Urdu News

معروف ترین نثر نگار اور شاعر ڈاکٹرعبدالرحیم نشترؔ صاحب کا یومِ ولادت

معروف شاعر ڈاکٹرعبدالرحیم نشترؔ

معروف ترین نثر نگار اور شاعر ڈاکٹرعبدالرحیم  نشترؔ صاحب کا یومِ ولادت

نام عبدالرحیم اور تخلص نشترؔ ہے

02؍فروری 1947ء کو کیمپٹی،مہاراشٹر میں پیدا ہوئے۔ عبدالرحیم نشترؔ نے ایم۔ اے (اردو) بی۔ ایڈ، پی۔ ایچ۔ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے اپنے بے باک اور جارحانہ لب و لہجے کی وجہ سے ودربھ کے ’’اینگری ینگ مین‘‘کے نام سے شہرت پائی۔ ودربھ میں جدید ادب کو فروغ دینے میں نشتر کا اہم رول رہا ہے۔ ’’چاروں اور‘‘کی ترتیب و اشاعت میں شاہد کبیر اور مدحت الاختر کو بھرپورتعاون دیا۔ 

نشترؔ نے ’’ارتکاز‘‘ کے نام سے ہندوپاک کے منتخب 38 جدید شاعروں کی غزلوں کا انتخاب 1971ء میں شائع کیا۔ ’’اعراف‘‘(1972ء) اور ’’شام گراں‘‘(1978(ء) کے نام سے غزلوں کے دو مجموعے اشاعت پذیر ہوئے جن کی ادبی دنیا میں خوب پذیرائی ہوئی۔ علاوہ ازیں انہوں نے ’’ودربھ نامہ‘‘ کے نام سے ایک جریدہ نکالا جو وردھ میں جدید ادب کا نقیب بن گیا۔ اس کے اثر سے کافی قلمکاروں نے جدید رنگ و آہنگ میں کھل کر کہنے کی جرأت کی۔ ’’بھوپال ایک خواب‘‘ (رپورتاژ) عمدہ نثر کا نمونہ ہے اس کے علاوہ انہوں نے بچوں کے لیے بھی خوب لکھا ہے۔ بچوں کے لیے نظموں کے مجموعوں ’’بچارے فرشتے‘‘ اور ’’کوکن رانی‘‘ کو بھی مقبولیت حاصل ہوئی۔ نشترؔ بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں لیکن انہوں نے جدید رنگ میں نظمیں بھی کہی ہیں۔ لہجے کی بے ساختگی، ہندی لفظیات کا استعمال اور احتجاجی آہنگ ان کی انفرادیت ہے۔

عبدالرحیم نشترؔ 2009ء میں امبیٹ سے بحیثیت مدرس سبکدوش ہوئے۔

بحوالہ_ریختہ_ڈاٹ_کام

           پیشکش : شمیم ریاض

 ممتاز شاعر ڈاکٹر عبدالرحیم نشترؔ صاحب کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار بطور خراجِ تحسین…..

وہ سو رہا ہے خدا دور آسمانوں میں 

فرشتے لوریاں گاتے ہیں اس کے کانوں میں

——–

میں تیری چاہ میں جھوٹا ہوس میں سچا ہوں 

برا سمجھ لے مگر دوسروں سے اچھا ہوں 

——–

 دیکھ رہا تھا جاتے جاتے حسرت سے 

سوچ رہا ہوگا میں اس کو روکوں گا 

——–

 آواز دے رہا ہے اکیلا خدا مجھے 

میں اس کو سن رہا ہوں ہواؤں کے کان سے 

——–

میں بھی تالاب کا ٹھہرا ہوا پانی تھا کبھی 

ایک پتھر نے رواں دھار کیا ہے مجھ کو 

——–

 وہ اجنبی تری بانہوں میں جو رہا شب بھر 

کسے خبر کہ وہ دن بھر کہاں رہا ہوگا 

——–

 پان کے ٹھیلے ہوٹل لوگوں کا جمگھٹ 

اپنے تنہا ہونے کا احساس بھی کیا 

——–

پھٹے پرانے بدن سے کسے خرید سکوں 

سجے ہیں کانچ کے پیکر بڑی دکانوں میں 

——–

 پتھر نے پکارا تھا میں آواز کی دھن میں 

موجوں کی طرح چاروں طرف پھیل گیا ہوں 

 ——–

اس نے چلتے چلتے لفظوں کا زہراب 

میرے جذبوں کی پیالی میں ڈال دیا 

——–

 اپنی ہی ذات کے صحرا میں سلگتے ہوئے لوگ 

اپنی پرچھائیں سے ٹکرائے ہیولوں سے ملے

ڈاکٹر عبدالرحیم نشترؔ 

 انتخاب : شمیم ریاض

Recommended