انجم انصاری: با کمال شاعر، بے دار صحافی اور مشفق مصلح قوم
حاجی انصاری نظام الدین 5 جنوری 1928 کو ممبئی میں پیدا ہوئے اور علمی ادبی دنیا میں انجم انصاری کے نام سے جانے گئے۔ انجم انصاری کے آبا و اجداد کا تعلق اتر پردیش کے تاریخی قصبہ مجھر ہٹہ، ضلع سیتا پور سے تھا۔
انجم انصاری اپنے زمانے کے استاد شاعر حضرت منیر الہ آبادی کے شاگرد تھے۔ انھوں نے اردو ٹائمز میں دس سال تک بطور اعزازی ادارتی رکن اپنے فرائض انجام دئے۔ انجم انصاری نے اسکولی تعلیم محض میٹرک تک حاصل کی تھی لیکن زندگی کا تجربہ وسیع تھا۔ انھوں نے ممبئی کے مشہور شکتی مل میں بطور اسسٹنٹ سپر وائزر کام کیا۔ وہ کئی اہم اخبارات سے بھی وابستہ رہے۔ وہ الف الف کے نام سے اخبارات میں کالم لکھا کرتے تھے۔ بطور صحافی و استاد شاعر انھوں نے عروس البلاد ممبئی میں اپنی الگ پہچان قائم کی۔
انجم انصاری آل انڈیا مشاعروں میں شرکت کرتے تھے جہاں انھیں بے پناہ پسند کیا جاتا تھا۔ اسی کے ساتھ وہ کانفرنس اور سمینار میں بھی شرکت کرتے تھے اور اپنی فکر کی چھاپ چھوڑتے تھے۔
انجم انصاری کی شعری تصنیفات ہیں۔ انجمنستان 1997۔غزلستان انجم (شعری مجموعہ) پہلا ایڈیشن 2001۔
غزلستان انجم (شعری مجموعہ) دوسرا ایڈیشن 2018
انجم انصاری کو کئی اہم انعامات و اعزازات سے نوازا گیا جیسے غزلستان انجم پر اردو اکادمی اتر پردیش کی جانب سے انعام و سند۔ نشان ہندوستان برائے سماجی و ادبی خدمات منجانب روز نامہ ہندوستان ممبئی۔
اعزاز برائے فروغ اردو زبان منجانب اردو گگن سنسستھا ممبئی۔
انجم انصاری کے شعری مقام و مرتبہ کا اعتراف کرتے ہوئے ابھی حال کے دنوں میں دہلی دوردرشن نے ان کی شخصیت و شاعری پر ایک بھرپور پروگرام بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ڈی ڈی اردو پر ایک بہت کامیاب اور خوبصورت پروگرام ”شعر و سخن“ چل رہا ہے۔ یہ پروگرام ڈی ڈی اردو پر ہر جمعہ کو رات ساڑھے نو بجے اور ہر سنیچر کو دن میں ایک بج کر تیس منٹ پر نشر کیا جاتا ہے۔ اس کڑی میں مخدوم محی الدین، جاں نثار اختر، وامق جونپوری، اختر الایمان، کیفی اعظمی، سردار جعفری، مجروح سلطان پوری، ساحر لدھیانوی اور مجاز جیسے شعرا پر پروگرام بنایا گیا ہے۔ اسی کڑی میں ان انجم انصاری کی شخصیت و شاعری پر بھی پروگرام بن رہا ہے۔ پروگرام شعر و سخن کے پروڈیوسر ممتاز شاعر خالد اعظمی، اسسٹنٹ شاکر شہزاد، ریسرچر نوشاد عالم ندوی، اور پروگرام کے اینکر شاعر و ادیب ڈاکٹر شفیع ایوب ہیں۔ اس پروگرام ”شعر و سخن“ کا شمار ڈی ڈی اردو کے مقبول ترین پروگرام میں کیا جا رہا ہے۔
ایک بھرپور، کامیاب اور با مقصد زندگی گزار کرانجم انصاری 24مارچ سنہ 2018 کو اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ ممبئی کے ناریل واڑی قبرستان میں ان کی آخری آرام گاہ ہے۔
بقول آل احمد سرور فن کی وجہ سے فنکار عزیز اور محترم ہونا چاہیے۔ فنکار کی وجہ سے فن نہیں۔ یہی بات انجم انصاری پر پوری طرح صادق آتی ہے۔اُن کی فن سے سرشار شاعری نہ صرف قاری کو متاثر کرتی ہے بلکہ خود انجم انصاری کی شخصیت کو بھی جِلا بخشتی ہے۔
غم ایک لازوال اور فطری جذبہ ہے۔حزنیہ افکارکم و بیش ہر شاعر کے شعری شعور کا حصہ ہوتے ہیں۔غم و الم سے عبارت کلام ہر عہد اور ہر رُت میں ہر دلعزیز اور مقبول رہتا ہے۔حزن و ملال سے منسوب شاعری تا دیر زندہ رہتی ہے اور اس کے اثرات دیر پا ہوتے ہیں۔ ہر تخلیق کار اپنے سماج کا نمائندہ ہوتا ہے اس لیے اس کے تخلیق کردہ ادب میں ایک سماجی کرب پنہاں ہوتا ہے اور وہ اپنی معاشرت کا عکاس ہوتاہے۔ معاشرے کے دکھ درد کا بیان اس کی قوتِ متخیلہ کا حصہ ہوتا ہے۔
غم ومحبت کے سوا اُن کے یہاں ایک خود اعتمادی کی فضا بھی ہے۔وہ اپنے کردار سے بخوبی واقف ہیں اس لیے ان کے شعری مخزن میں بے پناہ جسارتیں ہیں۔
کس شعلہ رُخ نے رکھّا اپنا قدم چمن میں
آتش کدہ ہے روشن پھولوں کی انجمن میں
اُن پر بھی چل گیا کیا میرے جنوں کا جادو
مجھ کو پکارتے ہیں غیروں کی انجمن میں
کیا درد کا کوئی ازالہ ہے؟ زندگی کے تجربات و مشاہدات کا عکسِ جمیل بھی ان کے فکری کینوس میں قاری کے لیے آغوش کشا نظر آتا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ حقیقی زندگی کا وسیع تر ادراک رکھتے ہیں اس لیے ان کے آدرش میں ایک ہمہ گیری بھی جلوہ ریز ہے۔
زندگی کا کرب تخلیقی اظہار میں داخلی احساسات کو فروغ بخشنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔
شعلہ غم ہی سہی دل میں چراغاں ہوجائے
گل نہیں ہے تو شراروں سے بہاراں ہوجائے
کو?ی اتنا بھی غموں سے نہ پریشاں ہوجائے
ضبط ایک اور ہی پہلو سے نمایاں ہوجائے
حضرت شیخ سعدی کا قول ہے ”تمہاری اَصل ہستی تمہاری سوچ ہے باقی تو گوشت اور ہڈیاں ہیں“۔ بات ہے بھی دل کو لگنے والی انسان کو اللہ نے علم سے فضیلت عطا کی ہے جس کا محور سوچ ہی ہے اپنی سوچوں کو بہترین پیرا ئے میں پرو کر لفظوں کو مالا کا روپ دینا انجم انصاری کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے اسی وجہ سے ان کی کے سخن کا معیار دوسروں سے جدا ہے۔
جلوہ حُسن سے پردہ کا گلہ کیا کرنا
ہم کو آتا ہے تصور میں نظارا کرنا
اعتبار اُن کو نہ آئے تو یہ اُنکی قسمت
عشق میں ہم نے تو سیکھا ہے بھروسہ کرنا
میں سمجھتا ہوں محبت کی نزاکت انجم
ورنہ آتا ہے مجھے محبت میں عرض تمنا کرنا
انگریزی فلاسفر فروسٹ نے کہا تھا کہ جذبات کو تصور اور تصور کو جذبات مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے۔اصل تعریف کیا ہے؟ اس پر آج تک کوئی متفقہ رائے سامنے نہیں آ سکی۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس کوہر شخص مختلف زاویوں اور مختلف جہتوں سے پرکھتا ہے جبکہ منظرنگاری اپنے حساب سے کرتا ہے۔انجم انصاری کے دائرہ وسعت کی عکاسی درج ذیل اشعار میں نمایاں طور پر نظر آتی ہے:
میں غرق ہوسکا نہ بھٹک ہی سکا کہیں
یوں دیکھتے ہیں میری طرف بحر و بر کہ بس
جاری رہے شغلِ مے و مینا کوئی دن اور
چلتا رہے مستی کا تماشا کوئی دن اور
مل جاتی مجھے شہرت لافانی جہاں میں
ہوتا جو ترے نام سے رُسوا کوئی دن اور
شعر کی موزوئیت کا انحصار وجدانی کیفیت پر منحصر ہے جو افتاد ِطبع اور آمدِ آورد کے وقت مختلف ہوسکتا ہے،اس لیے جمالیات میں حقائق ڈھونڈے نہیں بلکہ تخلیق کیے جاتے ہیں۔
اِسی چیز کا اطلاق شعر پر بھی ہوتا ہے،کہنے والوں نے بہت کچھ کہا ہے۔مثلاً کسی نے کہا ہے کہ جو کلام قوت متخیلہ سے وجود میں آئے وہ شعر ہے یا پھر یہ کہ شعر رواں اور مترنم الفاظ میں دلی کیفیات کا اظہاریہ ہے۔انجم انصاری نے اپنے قلم کو کچھ یوں جنبش دی ہے:
ترے سوا کوئی احساس میں سما نہ سکا
بدل کے رُوپ نئے ان گنت صنم گزرے
آج پھر چمکتی ہے روشنی گلستاں کی
آج پھر لرزتی ہے شاخ آشیانے کی
عشق کرنا تھا ہم کو کرگزرے
خیر سے جو بھی جان پر گزرے
رسن و دار رہ گئے تکتے
اور دیوانے کام کر گزرے
نظرچُرا کے تمھیں دیکھتے، تو دیکھا ہے
مرا یقین ہو تم، یا گماں یہ سوچوں گا
انجم انصاری کی شاعری میں مختلف رنگ و نور کی کرنیں نظر آتی ہے، کہیں ان کے اشعار میں میر ؔ کا درد نظر آتا ہے، تو کہیں غالبؔ کی جھلک نظر آتی ہے، کہیں اقبالؔ کا فلسفہ اُبھرنے لگتا ہے۔
جان جائے کہ رہے، راہِ وفا میں انجمؔ
ہم کو جو کہنا ہے، بے خوف و خطر کہتے ہیں
بغیر عشق سکونِ جگر نہیں ملتا
شب سیاہ میں نورِ سحر نہیں ملتا
پہلے جلوہ نہ دکھایا جائے
پردہ آنکھوں سے اُٹھایا جائے
انجم انصاری زندگی کے رَموز سے باخبر فنکار تھے۔ وہ حقیقت کو ایسی زبان عطا کرتے تھے کہ پڑھنے والاچارو ناچار اُن کا حامی بن جاتا تھا۔
یہ دور دورِ عیب ہے اس میں ہنر کہاں
خالی صدف میں ڈھونڈ رہے ہو گُہر کہاں
ہر ایک سمت سے یلغار ہے تلاطم کی
عجیب نیند ہے ملاّح چونکتا بھی نہیں
میرے خونِ ناحق میں آپ بھی تو شامل ہیں
قابلِ سماعت ہے آپ کی گواہی بھی
مُنصِفانِ عصر نو فیصلے کریں لیکن
رنگ لائے گی آخر میری بے گناہی بھی
انجم انصاری کے ہر شعر میں فکر و نظر کا کمال بدرجہ اتم نظر آتا ہے اس لحاظ سے وہ یقیناََ کمال کے شاعر تھے یا یوں کہیے کہ وہ باکمال شاعر تھے۔ ”غزلستان“ اُن کے مجموعی کمال کامجموعہ ہے۔اسی لیے جب کوئی قاری اُن کی شاعری پڑھتا ہے تو بے ساختہ کہتا ہے ”کمال کی شاعری ہے“میں نے مزاقاََ ایک مرتبہ کہہ بھی دیا ”بھائی صاحب یہ کمال کی شاعری نہیں، انجم انصاری کی شاعری ہے“
(ترتیب و پیشکش: فیاض انصاری و فاروق سید)