کانگریس ایم ایل اے ڈاکٹر شکیل احمد خان کا سنسکرت زبان میں حلف لینا کیامحض ایک سیاسی داؤں تھا؟
سنہ 2020کو کورونا کی وبا اور لاک ڈاؤن کے لئے یاد کیا جائے گا۔ مارچ 2020میں پورے ملک میں لاک ڈاؤن لگا دیا گیا۔ ہر شخص پریشان اور دہشت زدہ تھا۔ تین ماہ بعد جون کے مہینے میں کہیں کہیں کچھ راحت ملنے لگی۔ ان حالات سے ابھی پوری طرح ابر بھی نہیں پائے تھے کہ بہار میں اسمبلی الکشن کا اعلان ہوا۔ تمام اگر مگر کے بعد آخر کار الکشن ہوئے اور تیجسوی یادو وزیر اعلیٰ بنتے بنتے رہ گئے۔ نتیش کمار کی پارٹی جدیو اور بی جے پی نے مل کر حکومت بنائی۔ نئی اسمبلی میں جب حلف لینے کے لئے ایم ایل اے پہنچے تو دنیا بھر کی نگاہیں بہار اسمبلی کی طرف تھیں۔ حلف برداری کے دوسرے دن بہار کے باہر بھی ہر طرف میڈیا میں ڈاکٹر شکیل احمد خان کے چرچے تھے۔ دراصل بہار اسمبلی کے الکشن میں کامیاب ہو کر ڈاکٹر شکیل احمد خان نے خوب سرخیاں حاصل کیں۔ انھوں نے سنسکرت زبان میں حلف لیا۔ وہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی سے اُردو زبان میں پی ایچ ڈی ہیں۔ شکیل احمد خان دوسری بار بہار کے کدوا اسمبلی حلقہ سے منتخب ہوئے ہیں۔ وہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں اسٹوڈنٹ یونین کے پریسیڈنٹ رہ چکے ہیں۔ وہ اسٹوڈنٹ لیڈر کے طور پر بے پناہ مقبول تھے۔ مرحوم سنیل دت صاحب جب مرکزی حکومت میں وزیر تھے تو ڈاکٹر شکیل احمد خان کو بے حد قریب رکھتے تھے۔ ڈاکٹر شکیل احمد خان مرحوم رام بلاس پاسوان کے بھی بہت قریبی ساتھی رہے ہیں۔ ڈاکٹر شکیل احمد خان نے سنسکرت میں حلف لے کر ایک نئی بحث کا آغاز کر دیا ہے۔ کچھ لوگ سوال کر رہے ہیں کہ ایک مسلمان کو آخر سنسکرت میں حلف لینے کی ضرورت کیا تھی؟ جبکہ نیشنل میڈیا میں اسی حلف کے حوالے سے ڈاکٹر شکیل احمد خان چھائے رہے۔ اسی تناظر میں ڈاکٹر شفیع ایوب کا یہ مختصر مضمون دیکھیں اور فیصلہ کریں کہ مسلمان اور سنسکرت کا کیا رشتہ ہونا چاہئے؟
ہمارے ملک کے مسلمان بچے سنسکرت زبان کیوں نہیں پڑھتے؟ سنسکرت ایک قدیم زبان ہے۔ اس زبان پہ حکومت کی نوازشیں ہیں۔ اس زبان میں قدیم ہندوستان کا علمی ادبی سرمایہ ہے۔ مسلمانوں کو اس زبان سے کیا پریشانی ہے؟ زبانوں کا اپنا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔
سنسکرت زبان میں صرف ایک روزنامہ ”سُدھرما“ کرناٹک کے شہر میسور سے شائع ہوتا ہے۔ کچھ لوگ سنسکرت کو ایک مردہ زبان قرار دیتے ہیں۔ اس فارمولے کے تحت کہ ”بھاشا بہتا نیر“۔ اس میں کسی حد تک سچائی بھی ہے کہ بھاشا یعنی زبان کا تعلق اگر ہماری روز مرہ کی زندگی سے نہیں ہے تو اسے مردہ زبان قرار دیا جائے۔ زبان کا کام ترسیل ہے۔ ہمارے خیالات، جذبات، اطلاعات یا خبر کو کسی تک پہنچانے کے لئے زبان کا استعمال کیا جاتا ہے۔ دنیا کی بیشتر زبانیں اپنا یہ فریضہ ادا کر رہی ہیں۔ لیکن سنسکرت ایک ایسی زبان ہے جو ذرا مختلف ہے۔ زبان کو لیکر سیاست کرنی چاہئے یا نہیں یہ ایک الگ سوال ہے لیکن سچائی یہ ہے کہ زبانوں کو لیکر سیاست کی جاتی ہے۔ زبانیں سیاست کی بھینٹ بھی چڑھا دی جاتی ہیں۔ اور زبانوں کو سیاست کی آکسیجن سے زندہ رکھنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔
سنسکرت زبان کے بارے میں کچھ سرکاری اعداد شمار چونکانے والے ہیں۔ سن 2001کی مردم شماری کے مطابق ہندوستان میں سنسکرت بولنے والے افراد کی کل تعداد صرف چودہ ہزار ایک سو پینتس (14135)تھی۔ سن 2011کی مردم شماری میں اس تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ لیکن یہ تعداد کل چوبیس ہزار آٹھ سو اکیس (24821) افراد کی تھی۔ یقین کیجئے ہندوستان کے سیکڑوں ایسے چھوٹے بڑے شہر ہیں جہاں اردو بولنے والوں کی تعداد اس سے زیادہ ہے۔ یعنی گزشتہ ستر برسوں سے حکومت کی زبردست سرپرستی کے باوجود ملک میں سنسکرت کو اپنی مادری زبان بتانے والے افراد کی تعداد پچیس ہزار بھی نہیں پہنچتی ہے۔ لیکن سنسکرت کو حکومت کی حمایت اور سرپرستی جاری ہے اور جاری رہے گی۔ وجوہات آپ تلاش کیجئے۔ ہم اردو والے ہیں، ہم حکومت سے قطعی یہ مانگ نہیں کریں گے کی سنسکرت کو جو مراعات حاصل ہیں، حکومت انھیں واپس لے لے۔ ہم تو جب بھی مانگ کرتے ہیں تو اردو کے لئے مانگ کرتے ہیں۔ ہم اردو کا بھلا چاہتے ہیں، برا کسی زبان کا نہیں چاہتے۔ یہ ہمارا واضح موقف ہے۔
سنسکرت زبان کے بارے میں کئی اعداد شمار ایسے ہیں جو آپ کو حیرت میں ڈال دینگے۔ ملک میں پچاس ملین سے زیادہ آبادی ایسے افراد کی ہے جنھوں نے سرکاری رائے شماری میں اپنی مادری زبان اردو بتائی ہے۔ چلئے اسی پہ اکتفا کرتے ہوئے بات کرتے ہیں کہ حکومت مانتی ہے کہ اس ملک میں پچاس ملین سے زیادہ لوگوں کی مادری زبان اردو ہے۔ اس کے بعد برسوں برسوں حکومت سے مانگنے کے بعد ایک اردو یونیورسٹی کی سوغات ملی۔ جسے ہم آپ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی (مانو) کے نام سے جانتے ہیں۔ ایک اور اردو یونیورسٹی آندھرا پردیش کے کرنول میں ابھی اپنے بننے کے دور سے گزر رہی ہے۔ لیکن آپ کو یہ جان کر حیرانی نہیں ہونی چاہئے کہ ملک میں صرف پچیس ہزار لوگوں نے جس سنسکرت زبان کو اپنی مادری زبان بتایا ہو اس سنسکرت زبان کے سولہ (16)یونیورسٹی اس ملک میں ہیں۔ کالج اور دیگر سنسکرت اداروں کی بات الگ ہے۔ مثال کے طور پر دہلی یونیورسٹی کے انڈر تقریباً 83کالج ہیں۔ ان 83کالجوں میں ذاکر حسین کالج، سینٹ اسٹیفنس کالج، دیال سنگھ کالج، ستیہ وتی کالج، کروڑی مل کالج، اور ماتا سندری کالج جیسے چند ہی کالج ہیں جہاں اردو پڑھائی جاتی ہے۔ جبکہ اردو کو دہلی میں دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔ کیا آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ دہلی یونیورسٹی کے انڈر تقریباً 35کالجوں میں سنسکرت زبان کے شعبے ہیں۔ یہیں یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ سنسکرت میں روزگار کے مواقع ہیں۔
ہندوستان بھر میں مسلمانوں کو اپنے بچوں کو سنسکرت بھی پڑھانا چاہئے۔ انھیں عربی، اردو، فارسی اوردیگر یوروپی زبانیں بھی پڑھائیں۔ لیکن سنسکرت سے دوری نہ بنائی جائے۔ کیوں کہ اس سے ایک پیغام یہ بھی جانا چاہئے کہ ایک سیکولر ملک میں ہر مذہب کے لوگ ہر زبان کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ دوسری بات سچر کمیٹی کی رپورٹ نے تو اعداد و شمار کے ساتھ بتا دیا ہے کہ ملک میں مسلمان روزگار کے حصول کے معاملے میں کہاں کھڑے ہیں۔ ایسے میں کسی پر الزام لگاتے رہنے سے تو بہتر ہے کہ جہاں جہاں مواقع ہوں وہاں بھرپور ڈھنگ سے، ایمانداری سے اور پوری تیاری سے کوشش کی جائے۔ اور اس بات سے انکار ممکن نہیں ہے کہ زبان سنسکرت کو حکومت کی بھرپور سرپرستی حاصل ہے۔ مستقبل میں جب حکومتیں تبدیل ہونگی تب بھی سنسکرت پر نظر کرم بنی رہے گی۔ ایسے میں ہم اپنے بچوں کو سنسکرت زبان پڑھنے سے کیوں دور رکھیں؟ یہاں ایک اور بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کا بہت بڑا دینی اور مذہبی سرمایا اردو میں ہے اس لئے جو لوگ چاہتے ہیں کہ ان کے بچے اپنے دینی سرمایا سے محروم نہ ہوں، انھیں بچوں کو ابتدا میں ہی اُردو زبان پڑھانا چاہئے۔ راقم السطور یہ جو سنسکرت پڑھنے پڑھانے کی وکالت کر رہا ہے وہ عربی، فارسی یا اُردو کی قیمت پر نہیں کر رہا ہے۔ اُردو کے علاوہ عربی اور فارسی زبانوں سے بھی ہمارا صدیوں پرانا تہذیبی رشتہ ہے۔ ہمیں یہ رشتہ بھی نبھانا ہے۔ لیکن سبھی یہی رشتہ نبھانے میں لگے رہیں گے تو سنسکرت کی طرف کون توجہ دے گا؟ سنسکرت زبان میں قدیم ہندوستان کی تہذیب کے ساتھ ساتھ ہندو مذہب کی بہت سی اہم باتیں موجود ہیں۔ جس طرح اردو، عربی اور فارسی پڑھ کر ہندو حضرات مذہب اسلام کے بارے میں معلومات حاصل کرتے ہیں اسی طرح ہندوستانی مسلمان بھی سنسکرت زبان پڑھ کر اپنے ہم وطن ہندو بھائیوں کے مذہب کے بارے میں بھی معتبر جانکاری حاصل کر سکیں گے۔ ساتھ ہی ساتھ اس زبان کے سیکھنے سے ہوے والے فائدے میں اپنی حصہ داری بھی یقینی بنا سکیں گے۔
(کالم نگار، ڈاکٹر شفیع ایوب، جے این یو نئی دہلی میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں)