پنڈت آنند موہن زتشی گلزار دہلوی کیوں رکھتے تھے ہر سال رمضان میں ایک روزہ
پنڈت آنند موہن زتشی گلزار دہلوی گزشتہ برس آج ہی کے دن یعنی بارہ جون کو بھرپور زندگی گزار کر اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ 93سال کی عمر میں گلزار صاحب جب ہم سب کو سوگوار چھوڑ کر دار فانی سے رخصت ہوئے تو اپنے ساتھ ایک عہد کی تاریخ بھی سمیٹے ہوئے گئے۔ گلزار صاحب شاعر تھے، ادیب تھے یا مدیر تھے یہ باتیں بہت اہم نہیں ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ گلزار صاحب اردو تہذیب کا چلتا پھرتا نمونہ تھے۔ وہ اسلاف کی نشانی تھے۔ وہ دہلوی تہذیب کے بھی نمائندہ تھے۔ انتقال سے کچھ زمانے پہلے تک وہ فعال اور متحرک تھے۔ حالانکہ گزشتہ چند برسوں میں وہ ذہنی اور جسمانی طور پر کافی کمزور ہو چکے تھے لیکن دہلی و اطراف میں منعقد ہونے والے اردو کے ہر پروگرام میں پہنچنے کی کوشش کرتے تھے۔ وہ سچ مچ اردو کے عاشق تھے۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ ”مرجاؤں تو کہلاؤں شہید اردو۔
پنڈت آنند موہن زتشی گلزار دہلونسلاً کشمیری پنڈت تھے۔پرانی دلی کی گلی کشمیریان میں 7جولائی 1926کو پیدا ہوئے۔ گلزار صاحب کے والد حضرت زار دہلوی (پنڈت تربھون ناتھ) اردو اور فارسی زبان کے اتنے بڑے عالم تھے کہ وہ مولوی صاحب پکارے جاتے تھے۔ زار صاحب داغ دہلوی کے شاگرد خاص حضرت نواب سائل دہلوی کے شاگرد تھے۔ اس طرح گلزار دہلوی اپنا رشتہ داغ دہلوی سے بتایا کرتے تھے اور داغ دہلوی کو ”دادا استاد“ کہا کرتے تھے۔ سنہ 1975میں حکومت ہند نے جب اردو میں سائنس کا پہلا رسالہ ”سائنس کی دنیا“ جاری کیا تو ڈاکٹر گلزار دہلوی کو اس کا ایڈیٹر مقرر کیا گیا۔
سنہ 2010میں جب آب و تاب کے ساتھ کلیات گلزار کی اشاعت ہوئی تو گلزار صاحب نے خصوصی طور پر اپنا نام کچھ یوں لکھوایا۔ ”ڈاکٹر پنڈت آنند موہن زتشی گلزار نظامی دہلوی“۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ گلزار صاحب کو اگر اپنے پنڈت ہونے پر ناز تھا تو اپنے نظامی اور دہلوی ہونے پر بھی تا عمر نازاں رہے۔
بندہئ گلزار کو خواجہ نظامی کر دیا
اس برہمن زاد کو کیا راس آئی کافری
گلزار صاحب کو جن لوگوں نے دیکھا ہے انھوں نے واقعی اردو تہذیب کو دیکھا ہے۔ گلزار صاحب کو ہم نے جب بھی دیکھا شیروانی ٹوپی میں دیکھا۔خود کو دہلوی کہتے اور اس پہ فخر کرتے تھے۔ حالانکہ بعد میں پرانی دلّی کی تنگ گلیوں سے نکل کر دہلی کے پاس میں نوئڈا میں بیٹے کے ساتھ رہتے تھے۔ لیکن دل اٹکا ہوا تھا پرانی دلّی میں۔ بستی حضرت نظام الدین سے بھی خاص ربط تھا پنڈت آنند موہن زتشی گلزار دہلوی کو۔ حضرت نظام الدین اولیا کے آستانے پر حاضری دیتے۔ کبھی غالب اکیڈمی میں سیکریٹری ڈاکٹر عقیل احمد اور متین امروہوی سے محو گفتگو نظر آتے تھے۔ پرانی دلّی کی بیٹھکیں بعد کے زمانے میں تقریباً بند ہو گئی تھیں۔ نہ اردو بازار کی وہ رونقیں باقی تھیں اور نہ ہی مولوی سمیع اللہ کی وہ دکان تھی۔ لیکن جب بھی موقعہ ملتا پنڈت گلزار دہلوی پرانی دلّی کی گلیوں کا ایک پھیرا لگا آتے تھے۔ پنڈت نہرو کی طرح ہمیشہ تازہ گلاب شیروانی کی زینت۔ کوثر و تسنیم میں دھلی ہوئی زبان۔ یادداشت قابل رشک۔ بے مثال مقرر۔ اردو کے بڑے عاشق۔
دے ہم کو بھی اللہ نوید اردو
جنت میں منایا کریں عید اردو
جینا ہو زمانے میں تو غازی ہو کر
مر جائیں تو کہلائیں شہید اردو
پنڈت آنند موہن زتشی خود کو حسینی برہمن کہتے تھے۔ ہر سال رمضان میں آخری عشرے میں ایک روزہ رکھتے تھے۔ اور اپنے گھر پر بڑے اہتمام سے عزیز و اقارب، یار دوستوں کو افطار پر مدعو کرتے تھے۔ کیا لوگ تھے اب جن کے دیکھنے کو آنکھیں ترستیاں ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ گلزار صاحب کوئی صوفی منش، سنت فقیر تھے۔ ان کی شخصیت بھی تمام رنگوں سے عبارت تھی۔ علمی ادبی مناظرے بھی خوب کئے۔ زبان کے استعمال کو لے کر خوب بحث مباحثے ہوئے۔ اپنی زبان کو ٹکسالی زبان کہتے تھے۔ خود کو دو واسطوں سے داغ دہلوی کا شاگرد بتاتے تھے۔ جس زمانے میں جامع مسجد کے سامنے اردو بازار میں شاعروں ادیبوں کی محفلیں سجا کرتی تھیں اس زمانے میں گلزار صاحب قدرے جوان تھے اور اپنی ذہانت اور تیزی کے لئے جانے جاتے تھے۔ لیکن زبان کو لے کر بہت محتاط رہتے تھے۔ زبان کی سند مانگتے تھے۔ پرانی دلّی کی گلیوں میں پل کر بڑے ہوئے تھے۔ اہل زبان کی محفلوں میں بیٹھے تھے۔ ہندو مسلم، سکھ عیسائی سب ان کی نظروں میں برابر تھے۔ خود کہتے ہیں:
درس اردو زبان دیتا ہوں
اہل ایماں پہ جان دیتا ہوں
میں عجب ہوں امام اردو کا
بت کدے میں اذان دیتا ہوں
گلزار صاحب پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ بہت کچھ لکھا جائے گا۔ ابھی آج ان کی پہلی برسی ہے۔ بطور خراج عقیدت اردو کے اس عاشق، اس حسینی برہمن کے بارے میں یہ چند بے ترتیب جملے لکھ دئے۔
(ڈاکٹر شفیع ایوب، جے این یو، نئی دہلی)