عباس تابش ۔۔۔ ایک تعارف
از قلم : شبیر احمد ڈار
اردو شاعری کے درخشاں ستاروں میں سے ایک تابندہ نام ، جدید لہجہ کے مشہور شاعر ، معلم مضمون نویس ، اردو غزل کا مضبوط تر اور معتبر نام، مجلس ترقی ادب کے سربراہ ” عباس تابش “ کا ہے ۔ آپ 15 جون 1961ء کو میلسی ضلع وہاڑی میں پیدا ہوئے ۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے 1986ء میں ایم ۔ اے اردو کا امتحان پاس کیا اور بطور لکچرار ملازمت کا آغاز کیا ۔ رسالہ راولپنڈی کے ایڈیٹر بھی رہے ۔ آپ کی شعری تصانیف میں ” تمہید ، آسمان ، مجھے دعاؤں میں یاد رکھنا، پروں میں شام ڈھلتی ہے ، عشق آباد “ خاص اہمیت کی حامل ہیں ۔
” جب تیرا ذکر غزل میں آئے “ کے عنوان سے ایک انتخاب بھی شائع ہو چکا ہے ۔عباس تابش مختلف ملکی اور بین الاقوامی مشاعروں میں خاص مقبولیت حاصل کر چکے ہیں اور انہیں بہت سے اعزازات سے بھی نوازا جا چکا ہے ۔ پندرہ برس کی عمر میں شعر کہنا شروع کیا اور آج اردو شاعری میں آپ کو ممتاز مقام حاصل ہے ۔ آپ کی شاعری ماں جیسی اس کائنات کی عظیم ہستی سے محبت اور پاکیزہ جذبوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے ۔
عباس عباس نے صنف شاعری میں طبع آزمائی کی اور بالخصوص غزل میں چاشنی ، کشش ، لطافت اور اپناٸیت جیسی خوبیاں ان کے کلام کو ممتاز بناتی ہیں ۔ شعری موضوعات پر آپ کو خاص ملکہ حاصل ہے ۔ بقول افتخار عارف :
” عباس تابش اردو غزل کی روایت کو ثروت مند بنانے والی نسل کے میرے نزدیک سب سے نمایاں شاعر ہیں ۔ ایک مکمل شاعر جو غزل کی کلاسیکی روایت کے دائروں میں رہتے ہوئے مضمون تازہ کی نئی راہیں نکالتا ہے اور غزل بہ غزل اور کتاب بہ کتاب بلندیوں کی طرف گامزن ہے ۔ عباس تابش اپنی نسل کے مقبول ترین شاعروں میں سے ہیں ۔“ (جدید اردو غزل کے وارث عباس تابش (مضمون) از قلم لقمان اسد)
چند اشعار ملاحظہ کیجیے:
ایک مدت سے مری ماں نہیں سوئی تابشؔ
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے
☆☆☆☆☆☆
جس سے پوچھیں ترے بارے میں یہی کہتا ہے
خوب صورت ہے وفادار نہیں ہو سکتا
☆☆☆☆☆☆
ہم ہیں سوکھے ہوئے تالاب پہ بیٹھے ہوئے ہنس
جو تعلق کو نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
☆☆☆☆☆☆
چاند چہرے مجھے اچھے تو بہت لگتے ہیں
عشق میں اس سے کروں گا جسے اردو آئے
☆☆☆☆☆
فقط مال و زر دیوار و در اچھا نہیں لگتا
جہاں بچے نہیں ہوتے وہ گھر اچھا نہیں لگتا
وہ کیسی ہے
اسے میں نے نہیں دیکھا
سنا ہے وہ زمیں زادی
دھنک سے اپنے خوابوں کے افق گل رنگ رکھتی ہے
مرے خاشاک سے آگے کسی منظر میں رہتی ہے
ہوا کے گھر میں رہتی ہے
وہ کس سورج کا حصہ ہے
وہ کس تارے کی مٹی ہے
اسے میں نے نہیں دیکھا
(نظم : اسے میں نے نہیں دیکھا)
☆☆☆☆☆
عجب لڑکی ہے
خود کو ڈھونڈتی ہے
اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں
جہاں وہ تھی نہ ہے، آئندہ بھی شاید نہیں ہوگی
وہ جب انگلی گھما کر
فیضؔ کی نظمیں سناتی ہے
تو اس کے ہاتھ سے پورے بدن کا دکھ جھلکتا ہے
وہ ہنستی ہے تو اس کے ہاتھ روتے ہیں
( نظم : وہ ہنستی ہے تو اس کے ہاتھ روتے ہیں)
☆☆☆☆☆
کوئی چہرہ نہ بن پایا مقدر کی لکیروں سے
سو اب اپنی ہتھیلی میں مجھے خود رنگ بھرنا ہے
وہ ہر لمحہ دعا دیتے ہیں لمبی عمر کی تابشؔ
مجھے لگتا ہے پیاروں کو بھی رخصت میں نے کرنا ہے
☆☆☆☆☆
گھر میں اک تصویر جنگل کی بھی ہے
رابطہ رہتا ہے ویرانی کے ساتھ
☆☆☆☆☆
خود کشی کرنے نہیں دی تری آنکھوں نے مجھے
لوٹ آیا ہوں میں دریا کا نظارہ کر کے
☆☆☆☆☆
ہزار عشق کرو ، لیکن اتنا دھیان رہے
کہ تم کو پہلی محبت کی بد دعا نہ لگے
☆☆☆☆☆
میں نے پوچھا تھا کہ اظہار نہیں ہو سکتا؟
دل پکارا کہ خبردار ، نہیں ہو سکتا
☆☆☆☆☆
جس سے پوچھیں تیرے بارے میں یہی کہتا ہے
خوبصورت ہے ، وفادار نہیں ہو سکتا
☆☆☆☆☆
اک محبت تو کئ بار بھی ہو سکتی ہے
ایک ہی شخص کئ بار نہیں ہو سکتا