Urdu News

شہر الہٰ آباد میں ساہتیہ اکادمی کی جانب سے ”اکبر الہٰ آبادی“ کے 175ویں یوم پیدائش پرسمپوزیم

شہر الہٰ آباد میں ساہتیہ اکادمی کی جانب سے ”اکبر الہٰ آبادی“ کے 175ویں یوم پیدائش پرسمپوزیم

الہٰ آباد،(ابوشحمہ انصاری)

ساہتیہ اکادمی نئی دہلی کی جانب سے اکبر الہٰ آبادی کی175ویں یوم پیدائش کے موقع الہٰ آباد میوزیم ہال میں سیمینار،محفل مشاعرہ اور کتاب رسم اجرأ کا پروگرام منعقد کیا گیا۔یہ پروگرام تین حصوں میں عمل میں آیا۔سب سے پہلے اردو تحقیق و تنقید کے سنگ میل پروفیسر گوپی چند نارنگ اور شعبۂ اردو الہٰ آباد یونیورسٹی کی پروفیسر عطیہ نشاط کی یوم وفات پران کے اعزاز میں ۲منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔اس کے بعد سرسوتی وندنا کے ساتھ اس پروگرام کا افتتاح ہوا۔

افتتاحی اجلاس میں خیر مقدمی کلمات انوپم تیواری (ایڈیٹر ساہتیہ اکادمی،نئی دہلی) نے پیش کیا،انھوں نے کہا کہ ساہتیہ اکادمی ہمیشہ بزرگ شاعر و ادیب کونئی نسل سے ربرو کرانے اور یاد کرنے کا کام کرتا رہتا ہے،ہمارے لیے یہ فخر کی بات ہے کہ اکبر الٰہ آبادی کو انھیں کے شہر میں یاد کرنے کے لئے ہم سب جمع ہوئے ہیں۔جب کہ افتتاحی اجلاس کی صدارت شبنم حمید صاحبہ (صدر شعبہ  اردو،الہٰ آباد یونیورسٹی) نے کرتے ہوئے کہا کہ”اکبر الہٰ آبادی کی شاعری زمانی،مکانی اور معنوی تہہ داری تینوں ہی اعتبار سے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔اکبر الٰہ آبادی پر اس طرح کا معنی خیز پروگرام ہونا واقعی قابل مبارکباد اور تاریخی ہے“۔

اس اجلاس میں مہمان خصوصی پروفیسر ہریمب چترویدی (سابق صدر شعبۂ تاریخ الہٰ آباد یونیورسٹی) رہے انھوں نے اکبر الٰہ آبادی کی تاریخی اہمیت پر روشنی ڈالی،جب کہ کلیدی خطبہ پروفیسر حسین احمد (پٹنہ)نے ادا  کرتے ہوئے کہا کہ ”اکبر الٰہ آبادی کے تصوف پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ انھیں روحانی قدریں عزیز تھیں اور مشرقیت کو مرعوبیت اور مغلوبیت سے بچانے کے لئے انھوں نے مغربی تہذیب و تعلیم کی مخالفت کیں۔“اس اجلاس میں ڈاکٹر اجئے مالوی (رکن جنرل کونسل،ساہتیہ اکادمی) کی کتاب ”غبار فکر“ کی رسم اجرأ عمل میں آئی،جس کا تعارف ڈاکٹر صالحہ صدیقی نے پیش کرتے ہوئے کہا ”اجئے مالوی عالمگیر شہرت یافتہ شاعر،ادیب،محقق،نقاد اور دیگر تخلیقی ذہنیت کے مالک ہمہ جہت ہمہ صفت تخلیق کارہیں۔ان کی کئی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں اور قارئین سے داد و تحسین وصول کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔ ان کی تازہ تصنیف ”غبار فکر“ تحقیقی نوعیت کی ہے۔یہ کتاب جئے بھارتی پرکاشن الٰہ آباد سے شائع ہوئی ہے،یہ کتاب 520 صفحات پر مشتمل ہے۔جس میں اجئے مالوی کے تحقیقی و تنقیدی مضامین شامل ہیں“اس کے بعد پہلا اجلاس شروع ہوا جس کی صدارت نسیم احمد نے کی،اس اجلاس میں کل چھ مقالے پڑھے گئے جن میں حقانی القاسمی،روی نندن سنگھ،جگدمبا دوبے،منصور عالم،اسرار گاندھی اور ڈاکٹر صالحہ صدیقی کے نام شامل ہیں۔

اس موقع پر حقانی القاسمی صاحب نے اکبرالہٰ آبادی پر مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا”اکبرالٰہ آبادی کے فکری و ذہنی تضادات اور لسانی اجتہاد کے حوالے سے شروع کرتے ہوئے،نو آبادیاتی نظام کے خلاف،اکبر کے احتجاجی بیانیے کو صحیح سیاق و سباق میں سمجھنے اور کلام اکبر کی تفہیم نو پر زور دیا۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ اکبر اپنے ڈکشن،لفظیات میں ہمیشہ زندہ رہیں گے وہ ہماری اجتماعی یادداشت میں محفوظ ہیں اور ان کے بہت سے اشعار آج بھی بطور حوالہ استعمال میں آتے ہیں۔“صدارتی کلمات پیش کرتے ہوئے نسیم احمد نے اس پروگرام کو تاریخی بتایا اور اکبر الٰہ آبادی کی ہمہ جہت اور ہمہ صفت ہونے کے نکات پر بھرپور روشنی ڈالی۔

بعد ظہرانہ اس پروگرام کا دوسرا اور آخری اجلاس شعری نشست کا آغاز کیا گیا جس کی صدارت ساہتیہ اکادمی ایوارڈ یافتہ چندربھان خیال نے انجام دیں اس شعری نشست میں شری رام مشرا،طلب جونپوری،دانش الٰہ آبادی،مخدوم پھول پوری،سشانت چٹوپادھیائے،اجئے مالوی نے اپنے کلام پیش کیے۔اس کے بعد چندر بھان خیال صاحب نے صدارتی کلمات پیش کرتے ہوئے اکبرالٰہ آبادی کی شخصیت اور فن پر روشنی ڈالی اسی کے ساتھ یہ پروگرام اپنے اختتام کو پہنچا۔آخر میں ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے حقانی القاسمی،چندربھان خیال،حسین صاحب اور انوپم تیواری کو ان کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں اعزاز سے بھی نوازا گیا۔شکریہ کی رسم اس پروگرام کے روح رواں اور کنوینر اجئے مالوی نے ادا کیا اور اس پروگرام کی نظامت اور حسن انتظام ڈاکٹر صالحہ صدیقی نے کیا۔اس پروگرام میں بھرپور تعداد میں سامعین نے شرکت کیں اور جوش و خروش کا مظاہرہ کیا۔

Recommended