Urdu News

ناصر عزیز نے والہانہ انداز میں یاد کیا علامہ ابرار کرپتوری کو

علامہ قاضی ابرار کرت پوری اور ناصر عزیز برسوں کا یارانہ گیا

ناصر عزیز ایڈوکیٹ

فلک اردو سخن کا ایک اور روشن اور تابندہ ستارہ غروب ہو گیا۔ استاد الاساتذہ علامہ ابرار کرتپوری صاحب بھی داغ مفارقت دے گئے۔ اس دار فانی کو چھوڑ کر ابدی دنیا کے باسی ہو گئے۔ مجھے سوشل میڈیا سے ان کے سانحہ ارتحال کی اطلاع ملی اور کچھ دیر بعد جب میں ان کے ایک عزیز سے معلوم کیا تو انھوں نے بتایا کہ بعد مغرب ان کی تدفین ہو چکی۔ اس کا قلق ہوا کہ ان کی تدفین میں شرکت نہ ہو سکی۔ مجھ ایسے بہت سے دوست اور مداح اس سعادت سے محروم رہ گئے۔ اللہ مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ میرا ان سے بڑا قریبی اور دلی تعلق رہا۔ کچھ برس قبل تک (جب تک وہ چل پھر سکتے تھے)، میں، خلیل الرحمن اور ابرار صاحب ہر اتوار کو کناٹ پلیس میں واقع کافی ہوم میں صبح 11بجے سے 1بجے دوپہر تک بیٹھتے تھے اور علمی و ادبی گفتگو ہوتی تھی اور ایک دوسرے کو تازہ کلام بھی سنایا جاتا تھا۔ ان کی علالت کے بعد یہ سلسلہ منقطع ہو گیا لیکن وہ پابندی سے اپنے دولت کدے پر منعقد نشستوں میں بلانے لگے۔ ان کے یہاں کبھی نعتیہ اور کبھی بہاریہ نشستیں ہوتیں جو انتہائی اعلیٰ معیار کی ہوتیں۔ وہ حمد و نعت اکیڈمی کے بانی تھے اور بڑی پابندی سے ماہانہ نشستوں کا انعقاد کرتے تھے۔

ابرار کرتپوری اسلاف کا بہترین نمونہ تھے۔ نیک نفس، پاک طینت اور اللہ والے انسان تھے، مال و دولت سے واسطہ نہ تھا، عہد جوانی میں انتہائی فعال رہے، بڑے بڑے ادبی پروگرام منعقد کئے، متعدد تصانیف کی تصنیف و تالیف میں جانفشانی کی، کئی درجن کتب اپنے علمی ورثے کے بطور چھوڑی ہیں، جن میں حمد و نعت کے کئی مجموعے بطور خاص انھوں نے جو مجھے عطا کیے وہ میرے پاس محفوظ ہیں اور میرے کتب خانے کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ انھوں نے علم عروض پر بھی ایک کتاب تصنیف کی تھی، وہ چونکہ علم عروض پر بھی ملکہ رکھتے تھے اور علم شعر کے ماہر تھے لہٰذا بے شمار شعرا نے زانوئے ادب تہہ کیا اور ابرار صاحب استاد الاساتذہ کہلائے۔

میری خوش سعادتی کہ وہ بارہا غریب خانے پر تشریف لائے اور ”ادب جزیرہ“ کی تمام نشستوں میں پیری اور ضعف جسمانی کے باوجود شرکت فرماتے رہے۔ گذشتہ دو تین برس سے سانس کے مرض کے باعث انھوں نے باہر آنا جانا بند کر دیا تھا اور اپنے باہری کمرہ میں قید ہو کر رہ گئے تھے۔

زندگی کے آخری ایام تک ابرار کرتپوری صاحب اردو شعر و ادب کی بیش بہا خدمات انجام دیتے رہے۔ حمد و نعت اکیڈمی کے ذریعے کی جانے والی ان کی خدمات و سرگرمیاں تاریخی حیثیت کی حامل ہیں۔ ان کی ایک خاص بات یہ تھی کہ وہ نوجوان اور مبتدی شعرا کی بڑی حوصلہ افزائی فرماتے تھے اور ان کو اپنی محفلوں میں بلا کر ان کا حوصلہ بلند کرتے تھے۔ اسرار رازی اور راجیو ریاض صاحبان کو میں نے پہلی بار ان کی بزم میں دیکھا۔ آج یہ دونوں ہی ملک کے شعری منظرنامے میں ایک اہم نام ہیں۔ ہر شاعر کی طرح ابرار کرتپوری صاحب نے بھی غزل سے اپنی شعری کاوش کا آغاز 1956ء میں کیا لیکن باقاعدہ شعر گوئی 1958ء میں شروع کی اور ان کا یہ سفر بحمدللہ اخیر عمر تک جاری رہا جو تقریباً 64 برسوں پر محیط ہے۔ خود ہی رقمطراز ہیں کہ ”ستر کے دہے میں میری دو کتب ”ورفعنا لک ذکرک“ اور ”خوشبو خیال کی“ طبع ہونے کے لیے تیار تھیں۔ ان دنوں کراچی سے مولانا انجم فوقی تشریف لائے تھے۔ انھوں نے دونوں شعری مجموعے دیکھے اور کہا کہ پہلے غزل کا مجموعہ شائع کرو، نعتیہ مت چھپوانا ورنہ نعتیہ شاعر ہونے کی مہر لگ جائے گی۔ مجھے انجم فوقی صاحب کی بات اچھی نہیں لگی اور ”ورفعنا لک ذکرک“ پہلے شائع کردی اور واقعی نعتیہ شاعر ہونے کی مہر لگ گئی۔ چنانچہ یکے بعد دیگرے کئی نعتیہ کلام کے مجموعے شائع ہوئے۔“ (ماخوذ از مالک یوم الدین)

حمدیہ و نعتیہ شاعری کی طرف ان کا رجحان مظفر وارثی سے ذاتی ملاقاتوں کے بعد بڑھا۔ وہ مولانا احمد رضا  خاں کی نعتیہ شاعری سے بھی بہت متاثر تھے۔ وہ شاعری میں نئے نئے تجربات بھی کرتے رہتے تھے جس سے ان کی شاعری کو ایک تازگی ملتی تھی۔ انھوں نے صنعت توشیح میں محامد لکھے جس کا مجموعہ 2016میں ”مالک یوم الدین“ کے نام سے شائع ہو کر مقبول ہوا۔

ابرار کرتپوری صاحب حمد و نعت اکیڈمی کے بانی جنرل سکریٹری تھے اور تادم آخر وہ اس خدمت پر مامور رہے۔ اس اکیڈمی نے پاکیزہ اصناف سخن کی ترویج و اشاعت کی خاطر پچاس حضرات کی خدمات کو سراہتے ہوئے ایوارڈس پیش کیے، سالانہ تقسیم انعامات اور کل ہند مشاعرے منعقد کیے۔ انھوں نے ادب اطفال پر بھی نظر التفات کی اور بچوں کی نظموں اور کہانیوں کے مجموعے بھی شائع کیے۔ انھوں نے علمی و تخلیقی سرمایہ کے طور پر تقریباً تین درجن کتب کا مایہ ناز ذخیرہ چھوڑا ہے۔ ابرار کرتپوری صاحب حمد و نعت کی شاعری کو جزو بندگی مانتے تھے، طرز اطاعت کہتے تھے۔ لہٰذا ان کے تخلیق کردہ حمدیہ اور نعتیہ اشعار میں ایک عجب روحانیت اور جذبہ کی پاکیزگی در آئی ہے۔ حمد کے یہ اشعار ملاحظہ فرمائیے:

فکر و قلم کی خاص عبادات پیش کر

رب کے حضور حمد کی سوغات پیش کر

ابرار تیرا طرز اطاعت ہے شاعری

توحید کردگار کے نغمات پیش کر

وہ لکھتے تو تھے ہی بہت خوب، جن لوگوں کو انھیں سننے کا شرف حاصل ہوا ہے وہ جانتے ہیں کہ وہ خوش گلو بھی تھے اور دھیمے دھیمے لہک کر غزل سرا ہوتے تھے، ان کا یہ انداز مجھے بہت پسند تھا۔ ان کی شخصیت اور فن پر لکھنے کے لیے بہت کچھ ہے، وقت نے مہلت دی تو پھر خامہ فرسائی کروں گا اور ان کی ذات و صفات پر مزید قلم آرائی کروں گا۔ آپ سبھی سے درخواست ہے مرحوم ابرار کرتپوری صاحب کے لیے دعا فرمائیَ اللہ انھیں غریق رحمت فرمائے۔ (آمین)

علامہ قاضی ابرار کرت پوری اور ناصر عزیز برسوں کا یارانہ گیا

کرت پور، بجنور، امروہہ، اردو شاعری، حمد و نعت، نعت پاک، ناصر عزیز، ابرار کرت پوری،

Recommended