آگرہ(اکبرآباد) کے معروف شاعر اور ادیب کا یوم ولادت
انتخاب اور پیشکش
سلمی صنم
آگرہ اترپردیش کا ایک ادبی اور تاریخی شہر ہے جو اپنی عمارتوں کے سبب جانا جاتا ہے ۔اس شہر کو سکندر لودھی نے بسایا تھا۔1491 میں مغلوں نے اس کو اپنا پایہ تخت بنایا اور اس کو اکبرآباد کا نام دیا۔دل تاج محل اسی آگرہ کے ایک محلے تاج گنج میں 8 جولائی 1938 کو پیدا ہوئے۔ان کا اصل نام مرزا وسیم بیگ چغتائ ہے۔قلمی نام دل تاج محلی ہے۔اتنا دلکش اور منفرد نام منتخب کرنے کی وجہ اپنے ایک انٹرویو میں وہ یوں بیان کرتے ہیں “میں حسن و خوبصورتی کے عالمی مقرر تاج محل کے نزدیک محلہ تاج گنج میں اس مقام پر پیدا ہوا جس کے متصل اردو کے پہلے عوامی شاعر میاں نظیر اکبر آبادی محو استراحت ہیں”
انہوں نے پوسٹ گریجویشن کے بعد مدراس سے لیدر ٹکنالوجی میں ڈپلومہ کیا اور اول پوزیشن حاصل کی پھر اسٹیٹ لیدر کارپوریشن اترپردیش میں ڈویژنل مینجر بن گئے جہاں سے وہ 1991 میں سبکدوش ہونے اور اس وقت وہ سی ایف ٹی آئ آگرہ( حکومت ہند کا ادارہ ) میں سنئیرایڈوایزر ہیں۔وہ راجستھان حکومت مدھیہ پردیش کے لیدر اینڈ فٹ وئیر ٹکنالوجی میں ایڈوائزر رہ چکے ہیں ۔
ادبی سرگرمیوں کا آغاز اسکول سے 1953 میں کیا ۔ابتدا میں اسکول میگزین کے لئے پیروڈی اور مضامین لکھے اور بہت جلد اسکول میگزین کے طالب علم ایڈیٹر بن گئے۔پہلی غزل 1954 میں ماہنامہ خاتون مشرق میں شائع ہوئی جس کا پہلا شعر ہے
یہ فسانہ تیرا قیامت ہے
مسکرانا تیرا قیامت ہے
ان کے استاد کا نام حضرت غفار اکبر آبادی ہے۔آل انڈیا ریڈیو متھرا سے
پہلی غزل 1958 میں نشر ہوئ۔اس کے بعد ہندو پاک کے تمام اخبارات و رسائل میں لکھنے پڑھنے کا سلسلہ شروع ہوگیا جو تا ہنوز جاری ہے۔پہلا مشاعرہ جگر مراد آبادی کے ساتھ 1959 میں پڑھا اور خوب پذیرائی حاصل کی ۔اس کے بعد شاعر تاج غفار اکبر آبادی، شکیل بدایونی،مجروح سلطان پوری، کیفی اعظمی، فراق گورکھپوری،علی سردار جعفری، مشوروں واحد،نذیر بنارسی،گلزار دہلوی،کنور بیدی سنگھ سحر،قتیل شفائ سے لے کر عصرحاضرکے تمام معروف و معتبر شعراء کے ساتھ انہیں مشاعرے پڑھنے کا شرف حاصل ہے ۔
دل تاج محل بیک وقت شاعر بھی ہیں اور کہنہ مشق ادیب بھی۔انہوں نے غزلوں اور نظموں کے علاوہ افسانے،ڈرامے ،انشائیے اور مضامین بھی لکھےہیں۔مجروح سلطان پوری ان کے اولین شعری مجموعے “زخم دل” کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں “الحاج دل تاج محلی دکھی دلوں کا ساتھی ، مجروح جذبات کا مونس و غم خوار ہی نہیں بلکہ قوم کے درد سے آشنا بھی اور مدوا بھی ہے۔بھرپور زندگی جینے والا یہ شاعر یہ مصنف یہ باوقار انسان بہت بڑا سرکاری افسر،بین الاقوامی شہرت کا حامل صنعت کار،مشیر بھی ہے اور مشورہ بھی جیسے اللہ تعالی نے ایک کوزے میں دریا سمو دیا ہو “
ان کی اب تک کئی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں
شاعری کا پہلا مجموعہ ” زخم دل “(1990)،افسانوں کا مجموعہ “احساسات “(2000)،،اردو سے ہندی میں ترجمہ ” دیکشا”(2000)،انگریزی مضامین و افسانے “کال آف ورچو”(2005)،اردو افسانوں و مضامین کا مجموعہ “نقوش دل”(2010)،”نقوش دل دوسرا ایڈیشن(2018)،”حریم دل” غزلیات(2019)، ” زخم دل ” دوسرا ایڈیشن (2019)
دو اور کتابیں ” نوازشات دل”( مضامین ) اور “افکار دل”(غزلیات ) زیر ترتیب و اشاعت ہیں ۔ان کتابوں کے علاوہ تنقیدی،تحقیقی اور ادبی مضامین کی تعداد 40-50 کے آس پاس ہے مگر ان میں جو تحریریں محفوظ رہ گئ ہیں ان میں “ہندوستان کا شیکسپیئر ” ، “نظیر اکبر آبادی “، “دارالادب اکبر آباد”،”زبان نظیربنام عوام”، ” تابش متھراوی ایک جائزہ”،”شاعر شیریں بیاں نظراینوی ” “مطلع انوار “پر تبصرہ” آنند لہر کی ناول نگاری “، “محمد قیوم مئیو”،”فراق گورکھپوری ” وغیرہ قابل ذکر ہیں
ان کی شاعری کے بارے میں آگرہ سے محمودہ قریشی لکھتی ہیں: ۔
“ہر بڑا شاعر اپنے عہد بلکہ آنے والے ہر عہد کو متاثر کرتا ہے ۔اس کا کلام زمانے کی بدلتی ہوئی ہمواریوں سے ہم کنار ہوتا ہے ۔بدلتے زمانے کی ناہمواریوں پر دل صاحب کی گہری نظر تھی ۔اس لئے اپنی شاعری کا رشتہ معاشرے سے عوام سے جوڑ دیتے ہیں ۔یعنی جو کچھ وہ معاشرے میں دیکھتے ہیں ۔اس کا بغور مطالعہ کرتے ہیں۔اور اس کا مشاہدہ کرنے کے بعد تجرباتی کیفیت سے مملو ہو کر اپنی ہنر مندی سے پر اثر الفاظ کا لباس پہنا کر شاعری میں ڈھال دیتےہیں ۔دل صاحب کی شاعری میں ترقی پسند تحریک کے اثرات , انقلاب اورجدیدیت سے ملحوظ ہو کر زندگی کا فلسفہ ,انقلاب سرمایہ دار نظام کی مخالفت اور سن1947 کے کےبعد رونما ہونے والے واقعات حادثات احتجاج کو پیش کیا گیا ہے ۔
ابتدا میں غزل کے ہی خاص رنگ یعنی حسن و محبت عشقیہ جزبات سے لبریز ہو کر غزلیں لکھیں لکین بہت جلد تقسیم ہند کے سبب پیش آنے والی مشکلات اور تغیرات سے دل صاحب کا دل تڑپ اٹھا وہ اپنے درد بھرے دل کی ترجمانی کرنے پر مجبور ہو گئے
ان کی شاعری ذات پات سے بہت اوپر اٹھ کر شکستہ دل کی ایک پر وقار اعلیٰ معیار کی شاعری ہے ۔
زندگی ایک نعمت ہے, اور موت اس کی حقیقت زندگی کے فلسفہ کو سمجھنے میں دل صاحب اس کی حقیقت کو زیادہ معتبر سمجھتے ہیں ۔چونکہ جس نے زندگی کے فلسفہ کو حقیقت کو ذہن نشین کر لیا اس کی زندگی ہی کار ساز ہے۔
دل صاحب کے مطالعہ کلام کے بعد جو چیز شدت کے ساتھ محسوس ہوتی ہے۔ چاہے وہ غزلیات ہو ,یا نظم “گفتگو “تو اور میں “”بنت زردار “,پتی ورتا ” “عوام اور نظیر ” ہو کہ” آج کا نظیر ” “دعاؤں کا جہیز ” “ہولی اور یکتا “ہو یا ان کےقطعات سب ہی میں ہماری تہزیب و ثقافت کو برقرار رکھا گیا ہے ۔ اپنے گردوپیش کے حالات واقعات اور زندگی میں پیش آنے والے چھوٹے چھوٹے حادثات پر بھی ان کی گہری نظر ہے ۔یہ ہی سوچ و فکر دل صاحب کو منفرد بناتی ہے ۔دل صاحب کی شاعری میں سماج کا کرب اورزندگی کی تلخ سچائیاں پائی جاتی ہیں۔ اُنھوں نے شاعری کی دیرینہ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے جدید روایات سے تعلق رکھتے ہیں نئے لب و لہجے کی شاعری کے ساتھ عصری آگہی کو اپنا موضوع خاص بنایا۔
دل صاحب گنگا جمنی تہزیب کے امین ہیں ۔بہ صلاحیت مشاہیرین ادبستان میں آگرہ اور تاج محل کی نمایندگی کو عروج عرفان عطا کر رہے ۔۔
غرض یہ کہ دل صاحب نے ہر صنف سخن میں اپنے فن کے جوہر دکھائے ہیں ۔نصف صدی میں شاعری کے تمام اصناف ادب پر طبع ازمائی کرنے والا بے باک فکشن نگار 81 سالہ زندگی گزارنے کے بعد آج بھی آج بھی طلبہ کی رہنمائی کرنے پر کامزن ہیں ۔وہ ایک معتبر،مستنداور زبان و بیان پر قدرت رکھنے والے مقبول شاعر اور ادیب ہیں ۔””
شاعر اور ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ وہ کچھ ادبی ذمہ داریاں بھی نبھارہے ہیں۔وہ انجمن ترقی اردو ہند آگرہ کے سرپرست ہیں، ایوان ادب آگرہ کے نائب صدر ہیں، بزم سخن آگرہ کے بانی سکریٹری ہیں اور مرزا غالب ریسرچ اکیڈمی کے رکن ہیں ۔
: ان کی ادبی کاوشوں پر انہیں کئی انعامات و اعزازات سے بھی نوازا گیا ہے ۔ان میں قابل ذکر یہ ہیں
1955: شاعر محبت” بدست ڈویژنل کمشنر آگرہ
1987 “ادبی خدمات” بزم سخن ،کویت
1998 نقد انعام/ 25000 حکومت اترپردیش
2004 ” فراق ایوارڈ ” آگرہ
2008 ” انوار ادب ” و نقد انعام 25000 علی گڑھ نمائش آذر اکادمی
2008 “مولانا محمد علی جوہر ایوارڈ ” برائے ادبی خدمات لکھنؤ
2009 ” آذر رتن ایوارڈ ” علی گڑھ نمائش آذر اکادمی علی گڑھ
: مختصر یہ کہ دل تاج محلی صاحب کی منفرد شخصیت اور فن کو ایک چھوٹے سے مضمون میں واضح کرنا ناممکن ہے ۔دعا ہے کہ آپ کا سایہ اردو ادب پر یو ہی بنا رہے آمین ۔
شاعر ہیں باشعور ہیں اور باتمیز ہیں ۔
دل تاج محلی دل ہی میں رکھنے کی چیز ہیں ۔
روشن ضمیر ‘محسنِ انسانیت ہیں آپ ۔
دل تو عزیز واقعی ہر دل عزیز ہیں ۔
(عزیز ایوبی)
دل صاحب کے فکر و فن پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی صاحب کا منظوم خراج عقیدت