دلچسپ اور الگ داستان ہے۔</div>
<div dir="auto" style="font-family: "Segoe UI Historic", "Segoe UI", Helvetica, Arial, sans-serif; color: rgb(5, 5, 5); font-size: 15px; white-space: pre-wrap; text-align: right;">
قریباً 120 یا 130 سال کی عمر گزارنے کے بعد 21, ستمبر 1931 کو حضرت بابا جان نے اسی نیم کے درخت تلے اپنی جان جان آفریں کے سپرد کر دی اور وہیں پر ان کا مزار بنایا گیا جو آج بھی مرجع خلائق ہے۔*</div>
<div dir="auto" style="font-family: "Segoe UI Historic", "Segoe UI", Helvetica, Arial, sans-serif; color: rgb(5, 5, 5); font-size: 15px; white-space: pre-wrap; text-align: right;">
 </div>
<div dir="auto" style="font-family: "Segoe UI Historic", "Segoe UI", Helvetica, Arial, sans-serif; color: rgb(5, 5, 5); font-size: 15px; white-space: pre-wrap; text-align: right;">
 </div>

Dr. S.U. Khan

Dr. Shafi Ayub editor urdu

Recent Posts

رجنی کانت کی فلم ’جیلر‘ پر شائقین کا ردعمل

رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…

1 year ago

کشمیر میں’میری ماٹی، میرا دیش‘مہم کے تحت متعدد تقریبات منعقد

مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…

1 year ago

یُگ پریورتن: جموں و کشمیر کا تبدیلی کا سفر

جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…

1 year ago

بھارت کے نقشے کی تصویر کا قالین بُننے والا کشمیری قالین باف محمد مقبول ڈار سے ملیں

شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…

1 year ago

زعفران کی آسمان چھوتی قیمت کشمیر کے کسانوں کے چہروں پر لے آئی مسکراہٹ

زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…

1 year ago

لال چوک پر تجدید شدہ کلاک ٹاور سری نگر کے قلب میں لندن کی جھلک کررہا ہے پیش

سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…

1 year ago