دارالمصنفین کو مرنے نہ دیں
شکیل رشید ( ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز )
ماہرِ شبلیات ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی اِن دنوں علاج کی غرض سے ممبئی آئے ہوئے ہیں ۔ ان سے دو دن ملاقات رہی اور علامہ شبلی نعمانیؒ کی حیات و خدمات پر ان کے کاموں کے علاوہ مسلمانوں کے ایک عظیم ادارے دارالمصنفین ، اعظم گڑھ کا ذکر بھی ہوا ۔ ڈاکٹر موصوف نے دو دلچسپ مگر سبق آموزواقعات سنائے ۔ بتایا کہ کیفی اعظمی چاہے جتنے بڑے کمیونسٹ رہے ہوں لیکن جب وہ دارالمصنفین آتے تھے ، تو ان کا انداز کسی کٹر کمیونسٹ کے برعکس ہوتا تھا ۔ وہ اپنی وہیل چیر سے اترتے اور ہاتھوں پیروں پر تقریباً گھسٹتے ہوئے دارالمصنفین کے اندر داخل ہوتے ۔
ایک دفعہ میں نے ان سے کہا کہ آپ کیوں وہیل چیر سے اترتے ہیں ، اس پر بیٹھے بیٹھے اندر کی طرف آ جائیں ، کہنے لگے کہ نہیں یہ وہ جگہ ہے جہاں بیٹھ کرعلامہ شبلی نعمانی نے سیرۃ النبی ﷺ لکھی تھی ، میں وہیل چیر پر بیٹھ کر نہیں آ سکتا ۔
جناب کیفی صاحب اور شبلی اکیڈمی
کیفی اعظمی اور ان کی اہلیہ شوکت کیفی عام طور پر دارالمصنفین کے مہمان خانہ میں ٹھہرتے تھے ، کیفی صاحب نے ایک بار کہا کہ شوکت کہتی ہیں کہ جو سکون یہاں ملتا ہے اور کہیں نہیں ملتا ۔ ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی بتانے لگے کہ دارالمصنفین میں وہ کیفیت جسے ’ سکینہ ‘ کہا جاتا ہے لوگ محسوس کرتے ہیں ۔ کیفی صاحب کا واقعہ سنا کر ڈاکٹر صاحب مجھ سے کہنے لگے کہ یہ جاوید اختر بھلا کس قسم کے انسان ہیں ! ایک پروگرام میں کہہ رہے تھے کہ خدا کہاں ہوتا ہے ! ان کے خسر بھلے کمیونسٹ رہے ہوں لیکن اللہ کے رسول حضرت محمد ﷺ کے لیے کس قدر احترام تھا ۔ پھر انہوں نے مجھے دوسرا واقعہ سنایا کہ بہت پہلے ، آزادی کے کچھ بعد ہی ڈاکٹر حمید اللہ ( پیرس ) دارالمصنفین آئے تھے.
بتانے والے بتاتے ہیں کہ انہوں نے یہ دریافت کیا کہ سیرۃالنبی ﷺ کس جگہ بیٹھ کر لکھی گئی تھی؟ جب انہیں جگہ بتائی گئی تو انہوں نے اپنے پیروں کو جوتے یا چپل سے آزاد کیا اور اس جگہ پہنچے اور جتنی دیر وہاں رہے ننگے پیر رہے ۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ جو کچھ مجھے بتایا ، اسے تحریر کرنے کا مقصد ، لوگوں کو دارالمصنفین کی عظمت کا احساس دلانا ہے ۔
یہ ادارہ معاشی تنگی سے پریشان ہے
اس ادارے میں بیٹھ کر علامہ شبلی نعمانی نے سیرۃالنبی ﷺ اور الفاروق جیسی کتابیں ہی نہیں لکھیں ، مستشرقین کو ، جو سیرت رسول ﷺ پر حملے کرتے تھے ، کرارا جواب بھی دیا ، انگریزوں کی غلامی کے خلاف آواز بھی اٹھائی اور قوم کے نوجوانوں کی دینی و تعلیمی تربیت کے لیے منصوبے بھی بنائے ، اور یہ سب صرف اور صرف اللہ رب العزت کی رضا کے لیے کیا ۔ آج دارالمصنفین کی حالت بہتر نہیں ہے ، یہ ادارہ معاشی تنگی سے پریشان ہے ۔ ابھی کچھ پہلے ہی اس ادارہ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ظفرالاسلام خان صاحب نے لوگوں سے دردمندانہ اپیل کی تھی کہ وہ مالی تنگی میں گھرے دارالمصنفین کا خیال کریں ۔ ڈاکٹر ظفرالاسلام نے لکھا ہے کہ ’’ دارالمصنفین شبلی اکیڈمی کے ماضی اور خدمات سے آپ اچھی طرح واقف ہیں ۔
آزادی کے بعد سے اس ادارے کی حالت مستحکم نہیں رہی ہے۔ اس وقت بھی یہ ادارہ کافی مالی مشکلات سے گذر رہا ہے ، اسی لئے مجبوراً میں نے ایک اپیل تیار کی ہے۔ ‘‘ اپیل میں انہوں نےدارالمصنفین کی تاریخ اور خدمات کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ میری ان تمام لوگوں سے درخواست ہے جو اس کام کی اہمیت سمجھتے ہیں کہ وہ آگے آئیں اور ہر شخص کم از کم دو ہزار روپئے ماہانہ دینے کا کم از کم تین سال کے لئے ذمہ لے لے تو فوری مسائل حل ہو جائیں گے ۔
ہمارے بزرگ ادارے بنا گئے ہیں
ہماری کوشش ہے کہ ہم کو اس طرح کے کم از کم ۵۰۰ بہی خواہ مل جائیں ۔ اسی دوران دوسری کوششیں جاری ہیں جن میں سب سے اہم ایک مستقل کارپس فنڈ کا قیام شامل ہے جس کی آمدنی سے ادارہ چل سکے ۔ اگر ایسا ہو سکا تو ادارہ مزید ترقی کرے گا اور جدید و متنوع مسائل کے بارے میں اردو کے ساتھ ساتھ دوسری زبانوں میں بھی تحقیق و نشریات پر توجہ دے گا ۔‘‘ کیا ہم اس اپیل پر کان دھریں گے ؟ ہمارے بزرگ ادارے بنا گئے ہیں لیکن ہم ان اداروں کو دھیرے دھیرے موت کی آغوش میں جاتے دیکھ رہے ہیں ، اللہ کے لیے اس ادارے کو ، جہاں بیٹھ کر سیرۃ النبیﷺ جسی عظیم کتاب لکھی گئی ہے ، مرنے نہ دیں