اردو شعر و ادب کے حوالے سے کرشن نگری متھرا کی کوئی خاص پہچان نہیں ہے۔ متھرا کا ذکر ہو تو سب کی زبان پر محسن کاکوروی کا مصرعہ آجاتا ہے۔ سمت کاشی سے چلا جانب متھرا بادل۔ یا پھر ”متھرا کہ نگر ہے عاشقی کا“
دلی اور آگرہ کے درمیان متھرا ایک تاریخی شہر ہے۔ دلی سے دو ڈھائی گھنٹے کی دوری پریعنی صرف ایک سو پچاس کیلو میٹر۔بذریعہ کار جانے کے دو راستے۔ پرانا راستہ فرید آباد پلول ہوتے ہوئے۔ دوسرا یمنا ایکسپریس وے سے۔ برج بھاشا کا علاقہ ہے۔ بھگوان شری کرشن کا علاقہ ہے۔ متھرا کے علاوہ برنداون، گوکل اور بھگوان کرشن کی دھرتی برسانا وغیرہ کا بھی مذہبی حلقے میں بڑا احترام ہے۔
آگرہ اور متھرا قریب کے دو تاریخی شہر ہیں۔ ایک تاج محل ہے اور ایک دل تاج محلی ہیں۔ آگرہ کا پرانا نام اکبر آباد تھا۔ اسی حوالے سے آگرہ کے شعرا اپنے نام کے ساتھ ”اکبر آبادی“ لگاتے ہیں۔ جیسے نظیر اکبر آبادی اور سیماب اکبر آبادی۔ لیکن اسی شہر میں ایک رٹائرڈ اعلیٰ سرکاری افسر ہیں مرزا وسیم بیگ۔ وسیم بیگ ہی دل تاج محلی ہیں۔ شاعری کی دنیا میں دل تاج محلی کا بڑا مقام ہے۔ تقریباً پچاسی سال 85) (کے نوجوان دل تاج محلی گزشتہ ساٹھ پینسٹھ سال سے شعر کہہ رہے ہیں۔ اور مشاعرے پڑھ رہے ہیں۔ دل تاج محلی نے مجروح، کیفی، سردار جعفری، خمار بارہ بنکوی وغیرہ کے ساتھ خوب مشاعرے پڑھے ہیں۔اردو، ہندی اور انگریزی میں بہت سی اہم کتابوں کے مصنف ہیں۔ بڑی باغ و بہار شخصیت کے مالک ہیں حضرت دل تاج محلی۔
ڈاکٹر زیڈ حسن اس وقت متھرا میں اردو کے بڑے علم بردار ہیں۔ کلیم الدین احمد اور فراق گورکھپوری کی طرح ڈاکٹر زیڈ حسن بھی انگریزی کے اسکالر ہیں۔ لیکن خدمت اردو کی کر رہے ہیں۔ رٹائرڈ انگریزی پروفیسر ڈاکٹر ذیڈ حسن کو اردو کی خدمت کے لئے آمادہ کرنے کا کام دل تاج محلی نے کیا۔ ڈاکٹر ظہیر حسن دیوبند اتر پردیش کے رہنے والے ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی اور ڈی لٹ ہیں۔ انگریزی کے پروفیسر رہے ہیں۔ پورا خاندان علم و ادب کی خدمت میں لگا ہوا ہے۔ تقریباً پچاسی سال کی عمر میں جوانوں کی طرح متحرک ہیں۔ پچاسوں اسکالرس کو اپنی نگرانی میں پی ایچ ڈی کرا چکے ہیں۔ ہر سال اپنی جیب سے پیسے خرچ کر کے اردو کا سیمینار کراتے ہیں۔
اس سال یعنی سنہ 2023میں فروری کی 25تاریخ کو دلی سے چار لوگوں نے بذریعے کار متھرا کا سفر کیا۔ راقم السطور شفیع ایوب کے علاوہ نیشنل اوپن اسکول کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر شعیب رضا خان، مشہور شاعرہ محترمہ چشمہ فارقی و عزیزہ مرزا نے ڈاکٹر زیڈ حسن کی دعوت پر متھرا کا سفر کیا۔ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر جناب عبد الماجد نظامی کو بھی ہمارے ساتھ سفر کرنا تھا۔ لیکن آخری لمحات میں کسی ناگزیر وجہ سے وہ شریک سفر نہ ہوسکے۔
سیمینار کی صدارت ڈاکٹر شعیب رضا خان نے کی۔ محترمہ چشمہ فاروقی نے ”ڈھائی آکھر پریم“ کے حوالے سے پُر مغز مقالہ پیش کیا۔ خاکسار شفیع ایوب نے بھی”ادب میں محبت“ کے حوالے سے کچھ باتیں سامنے رکھیں۔ متھرا کے کئی اہم ادیبوں و شاعروں نے بھی اپنے مقالے پڑھے اور تقاریر کیں۔ حضرت دل تاج محلی اور ڈاکٹر زیڈ حسن نے نظامت کی۔ دل تاج محلی نے اپنے خوبصورت دوہوں سے بھی نوازا۔
ڈاکٹر زیڈ حسن اور ان کے تمام اہل خانہ علم کے شیدائی ہیں۔ انھوں نے چندن ون کے اپنے خوبصورت گھر میں ایک شاندار لائبریری بھی قائم کر رکھی ہے۔ گھر کے ٹھیک سامنے اسکول قائم کر کے بچوں کا مستقبل سنوار رہے ہیں۔ ان کی بہو ڈاکٹر ناہید اختر اسکول کی پرنسپل ہیں۔ پورا خاندان علم و ادب کے پلیٹ فارم سے محبت کے پیغام کو عام کرنے میں لگا ہوا ہے۔ اور آخری بات کہ متھرا کے پیڑے بھی بہت مشہور ہیں۔ مٹھائی کھانے کے شوقین جانتے ہیں کہ ”پیڑا“ ایک بہت خاص مٹھائی ہے۔ اور پیڑے اگر متھرا کے ہوں تو پھر بات ہی نرالی ہے۔ اس لئے ہم نے مشہور دکان برج باسی کے یہاں پیڑے کھائے بھی اور لائے بھی۔ پیڑوں کی مٹھاس کے ساتھ متھرا کا سفر یادگار رہا۔ اچھا رہا، کار آمد رہا۔
رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…
مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…
جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…
شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…
زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…
سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…