Urdu News

خواجہ اکرام، شکیل جمالی اور اقبال اشہر کو اردو اکادمی ایوارڈ مبارک ہو

ناصر عزیز (ایڈوکیٹ) ، شکیل جمالی, اقبال اشہر اور خواجہ اکرام

 خواجہ اکرام، شکیل جمالی اور اقبال اشہر کو اردو اکادمی ایوارڈ مبارک ہو 

تحریر: ناصر عزیز (ایڈوکیٹ) 
ایڈوکیٹ ناصر عزیز نے اپنے مخصوص انداز میں پروفیسر خواجہ اکرام، شکیل جمالی اور اقبال اشہر کو یاد کیا ہے۔ 
ناصر عزیز پیشے سے وکیل ہیں، عدالتوں میں مقدمات کی پیروی کرتے ہیں اور زندگی میں محبت کی خوشبو پھیلانے میں مصروف رہتے ہیں۔ اردو اکادمی دہلی نے جن خواتین و حضرات کو ایوارڈ دئے جانے کا اعلان کیا ہے ان میں سے تین حضرات کا والہانہ ذکر ایڈوکیٹ ناصر عزیز نے کیا ہے کہ ان تینوں سے ناصر عزیز کے دیرینہ تعلقات رہے ہیں۔  

کچھ دیر قبل سوشل میڈیاکے ذریعہ ایک فہرست نظر سے گزری جس میں ان تمام ادبا اور شعرا کے نام نامی شامل ہیں جنھیں اردو اکادمی کے سالانہ ایوارڈز سال 2019  اور 2020  سے نوازا گیا ہے۔ اس فہرست میں شمولیت کے لئے تمام ایوارڈیز کو مبارکباد پیش کرتا ہوں لیکن اس فہرست میں تین نام ایسے ہیں جن کو ایوارڈ ملنے پر مجھے ذاتی طور پر مسرت و انبساط کا احساس ہے اور میں انھیں پرخلوص مبارکبا دپیش کرتا ہوں۔
یوں تو اس سے قبل میرے بچپن کے دوست ڈاکٹر ظفر اعجاز عباسی جسے میں شروع سے خرم ہی کہتا ہوں کو بھی ساحر لدھیانوی پر ان کی کتاب پر اردو اکادمی ایوارڈ ملا تھا اور میں اتنا خوش ہوا تھا کہ اس تقریب میں بھی بطور خاص شامل ہوا جس میں یہ ایوارڈ دیا گیا۔ وہ تقریب ایک اور پس منظر میں بھی یاد رہتی ہے اور وہ یہ کہ وہاں مہمان خصوصی اس وقت کے آپ پارٹی کے وزیر کپل مشرا تھے۔ کپل مشرا نے سیکولرازم کے حوالے سے بڑی پرجوش تقریر کی تھی اور بی جے پی پر کرارے وار کئے تھے۔ بعدہٗ انہی کپل مشرا نے جو کارنامے انجام دیئے ان سے سیکولرازم شرمسار ہی ہوا۔ بہرحال اس جملہئ معترضہ کے بعد اصل مدعا کی طرف آتے ہیں۔ میں نے جن تین ایوارڈیز کا بطور خاص ذکر کیا ان میں ایک تو ہمارے بے تکلف دوست اور معروف ناقد و ادیب پروفیسر خواجہ اکرام الدین صاحب ہیں۔ مجھے جیسے ہی خبر ملی میں نے انھیں مبارکباد دی۔ خواجہ اکرام الدین صاحب کی شخصیت کسی بھی تعارف کی محتاج نہیں اور وہ بلامبالغہ پوری دنیا میں اردو کی ترویج و اشاعت کے سفیر کے طور پر اپنی علیحدہ شناخت رکھتے ہیں۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں اردو درس و تدریس سے ایک طویل عرصے سے ان کی وابستگی ہے۔ این سی پی یو ایل  یعنی  قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی کے ڈائریکٹر رہ چکے ہیں اور اپنے دائرہ کار کے دوران اردو کی ترویج و اشاعت میں جس طرح تمام عالم کے عالموں کو ایک پلیٹ فارم پر مجتمع کیا اور جس طرح اردو کی نئی بستیاں آباد کیں وہ ان کا ایک زریں کارنامہ ہے۔ خواجہ صاحب کی فطرت بڑی سیمابی ہے۔ وہ کبھی چین سے نہیں بیٹھ سکتے۔ بس ہمہ وقت کچھ نہ کچھ ادبی کام کرتے رہتے ہیں۔ کووڈ کی وبا کے نتیجے میں جو حالات پیدا ہوئے ان حالات نے بھی ان کے جوش و خروش کو مدھم نہیں کیا بلکہ وہ زیادہ جوش اور پوری شدت سے اردو زبان کی خدمت میں لگ گئے۔ اپنی معروف تنظیم ورلڈ اردو ایسوسی ایشن کو آن لا ئن کر کے گذشتہ دو برسوں میں ان گنت پروگراموں کا انعقاد کیا۔ بطور خاص مہجری ادب کے حوالے سے انھوں نے دنیاکے کونے کونے سے اردو کے ادیبوں اور لکھاریوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا۔ ان کا نیٹ ورک دیکھ کر بڑی حیرت ہوتی ہے۔ ان کے دوستوں کی فہرست میں دنیا کے بیشتر ممالک کے لوگ شامل ہیں اور ان کے عندیہ پر اردو کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ ایک اورخوبی جس کا میں بطور خاص ذکر کرنا چاہوں گا اور جس پر میں عش عش بھی کرتا ہوں وہ ہے ان کا جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہونا۔ یعنی کمپیوٹر، سافٹ ویئر، انٹرنیٹ اور اس کے تمام تکنیکی شعبوں میں ان کی مہارت اور ان وسائل کا استعمال حیرت انگیز ہے۔ انھوں نے متعدد کتابیں تصنیف کی ہیں۔ سفرنامے تحریر کیے ہیں۔ ”مشاہدات“ ان کا تازہ سفرنامہ ہے جو بہت مقبول ہوا ہے۔ خواجہ صاحب ایک اچھے دوست ہیں۔ ان کے ان تمام کارناموں میں بھابی نجمہ کا بڑامثبت رول ہے اور میں بھابی نجمہ کی پکوان کی مہارت کا بھی قائل ہوں اور ان کی یہ صلاحیتیں ہی خواجہ صاحب کو حوصلہ دیتی ہیں۔ بہرحال میں خواجہ صاحب کو یہ ایوارڈ ملنے پر دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
دوسرا نام جو اس فہرست میں شامل ہے اس کو ایوارڈ ملنے پر جی خوش ہوا اور ذاتی طور پر مسرت کا احساس دل میں پیدا ہوا وہ نام نامی بھی ہمارے محسن اور معروف شاعر و ناظم جناب شکیل جمالی صاحب کا ہے۔ شکیل جمالی صاحب سے میری ملاقات میرے بزرگ دوست و محسن محترم ابرار کرتپوری صاحب کے دولت کدہ پر ایک شعری نشست میں ہوئی اور وہ مجھے بہت بھا گئے۔ تب سے ایک دلی تعلق ان سے پیدا ہو گیا۔ دراصل میں سادہ طبیعت، حس مزاح رکھنے والے با ذوق لوگوں کو بہت پسند کرتا ہوں اور اس شخص میں اگر ان خوبیوں کے ساتھ انکساری اور مروت ہو تو پھر میں اسے دوست کر لیتاہوں۔ یہ تمام اور اس کے علاوہ بھی ڈھیر ساری خوبیاں شکیل جمالی صاحب میں پائی جاتی ہیں۔ ان کی شخصیت بھی بڑی دلکش ہے۔ چہرہ میں بڑی جاذبیت ہے اور اس پر ان کی مستقل مسکراہٹ غضب ہی ڈھاتی ہے۔ انتہائی شیریں لب ولہجہ، منکسرالمزاجی، توانائی، بے پناہ اشعار کا ازبر ہونا انھیں ہر دلعزیز ناظم مشاعرہ بناتا ہے۔ شاعر بھی اچھے ہیں اور عجب عجب شعر اختراع کرتے ہیں۔ اشعار میں تازگی ہے۔ ہندوستان کے طول و عرض میں شاعر اور ناظم کی حیثیت سے شرکت کرتے ہیں۔ محفلیں لوٹتے ہیں۔ یہی نہیں ٹی وی پر مشاہیر کی حیات و خدمات اور ان کی ادبی حیثیت پر پرمغز پروگرام بھی پیش کر چکے ہیں۔ زی ٹی وی سے ان کی دیرینہ وابستگی رہی ہے۔ مجھ پر بڑا خاص کرم رہتا ہے کہ جب کسی پروگرام میں بلاتا ہوں بلا تکلف چلے آتے ہیں۔ پچھلی بار بیٹی کی لندن سے آمد کے سبب نہ آ سکے تھے، انھیں اور مجھے دونوں کو قلق رہا۔ امروہہ اور بجنور میں جو تعلق ہے وہی مجھ میں اور ان میں ہے۔ میں انھیں اس ایوارڈ کے حصول پر پر خلوص مبارکباد پیش کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ انھیں مزید انعامات و کامرانی سے نوازے۔
اس فہرست میں جو تیسرا نام ہے، انھیں میں دوست نہیں کہہ پاؤں گا لیکن میری ان سے شناسائی ہے۔ ایک بار انھوں نے اپنے صاحبزادے کی ادبی و ثقافتی تنظیم راوی کلچرل سوسائٹی کی ایک نشست میں مجھے بطور شاعر مدعو کیا تھا۔ اس معروف و مقبول شخصیت کا نام ہے اقبال اشہر۔ دہائیوں قبل سیری فورٹ آڈیٹوریم میں منعقدہ ایک مشاعرے میں جس نوجوان نے سامعین کو اپنی طرف متوجہ کیا اور خوب داد و تحسین وصول کی وہ اقبال اشہر تھے۔ میرے ساتھ بیٹھے میرے دیرینہ رفیق انیس امروہی صاحب نے بتایا کہ لڑکا امروہہ کا ہے۔ اس امر پر مجھے بڑی خوشی ہوئی حالانکہ بعد کے ایام میں معلوم ہوا کہ اقبال صاحب اپنی امروہیت کا چرچا نہیں کرتے بلکہ خود کو دلی والا ہی کہتے ہیں۔ ظاہر ہے دلی والا ہونا بھی بڑے فخر کی بات ہے۔ بہرحال ان کو ایوارڈ ملنے پر بھی مجھے اس لئے ذاتی طور پر مسرت ہوئی کہ وہ میرے پسندیدہ شاعر ہیں۔ شاعر کی حیثیت سے انھوں نے اپنی علیحدہ شناخت بنائی ہے اور بین الاقوامی سطح پر جانے جاتے ہیں۔ ان کی نظم ”اردو“ نے ان کی شہرت میں اہم رول ادا کیا ہے۔ اقبال اشہر صاحب ادبی دنیا میں بھی انتہائی فعال اور کرمٹھ شخصیت کے بطور اپنی شناخت رکھتے ہیں۔ خوبرو ہیں، انداز دلکش ہے اور اس پر غضب کا ترنم۔ مشاعروں میں سحر جگاتے ہیں تو لوگ داد و تحسین سے خوب نوازتے ہیں۔ گو کہ میری ان سے قربت نہیں انھیں ایوارڈ ملنے پر مجھے خوشی ہوئی اور میں ان کی خدمت میں بھی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ جن لوگوں کو اردو اکادمی نے ایوارڈ سے نوازا ہے ان کی فہرست خاصی طویل ہے اور سب کا ذکر ممکن بھی نہیں لیکن جو ذرہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے کے مصداق یہ سب لوگ اپنے اپنے فن میں ماہر ہیں اور میں ان سب کو ہی دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
ناصر عزیز (ایڈوکیٹ)


Recommended