Urdu News

باقیؔ اورجہانِ باقیؔ

باقیؔ اورجہانِ باقیؔ کا سرورق

ڈاکٹر ابرار رحمانی

جہانِ باقی در اصل باقی احمد پوری کے اب تک کے سبھی بارہ مجموعہ ہائے کلام کا انتخاب ہے جسے ڈاکٹر افروز عالم نے بڑی ہی محنت اور دیدہ ریزی سے انجام دیا ہے،لیکن آج میرا دل چاہتا ہے کہ یہاں غزل سے متعلق کچھ تلخ و شیریں احساسات کا اظہار کروں۔ غزل دنیا کی مقبول ترین صنف سخن ہے۔

اب غزلوں کو صرف اردو والے یامسلمان ہی نہیں سنتے ہیں یا پڑھتے ہیں اور پسند کرتے ہیں بلکہ اب اس کا دائرہ مختلف ممالک کی مختلف زبانوں تک پھیل چکا ہے۔ حالانکہ غزل جتنی مقبول رہی ہے اتنی ہی معتوب اور مطعون رہی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ غزل کی مخالفت کرنے والے بھی پہلے اسے شوق سے سنتے ہیں، محظوظ ہوتے ہیں اور پھر اس کی مخالفت بھی کرتے ہیں۔

لیکن یہ غزلیں زیادہ تر مشاعروں کے ذریعے سامعین تک پہنچتی ہیں۔ اور مشاعروں میں غزل کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے ہم اس سے اچھی طرح واقف ہیں۔ اس کی وجہ سے دن بدن غزل سوقیانہ ہوتی جارہی ہے۔ آج اکثر شاعر مشاعرے میں ٹکے رہنے کے لیے ترنم کا سہارا لیتے ہیں اور جو ترنم سے نہیں پڑھ سکتے وہ ایکٹنگ کا سہارا لیتے ہیں۔

اس سے بھی اگر بات نہیں بنتی تو گداگری کرتے ہیں۔ یہ صرف چھوٹے موٹے شاعر ہی نہیں بڑے اور مشاعرہ باز شاعر بھی کھلے عام داد کی بھیک مانگتے نظر آتے ہیں اور سامعین تالیاں بجاکر انھیں داد سے نوازتے رہتے ہیں۔ مشاعرے کی تہذیب ہر گز اس کی اجازت نہیں دیتی۔ ہمارے بزرگوں نے مشاعرے کا جو ماحول بنایا تھا اس میں تعریف کی جگہ سبحان اللہ اور ماشاء اللہ ہوا کرتا تھا یا پھر مکرر ارشاد کافی ہوتا تھا۔ تالی بجانے جیسی عامیانہ حرکت کی کوئی گنجائش نہ تھی، اسے انتہائی معیوب سمجھاجاتا تھا۔ برصغیر ہندو پاک میں اس طرح کے ترنم باز، ایکٹراور گداگر قسم کے شاعر بہت پائے جاتے ہیں۔

آج غزل کو عالمی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ اب غزل صرف اردوغزل یا ہندی گجل(معاف کریں گے ہندی والے ایسے ہی بولتے ہیں) تک محدود نہیں بلکہ اس کا ترجمہ کراکے دنیا کی دیگر ترقی یافتہ زبانوں میں بھی اسے پڑھا اور سمجھا جارہا ہے۔ اور پھر کوئی اچھا غزل سنگر اسے اپنے رنگ و آہنگ سے آراستہ و پیراستہ کرکے دوآتشہ بنادیتا ہے۔

چنانچہ شائقین اب فلمی گانوں پر اچھی غزلوں کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ باقی احمد پوری کا ’جہان باقی‘ اس وقت میرے سامنے ہے، خاصا ضخیم ہے۔ اسے بڑے ہی اہتمام کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔ یہ کتاب اصلاً دوحصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں ۸مضامین ہیں جو ظاہر ہے نثر میں ہیں۔ اور جوباب تحسین و تعریف کا حکم رکھتے ہیں۔ ظاہر ہے ایک شریف انسان دوسرے شریف انسان کی تعریف و تحسین ہی کرے گا سو یہاں بھی ہمیں بدرجہئ اتم یہی دیکھنے کو ملتا ہے۔

 ۴۴۴ صفحات پر مشتمل اس ضخیم اور دیدہ زیب شعری مجموعے میں ۲۲۲ منتخب غزلیں ہیں۔واضح ہو کہ اس انتخاب سے پہلے باقی احمد پوری کے بارہ شعری مجموعے چھپ کر شائقین سے داد و تحسین وصول کرچکے ہیں۔ ان بارہ شعری مجموعوں کو شاید خاطر خواہ پذیرائی ملی ہے تبھی توشاعر نے یکے بعد دیگربارہ مجموعے شائع کیے ہیں۔

اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ شاعر کا تعلق پاکستا ن سے ہے جہاں اردو سرکاری زبان ہے۔ ظاہر ہے کہ سرکاری زبان کو سرکاری سرپرستی بھی حاصل ہوگی ہی۔ اس کے باجود ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ بیشتر شعری مجموعے فروخت نہیں ہوتے۔ اس میں ہندوستان اور پاکستان میں کوئی تفریق نہیں۔ آج بھی ہندو پاک کے اردو بازار میں میر، غالب اور اقبال کا ہی سکہ چلتا ہے۔ اور بہت ہوا تو فیض، ناصر کاظمی، احمد فراز اور پروین شاکر پر نظر ڈال لی جاتی ہے۔

باقی احمد پوری نے ایک صحرائی عرب ملک کویت میں غم روزگار کا باراُٹھانے کے لیے آج سے چوبیس سال پہلے وہ پاکستان سے کویت پہنچے۔ اور ایسا لگتا ہے گویا اب وہ یہیں کے ہو کر رہ گئے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ جس کا رزق جہاں کا لکھا ہوتا ہے وہیں اسے ملتا ہے۔ فطرت کا اشارہ پہچاننا کامیابی کی ضمانت ہے۔

خیر! جیسا کہ میں نے پہلے ہی آپ کو بتایا کہ زیر نظر کتاب جو باقی احمد پوری کے بارہ شعری مجموعوں کا جامع انتخاب ہے۔ حالانکہ اسے ہم کوئی کارنامہ سے تعبیر نہیں کرسکتے لیکن بہرحال ایک کام تو ہے ہی۔ اس کتاب کے مرتب نے شروع میں ہی گذارشات کے تحت کتاب کے اشاعت کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ افروز عالم بھی پچھلے بیس برسوں سے اس صحرا کو گلزار بنانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ اب ان کو جتنا کویت کے بارے میں معلومات ہے اتنا  اپنے وطن مالوف کے بارے میں بھی شاید پتہ نہ ہو۔ ان کا صرف ایک جملہ ملاحظہ کریں، فرماتے ہیں:

”کویت کی قومی زبان عربی ہے۔ دفاتر میں انگریزی کا بول بالا ہے جب کہ بازاروں میں اردو کی دھوم ہے۔ یہ بات اب جگ ظاہر ہوچکی ہے۔“

خیر اب یہ دیکھیے کہ ذکر ہو رہا تھا جہاں باقی کا اور بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ گویا ذکر جب چھڑگیا قیامت کا، بات پہنچی تیری جوابی تک۔تو معزز قارئین اس کے لیے میں معافی چاہتا ہوں اور اس سے پہلے کہ میں پھر سے بھٹک جاؤں آئیے ہم جلدی سے جہاں باقی کے اشعار پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔

زیر نظر انتخاب میں ۲۲۲ غزلیں ہیں اور ان میں سے بیشتر غزلیں دو صفحات پربسیط ہیں۔اور ان میں سے ہر غزل میں ایک آدھ شعر تو ایسے ضرور ہیں جنھیں ہم اچھا کہہ سکتے ہیں۔ اس طرح کم از کم ۲۲۲ /اشعارتو چھانٹ ہی سکتے ہیں۔ جن پراپنی رائے دے سکیں لیکن کیا یہ ممکن ہے؟ چند اشعار دیکھیں:

ساری بستی میں فقط میرا ہی گھر ہے بے چراغ

تیرگی سے آپ کو میرا پتہ مل جائے گا

٭

تم نے محلوں کے علاوہ نہیں دیکھا کچھ بھی

ہم تو فٹ پاتھ سولیں گے ہمارا کیا ہے

٭

تو نے بھی موسموں کی پذیرائی چھوڑدی

اب شوق ماہ و سال مجھے بھی نہیں رہا

٭

مجھ سے بچھڑ کے وہ بھی پریشان تھا بہت

جس کی نظر میں کام یہ آسان تھا بہت

بنیادی طور پر ہرغزل گو شاعر عشق و عاشقی کا شاعر ہوتا ہے۔ اور غزل کی شاعری میں عشق و محبت، زلف و رخسار کی باتیں ہوتی آئی ہیں اور ہوتی رہیں گی لیکن آج کی غزل میں چند ایسے جیالے بھی ہیں جو غزل کی عشقیہ شاعری کو بھی جدت و ندرت سے آراستہ و پیراستہ کرتے رہتے ہیں۔ بے شک باقی صاحب نے بھی غزل کی اس خوبی کو بخوبی نبھایا ہے۔

ترے جمال کی جب بات کرنے لگتے ہیں

خیال و فکر میں سو رنگ بھرنے لگتے ہیں

ترے بغیر کہان زندگی میں جوش و خروش

تم نہ ہوتو سمندر اتر نے لگتے ہیں

لیکن جدید غزل میں غزل سے متعلق شعرا کے انداز بدلے ہیں اب شعرازندگی کے سرد و گرم پر پینی نظر رکھتے ہیں۔ باقی احمد پوری بھی اس صورت حال سے دوچار ہوتے ہیں اور اس کو اپنی تخلیقات میں پیش کرتے ہیں:

باقی ہمیں تو فرصتِ امروز بھی نہیں

کل کیا کریں گے اس کا ارادہ نہیں کیا

٭

حق بات پہ کیا زہر کا وہ جام پئیں گے

اک ساغر مے بھی جنھیں پینا نہیں آیا

باقی احمد پوری غزل میں عشق و محبت، زلف و رخسار کی باتوں کے والہانہ اظہارپر رطب اللسان نظرآتے ہیں:

پی لی ہے غم عشق سے گھبرا کے ذرا سی

اب گردش حالات کو آواز نہ دینا

٭

یہی تو عشق میں ہوتا ہے جو ہوا باقیؔ

شکست دل کا سبب چشمِ تر سے کیا پوچھیں

٭

عشق میں ہاں سے ہاں ملاتے ہیں

عشق میں ایں و آں نہیں ہوتی

٭

تم ترک محبت کی قسم کھا تو رہے ہو

دیکھیں گے کہ ہم دل سے اتر جاتے ہیں کیسے

٭

جہاں بھی گیا ہوں زمانے میں باقی

مرا خیر مقدم ہوا والہانہ

٭

محبت ہے ماسلک، غزل ہے بہانہ

ہے رنگ سخن بھی ذرا عاشقانہ

غزل سے متعلق اپنے نظریے کو ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں کہ جن سے ان کے رنگ سخن کا پتہ چلتا ہے۔ جو والہانہ باقی صاحب کے خیر مقدم کا بہانہ بن جاتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ والہانہ کا لفظ شاعری میں میرے موقف کی بہتر ترجمانی کرتا ہے۔ شاعری کو بلخصوص غزل کو شاعرانہ عاشقانہ اور والہانہ ہی ہونا چاہیے۔ اکثر دیکھنے اور سننے میں آیا ہے کہ جہاں شاعر اپنی علمیت کا رعب و دبدبہ دکھانے کی کوشش کرتا ہے وہاں شاعری کا عنصر یکسر مفقود ہوجاتا ہے۔ شاعری کا ظاہر جتنا آسان نظر آتا ہے اتنا ہی مشکل ہے۔ میراخیال ہے کہ شاعری کو فنون لطیفہ میں شمارنہیں کرنا چاہیے۔ یہ تو عطائے ربی ہے جسے مل جائے اسے مل جائے۔

غزل گوئی اور وسخن فہمی یہ ایک شاعر کے لیے گویا مرصع سازی اور سامع کے لیے پارکھی کا کام ہے اور جو اس راز کو پالیتا ہے وہ اس میدان میں کامیاب و کامران ہوتا ہے۔ بلاشبہ اس میدان میں انھیں دسترس حاصل ہے۔ تشبیہات و استعارات کے جگنو رات کے اندھیرے میں ستاروں کے مانند ہمارے قریب ٹمٹماتے ہیں تو ہمیں یک گونہ اطمینان بھی ہوتا ہے اور خوشی بھی:

ساری بستی میں فقط میر ا ہی گھر ہے بے چراغ

تیرگی سے آپ کو میرا پتہ مل جائے گا

٭

خوفِ تاریکیٔ حیات نہیں

اشک روشن ہیں قمقموں کی طرح

اب کبھی لوٹ کر نہ آئیں گے

ہم ہیں بیتے ہوئے دنوں کی طرح

٭

میں اک شاعر ہوں دوانہ ہوں باقیؔ

مری باتوں میں کیا رکھا ہوا ہے

٭

رہنے دو مجھے اپنے تصور ہی میں باقی

میں لفظ بنوں گا تو سنائی نہیں دوں گا

غرض باقی احمد پوری کے شعری ذخیرے پرایک نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ان کلام میں جا بجا ایسے خوب صورت اور معنی خیز اشعار مل جاتے ہیں جو غزل کے روایتی حسن کو برقرار رکھتے ہیں اور جن سے انھیں آفاقیت حاصل ہوتی ہے۔

تزئین اپارٹمنٹ179/22ذاکر نگر، نئی دہلی110025

فون نمبر:9911455508 / 8860944899

Recommended