عالمی سیمینار بعنوان ”آسمانی کتب اوردیگر مذہبی کتابیں:تاریخ و تعارف“ کا اختتام

<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی  دینیات فیکلٹی میں منعقدہ دو روزہ عالمی سیمینار بعنوان ”آسمانی کتب اوردیگر مذہبی کتابیں:تاریخ و تعارف“کے اختتامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا سید سبطین حیدر، سجادہ نشیں مارہرہ شریف نے کہاکہ مغرب نے دنیا کو تہذیبوں کے تصادم کا خطرناک تصور دیا۔ مشرق سے مذاہب اور تہذیبوں کے درمیان محبت اور تعاون کا پیغام معقول طریقہ سے دیا جانا چاہئے، ہندو مسلم مل کر اس مشن کو اپنائیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اس میں قائدانہ کردار ادا کرسکتی ہے۔</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
امارت شرعیہ بہار و اڑیسہ کے ناظم مولانا ثناءالہدیٰ قاسمی نے کہاکہ اسلام دوسرے مذاہب کے معبودوں اور بزرگوں کو برا کہنے سے روکتا ہے مگر ہر معاشرہ میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو دوسرے مذاہب پر کیچڑ اچھالتے ہیں، ایسے لوگوں کی تنبیہ ہونی چاہیے اور اس کے لیے ہر مذہب کے رہنماؤں کو آگے آنا چاہئے تاکہ بقائے باہم کی فضا ہموار ہوسکے۔پروفیسر اقتدار محمد خاں نے کہاکہ دنیا کی اکثریت مذہب کو مانتی ہے اور مذہب کا مقصد انسان کی نجات اور اصلاح ہے، دوسروں کو نقصان پہنچانا نہیں ہے۔</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
ڈاکٹر مفتی زاہد علی خاں، سابق صدر شعبہ سنی دینیات اے ایم یو نے کہاکہ دوسرے مذاہب کو برا کہنا اور معاشرہ میں بدامنی پھیلانا مذاہب کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ مذاہب کی مثبت اور اخلاقی تعلیمات کو عام کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے دوسرے مذاہب کی کتابوں کا معروضی مطالعہ کرنا آج کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ جی سی یونیورسٹی پاکستان کے ڈاکٹر یاسر عرفات نے کہا کہ تکثیری سماج میں باہمی رواداری کو فروغ دینے کے لیے دوسرے مذاہب کی کتابوں کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ فیکلٹی آف تھیالوجی اے ایم یو نے بر وقت یہ سیمینار منعقد کرکے سوچنے سمجھنے کی نئی راہ پیدا کی ہے۔</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
رابطہ عامہ افسر اے ایم یو عمر سلیم پیرزادہ نے کہا کہ بھارت کمپوزٹ کلچر کی نمائندگی کرتا ہے اور اس کی بنا جمہوریت پر ہے۔ مسلم یونیورسٹی قومی یکجہتی کو آگے بڑھاتی ہے اور اس کی دینیات فیکلٹی میں سارے مذاہب پڑھائے جاتے ہیں۔ برٹش ایمبیسی نئی دہلی کے سابق اہلکار اسد مرزا نے کہا کہ میڈیا کے ذریعہ مختلف مذاہب کے مشترکہ سرمایہ کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔ مذاہب کی بنیادی اخلاقی تعلیمات کو یونیورسٹیاں نصاب میں شامل کرسکتی ہیں۔</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
 مولانا عمر عابدین نائب صدر المعہد العالی حیدرآباد نے کہاکہ اس وقت بعض مذاہب کو منصوبہ بند طریقہ سے نشانہ بنایا جارہا ہے، یہ تکثیری سماج کے لئے مضر ہے۔ اے ایم یو اولڈ بوائز لکھنؤ کے سکریٹری عاطف حنیف نے کہاکہ سرسید نے ڈیڑھ سو سال پہلے مذاہب کی تعلیمات کو سمجھنے اور اہل مذاہب کے درمیان تال میل پیدا کرنے پر زور دیا تھا۔ آج پھر اس سبق کو دوہرانے کی ضرورت ہے۔ امریکہ میں مقیم معروف عالم دین مولانا ندیم الواجدی نے کہاکہ مذاہب کے درمیان غلط فہمیاں جان بوجھ کر پھیلائی جاتی ہیں، ان کا علمی اور عملی سطح پر جواب دینے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے مثال دیتے ہوئے کہاکہ سوامی دیانند سرسوتی نے اپنی زندگی میں ستیارتھ پرکاش کے بارہ ابواب لکھے تھے۔ لیکن ان کے مرنے کے بعد تیرہویں اور چودہویں باب کا اضافہ کیا گیا اور ان دونوں ابواب میں عیسائیت اور اسلام کو نشانہ بنایا گیا ہے۔</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر ایمریٹس ڈاکٹر عبدالحق نے کہاکہ مذاہب صرف روحانی تعلیمات نہیں دیتے بلکہ تخلیقی ادب کا زندہ شعور بھی دیتے ہیں۔ قرآن نے جو تخلیقی ادب پروان چڑھایا ہے اس کی جھلک مولانا روم اور اقبال کی آفاقی شاعری میں موجود ہے۔ سارے مذاہب کی کتابوں کا ادبی لحاظ سے مطالعہ کیا جانا چاہئے۔ صدارتی کلمات پیش کرتے ہوئے دینیات فیکلٹی کے ڈین پروفیسر ایم سعود عالم قاسمی نے کہا کہ اہل مذاہب کے درمیان جو دوریاں پائی جاتی ہیں ان کو کم کرنے اور غلط فہمیوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام یونیورسٹی کے اسکالر بخوبی کرسکتے ہیں۔ مذاہب کے درمیان عقائد اور رسوم کا جو اختلاف ہے ان کو سامنے رکھتے ہوئے مشترک نکات پر لائحہ عمل بنانے کی بڑی اہمیت ہے۔ ہر مذہب کی کتاب کو اس کی تاریخ اور سماجی پس منظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو فاصلے بڑھیں گے اور نفرتیں کم نہ ہوں گی۔ مسلمان چونکہ خیر امت کے دعویدار ہیں اس لئے اس کام کو انجام دینے کے لئے انھیں کو آگے بڑھنا ہوگا، مدارس میں دوسرے مذاہب کے اسکالر کو بھی بلانا چاہئے۔</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
 پروگرام کے کنوینر ڈاکٹر ندیم اشرف نے مختلف ممالک کے آن لائن مندوبین سے مقالات پر نظر ثانی کرکے اشاعت کے لئے بھیجنے کی گزارش کی۔ کوآرڈنیٹر ڈاکٹر ریحان اختر نے کہاکہ اگلا سیمینار مذاہب کی الگ الگ تعلیمات پر مرکوز ہوگا۔ اسلامی فقہ اکیڈمی نئی دہلی کے سکریٹری ڈاکٹر صفدر زبیری ندوی نے مقالہ نگار اور مہمان حضرات کا شکریہ ادا کیا۔ خاص طور پر اے ایم یو کے وائس چانسلر اور دینیات فیکلٹی کے سربراہ کے لیے امتنان و تشکر کا اظہار کیا۔</p>

آئی این بیورو

Recent Posts

رجنی کانت کی فلم ’جیلر‘ پر شائقین کا ردعمل

رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…

9 months ago

کشمیر میں’میری ماٹی، میرا دیش‘مہم کے تحت متعدد تقریبات منعقد

مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…

9 months ago

یُگ پریورتن: جموں و کشمیر کا تبدیلی کا سفر

جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…

9 months ago

بھارت کے نقشے کی تصویر کا قالین بُننے والا کشمیری قالین باف محمد مقبول ڈار سے ملیں

شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…

9 months ago

زعفران کی آسمان چھوتی قیمت کشمیر کے کسانوں کے چہروں پر لے آئی مسکراہٹ

زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…

9 months ago

لال چوک پر تجدید شدہ کلاک ٹاور سری نگر کے قلب میں لندن کی جھلک کررہا ہے پیش

سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…

9 months ago