شہاب حمزہ ، رانچی ، جھارکھنڈ
عظیم پریم جی یونیورسٹی کے 2020 کے سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کورونا بحران کے سبب ملک میں غریبوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے ۔شہری علاقوں میں غریبی 20 فیصد اور دہی علاقوں میں 15 فیصد تک بڑھ گئی ہے۔ اپریل – مئی 2020 کے دوران تقریبا دس کروڑ ملازمتیں لوگوں کی چلی گئی ۔ یوں تو ہر عمر کے لوگوں کا روزگار متاثر ہوا ہے پھر بھی بے روزگاری کے صف میں سب سے زیادہ کم عمر کے نوجوان ہیں ۔25 سال عمر تک کے نوجوان 33 فیصد اپنے روزگار سے محروم ہو چکے ہیں ۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ 23 کروڑ غریب مزدوروں کی کمائی 375 روپے کی کم از کم مزدوری سے بھی کافی کم ہو گئی ہے ۔ یعنی ملک کا محنت کش طبقہ ایک جانب تو بڑی تعداد میں اپنا روزگار کھو چکا ہے اور مزدوروں کا وہ طبقہ جو برسر روزگار ہے وہ تقریبا کم از کم مزدوری کے آدھے پر قناعت کرنے کو مجبور ہیں۔ یہ اعداد و شمار سال 2020 کے ہیں جبکہ ان دنوں کورونا کی دوسری لہر کے سبب جہاں ایک جانب ہر شہر اور قصبہ ہی نہیں بلکہ ہر محلہ اموات پر سوگوار ہے تو دوسری جانب لوگوں کی آمدنی بھی زبردست طور پر متاثر ہوئی ہے ۔ جن گھروں میں وبا دستک دے چکا ہے کسی اہل قلم یا الفاظ میں وہ تاثیر نہیں کہ ان آشیانوں کے دہشت بھرے حالات جہاں ایک ایک سانس پر اہلِ خانہ کی بے شمار دعائیں قربان ہوتی ہیں بیان کر سکے ۔ جن گھروں سے جنازے نکلے ہیں ان کے گھروں میں بچے ہوئے افراد کے درد و غم ، دہشت اور جاگتی آنکھوں میں موت کے جو خوفناک مناظر ہیں ہرگز بیان نہیں کی جاسکتی ۔ کسی نے والدین کھویا ہے تو کوئی اپنے بچوں کا جنازہ دیکھنے سے محروم رہ گیا۔ بے شمار لوگوں نے اپنے بھائی بہنوں کا اپنے عزیزوں کا غم برداشت کیا ہے ۔ اس وبا میں کچھ ایسے بھی معصوم بچے ہیں جنہوں نے اپنی ماں اور باپ دونوں کی موت کا منظر دیکھے ہیں۔ آج ہمارے معاشرے میں جہاں کرونا نے اپنی تباہی کا منظر دکھایا ہے وہاں لوگوں میں خوف و دہشت کا ماحول ہے ۔ غریبوں کو بھی اپنی آمدنی سے زیادہ سانسوں کی فکر ہے ۔ جس کے نتیجے غریبوں کے حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے ہیں ۔ ان حالات کا اثر سب سے زیادہ ان درمیانی خاندان پر پڑا ہے جو اپنی غیرت کے زیر سائے نہ اپنا درد زمانے کو دیکھا سکتے ہیں اور نہ ہی چھپا سکتے ہیں ۔
مشکل و دہشت کے ایسے حالات میں آج بھی بے شمار لوگ عید کی خریداری میں مصروف ہیں ۔ لاک ڈاؤن کے اعلانات کے باوجود جان خطرے میں ڈال کر بازاروں کا حسن بڑھانے میں لگے ہیں ۔ جبکہ بے شمار ایسے بھی لوگ ہیں جن کے گھروں میں فاقہ کشی کی نوبت ہے ۔ گزشتہ سال عید کی خریداری پر مسلم معاشرے کے ذی علم اور ذمہ دار اشخاص نے مکمل پابندی لگانے کی اپیل کی تھی ۔ اور لوگوں میں ماننے کا جذبہ تھا ۔ پورے مسلم معاشرے نے سادگی کے ساتھ عید منانے کا فیصلہ کر لیا تھا اور اپنی اس فیصلے پر قائم رہ کر زمانے کو دکھا دیا اور یقینی طور پر ایک عظیم مثال قائم کر لی۔ لیکن اس بار جب کہ حالات اور بدتر ہیں اور اس کے مزید بدتر ہونے کے خدشات ظاہر کیے جارہے ہیں ۔ حتیٰ کہ جلد ہی کرونا کے تیسرے لہر کے آمد کی بات سامنے آ رہی ہے جس کے مزید تباہ کن ہونے کے بات کہی جا رہی ہے۔ یہ تیسری لہر بھلے ہی آئندہ کی بات ہے لیکن فی الوقت تباہیوں کے جو مناظر دیکھے جا رہیں ہیں کہ خوف و دہشت کا ماحول بنا ہوا ہے ۔ ذہن و دل کو جھنجھوڑ دینے والی ایسی صورت حال میں بھی کہیں سے یہ مستحکم صدا نہیں ابھرتی کہ اس بار بھی پرانے کپڑوں میں عید گزاری جائے ۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ سوشل میڈیا اور معاشرے میں بیدار لوگوں کے ذریعے کچھ ایسی صدائیں ابھر رہیں ہیں ۔ لیکن اس سے لوگوں میں بیداری ہرگز نہیں دیکھی جا رہی ہے ۔ ذرا غور کریں کہ آپ کے معاشرے میں محلے میں جن گھروں سے جنازے نکلے ہیں ان کے گھروں کے افراد کی عید کیسی ہوگی ۔ غریبوں اور ضرورت مندوں کا وہ طبقہ جنہیں رمضان جیسے بابرکت مہینے میں بھی غذا کی قلت ہے ۔ اندازہ لگانا بہت مشکل نہیں کہ ان کےلیے عید کے کیا معنی ہیں۔وبا کی یہ لہر نہ تو ابھی تھمی ہے اورنہ ہی کمزور پڑی ہے ساتھ ہی کرونا اپنے اثرات کی خوفناک تصویریں ہر لمحہ لوگوں کو دکھا رہا ہے۔ایسی صورت حال میں آنے والے دنوں کے مزید بد تر ہونے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ لہذا یہ لازم ہے کہ ہم بجائے عید کی خریداری اور نئے کپڑے بنانے کے غریبوں اور ضرورت مندوں پر زیادہ توجہ دیں۔ ہم اپنے پڑوس ، محلے اور معاشرے کی خبر لیں۔ ان کی بنیادی ضرورتوں کو کسی حد تک پوری کرنے کی کوشش کریں۔ جتنا بھی ممکن ہو سکے ان کی مدد کریں۔ جس طرح لوگ اپنوں سے اور عزیزوں سے بھی ملنے سے گریز کر رہے ہیں ایسے حالات میں ہر گھر کی خبر لینا غریبوں اور ضرورت مندوں تک پہنچ پانا شاید ممکن نہیں ۔ موجودہ صورت حال میں یہ کیا جا سکتا ہے کہ تمام محلوں میں معززین اور ذمہ داروں کی نگرانی میں نوجوانوں کی ایک ٹیم تشکیل دی جائے جو بہت احتیاط کے ساتھ ضرورت مندوں اور غریبوں کی ضرورتوں کا اندازہ لگائیں اور معززین کے مشورے سے ان کی مدد کرنے کی کوشش کی جائے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم عید کی خوشیاں منا رہیں ہوں اور مفلسی کی کسی دہلیز پر یا غیرت مندوں کے کسی آشیانے میں فاقہ کشی کی نوبت ہو ۔ یہ لازم ہے کہ ہم اپنی پڑوس اور معاشرے کی خبر لیں اور مدد کی جائے۔ اس بار آنے والی عید ہمیں یہی پیغام دیتی ہے۔
یہی اک بات اہلِ دل سے حمزہ آج کہتا ہے
نہیں بڑھتی نئے کپڑوں میں لذت عید کی لوگوں
نہیں بڑھتی نئے کپڑوں میں لذت عید کی لوگوں