Urdu News

ڈاکٹرراحت اندوری شخصیت و شاعری

ڈاکٹرراحت اندوری مرحوم

ابوالبرکات،شاذ،قاسمی

عالمی شہرت یافتہ،ممتازومایہ ناز،ہردل عزیز،مشاعروں کی جان،اپنے طرز و انداز کابانی و خاتم،حق گو و بےباک،صداقت کو سر بام و سر عام اعلان کرنے والا، اردو شاعری کادرخشندہ ستارہ،جناب ڈاکٹر راحت اندوری مرحوم کا11اگست2020کو کرونا و ہارٹ اٹیک کے مختصر دورے کے بعد انتقال ہوگیا جس کے بعد پوری عالمی اردو دنیا گہرے رنج و صدمہ میں ڈوب گئی۔

راحت اندوری کا اصل نام راحت اللہ تھا ۔ تخلص راحت کرتے تھے ادب کی دنیا میں راحت اندوری سے  مشہور ہوئے۔ 1جنوری 1950کو اندور میں پیدا ہوئے والد کا نام رفعت اللہ قریشی اور والدہ کا مقبول النساء بیگم تھا ۔ راحت اندوری ان کے چوتھے فرزند تھے ابتدائی  تعلیم انہوں نے نوتن ہایر سکنڈری اسکول سے حاصل کی 1973میں اسلامیہ کریمہ کالج اندور سے گریجویشن کیا 1975میں برکت اللہ یونیورسٹی بھوپال سے" اردو ادب میں مشاعرہ" کے عنوان پر مقالہ جس پر انہیں اردوادب میں پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی گئی۔ملازمت کا آغاز اندور کے ایک کالج سے کیا۔بچپن میں شاعری کے ساتھ پینٹنگ کا بھی شوق تھا مگر شاعری نے پینٹنگ کے شوق پر غلبہ حاصل کیا  اور وہ تا عمر شعر و ادب سے ہی وابستہ رہے۔

19سال کی عمر میں  سب سے پہلے مشاعرے میں کلام پڑھا اور جلد ہی ملک کے مایہ ناز شاعر کے طور پر مقبول ہو گئے اور اردو کے ممتاز شخصیات میں ان کا شمار ہونے لگاملک و بیرون ملک کے مشاعرے ان کے بغیر بےمزہ ہوجاتے ان کا مشاعروں میں کلام پڑھنے کا انداز بھی نرالا تھا جب وہ شعر پڑھتے تو سراپا شعر ہو جاتے ،چہرے کا تأثر،جذبات،ہیئت، آواز کا اتار چڑھاؤ ہر ہر لفظ وہر ہر شعر کے ساتھ بدلتا رہتا ایسا گمان ہوتا کہ ہر لفظ وشعر ان کے مزاج و شخصیت میں گھل مل گیا ہے ،ا پنی پچاس سالہ ادبی زندگی میں انہوں نے مشاعروں کے علاوہ ہندستانی فلموں کے لیے بے شمار  نغمے بھی لکھے جن میں آشیا،صنم،خوددار،مرڈر،منا بھائی ایم بی بی ایس،مشن کشمیر،میناکشی،عشق وغیرہ شامل ہیں۔جو بے حد مقبول ہوئے اور کافی پسند کئےگئے  ان کی  درجنوں کتابیں شایع ہوکر منظر عام پر آچکی ہیں جن میں روپ روپ،پانچواں درویش،ناراض،لمحے،دو اقدارصحیح،میرے بعد،دھوپ بہت ہے وغیرہ شامل ہیں ۔امریکہ،متحدہ عرب امارات،قطر،سعودی عرب،سمیت کیی ممالک میں ہندستانی ادب کا پرچم بلند کیا

راحت اندوری کی شاعری ظلم و بربریت کےشہر میں انصاف کی پکار ہے اقتدار کے نشہ میں سرمست سیاست دانوں  کے لئے تازیانہ ہے ،انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعہ مجبوروں مقہوروں کے دل کی ترجمانی کی، قوم میں بیداری کی روح پھونکی،ان کی شاعری؛مشترکہ تہذیب و تمدن کی سالمیت کا ضامن ہے ،ان کی شاعری میں اگر عشق و محبت کی راگ راگنیاں ہیں تو وہی تلواروں کی جھنکار بھی ہے ،کبھی تلواروں کی جھنکاروں میں عشق و محبت کے نغمے گھل مل جاتے ہیں تو کبھی عشق و محبت کی راگ میں شعلہ ابلتا ہے پھر ان شعلوں میں کن کے محل خاکستر ہوئےکس کی پگڑی جل گئی،کس کے اقتدار کی کرسی خاکستر ہوئی،کس کا دامن داغ دار ہوا ،کون شرمسار ہوا راحت کو اس سے کوئی سروکار  نہی وہ سیدھے رستے کا مسافر بنے رہے،حق وصداقت کے شاہ راہ پر تھکےماندے، حالات کا پرواہ کیے بغیر رہزنوں کی رہزنی،ظالموں کے ظلم،کینہ پر روں کے کینہ ، اہل سیاست و اقتدار کے کر و فر اور صیاد کے جام کی پرواہ کیے بغیر چلتےرہے اپنا کام کرتے رہے یہاں تک کہ اپنی آخری منزل کو پا لئے۔

چونکہ راحت اندوری عوام و خواص ہر طبقہ میں مقبول تھے علمی و عوامی ہر طرح کی محفلوں میں کلام پڑھتے تھے اس لیے وہ ہر طرح کے اشعار کہنے پر قدرت رکھتے تھے ان کے اشعار کے الفاظ عام فہم، سلیس اور آسان ہوتے ہیں تو وہی ایسے اشعار بھی ملتے ہیں جن میں معنی خیزی و تہ داری پائی جاتی ہے جن میں فن کا کمال،جمال و جلال اور غزل کے روایت کی پاسداری بھر پور طور پر  پائی جاتی ہے ،حسن و عشق غزل کا بنیادی موضوع ہے راحت اندوری نے اپنی ہمت و حوصلہ،ذہنی رجحان،اور افتاد طبع کے سبب غزل کے ان موضوعات میں نئی حرارت پیدا کردی ہے راحت کے اشعار میں اخلاقی بصیرت اور زندگی کے اعلی قدروں سے جذباتی اور والہانہ وابستگی ملتی ہے۔ آزادروی،قناعت،استغناء،توکل،صبرورضاء،ایثاروقربانی،بےنیازی،اورمنکسرالمزاجی،کے ساتھ ساتھ اولوالعزمی ،بوریہ نشینی و درویشی کے ساتھ ساتھ بادشاہوں والا جاہ و جلال اگر کسی شاعر کے کلام میں موجود ہیں تو وہ ہیں جناب راحت اندوری! انہوں نے زندگی کو بڑی گہرائی سے دیکھا اوربرتا ہے،معاشرہ کے ہر پہلو کو بڑےغور سے دیکھاہے مطالعہ کیا ہےاور پھر اپنے نقطہ نظر کو بڑی جرات و استقامت کے ساتھ برملا اظہار کیا ہے دوست و دشمن،جاہ و مرتبہ،مال و دولت کی کبھی پرواہ نہیں کیا جو بھی کہا، لکھا ؛ اس لیے کہا لکھا کہ وہ ایک پر امن معاشرہ، پاکیزہ سیاست،مشترکہ تہذیبی ورثہ کی حفاظت چاہتے تھے ،ان عظیم مقاصد کے سامنے ہوتے ہوئے بھی جب بھی شعر کہنے بیٹھے تو شاعری کی آبرو کی حفاظت کی شعری رنگ و آہنگ  اور اسلوب کو فرسودہ  ہونے نہی دیا اس کے بر عکس لفظوں کے انتخاب،ترنم و آہنگ،سلاست و فصاحت،تشبیہ و استعارہ،کا موزوں انتخاب نے ان کی شاعری کو لازوال سرمایہ بنا دیا ہے  ان کی شاعری سہو، اسقام،بسیار گویی،و زودگویی سے بالکل پاک ہےجس کو دیکھتے ہویے ہم کہ سکتے ہیں کہ راحت اندوری دور حاضر کے منفرد ممتاز شاعر تھے جنہوں نےاپنی شاعری کو شعری حسن کے ساتھ مالا مال کیا اور غلط کار سیاست دانوں کی درست رہنمائی کی۔اب  ان کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے  :

آنکھ میں پانی رکھوں ہونٹوں پہ چنگاری رکھو

زندہ رہنا ہے تو ترکیبیں بہت ساری رکھو

نوجوان بیٹوں کو شہروں کے تماشے لے اڑے

گاؤں کی جھولی میں کچھ مجبور مائیں رہ گئیں

سبھی کا خون ہے شامل یہ یہاں کی مٹی میں

کسی کے باپ کا ہندستان تھوڑی ہے

کتنا مانوس سا ہمدردوں کایہ درد رہا

عشق کچھ روگ نہی تھاجو دوایی لیتے

ہمارے سر کے پھٹے ٹوپیوں پہ طنز نہ کر

ہمارے تاج عجائب گھروں میں رکھے ہیں

موڑ ہوتا ہے جوانی کا سنبھلنے کے لیے

اور سب لوگ یہی آکے پھسلتے کیوں ہیں

Recommended