Urdu News

ہر فلم اداکار کو اپنا کردار دم دار بنانے کے لیے زیادہ سے زیادہ زبانیں سیکھنا چاہیے: کنول جیت سنگھ

ہر فلم اداکار کو اپنا کردار دم دار بنانے کے لیے زیادہ سے زیادہ زبانیں سیکھنا چاہیے: کنول جیت سنگھ

جشن اردو کے دوسرے دن “اردو زبان، فلم اور تھیٹر” موضوع پر گفتگو، چلمن مشاعرہ شاعرات اور شام قوالی جیسے بہترین پروگراموں کا انعقاد

مدھیہ پردیش اردو اکادمی، محکمہ ثقافت کے زیر اہتمام آزادی کا امرت مہوتسو کے تحت منعقدہ سہ روزہ جشن اردو کے دوسرے دن پہلے اجلاس میں” اردو زبان، فلم اور تھیٹر ” کے موضوع پر گفتگو کا انعقاد کیا گیا جس میں معروف فلم اور تھیٹر اداکاروں کنول جیت سنگھ، سلیم عارف اور راجیو ورما نے پرمغز اور سیر حاصل گفتگو کی۔

 ادب اور فلم کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کنول جیت سنگھ نے کہا کہ ہر فلم اور ٹی وی اداکار کو اپنا کردار دم دار بنانے کے لیے زیادہ سے زیادہ زبانیں سیکھنا چاہیے اور سبھی زبانوں کے تلفظ پر خاص توجہ دینا چاہیے تبھی وہ ایک کامیاب اداکار بن سکتے ہیں۔ساتھ ہی ڈائیلاگ کی درست ادائیگی کے لیے اردو زبان کو خاص طور سے سیکھنا چاہیے۔

سلیم عارف نے کہا کہ میرا ایسا ماننا ہے کہ جتنا تعلق ادب کا سماج سے ہوتا ہے اتنا ہی تعلق سنیما کا بھی سماج سے ہوتا ہے، دونوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے. انھوں نے اردو زبان کی فلموں میں اہمیت پر کہا کہ ظاہر ہے آپ جس میڈیم میں کام کررہے ہیں تو وہ آپ کو سیکھنا ضروری ہے، تو آپ اگر اردو بولنے اسٹیج پر کھڑے ہوئے ہیں تو یہ آپ کا ذاتی، اخلاقی اور سماجی فریضہ ہے کہ آپ وہ زبان ٹھیک سے جانیں اور بولیں۔

راجیو ورما نے کہا کہ ضروری نہیں کہ ہم کوئی مسلم بیک گراؤنڈ سے جڑا ڈرامہ پیش کریں تو اس کا کردار اردو ہی بولے بلکہ وہ ہندوستان کی دیگر علاقائی زبانیں بھی بول سکتا ہے۔ انھوں نے آگے کہا کہ اردو ڈراموں کا دیگر علاقائی زبانوں میں ترجمہ کرکے ان علاقوں تک پہنچانا چاہیے اس سے اردو ملک کے سبھی علاقوں میں پہنچے گی۔ اس اجلاس کی نظامت کے فرائض بدر واسطی نے انجام دیے۔

دوسرے اجلاس میں شام 4:30  بجے چلمن مشاعرہ شاعرات منعقد ہوا جس کی صدارت ڈاکٹر سلمی شاہین نے کی۔ جن شاعرات نے کلام پیش کیا ان کے نام اور اشعار درج ذیل ہیں۔

شیر کی نہر رواں عزم سے ہوسکتی ہے

میرے ہاتھوں میں ابھی تیشہء فرہاد نہیں

(ڈاکٹر سلمیٰ شاہین)

زندگی پر اس طرح کچھ غم کا جادو چل گیا

دل سے جو نغمہ اٹھا وہ آنسوؤں میں ڈھل گیا

(شبانہ نظیر)

اتر کے پریاں مرے ساتھ چلنے لگتی ہیں

اسی لیے میں کوئی داستاں نہیں کہتی

(تارا اقبال)

آندھیوں کو یہ گماں ہے کہ بجھا دیں گی چراغ

اور چراغوں کو یہ ضد ہے کہ اجالا ہوجائے

(حنا رضوی)

جیت جانے کا ہنر ہم کو بھی آتا ہے مگر

ہار جانا بھی بڑی بات ہوا کرتی ہے

(صبیحہ صدف)

جب بھی میں بات کروں میری زباں ہو اردو

 پھول لفظوں سے گریں شیریں بیانی آئے

(نفیسہ سلطانہ انا)

زندہ رہنا ہے تو زندگی سے لڑو

آسماں سے نہیں روٹیاں آئیں گی

(ڈاکٹر انو سپن)

خیر سے زندگی بنا لی ہے

جس نے ماں باپ کی دعا لی ہے

(سیما ناز)

ریت سا جل رہا تھا یہ موسم تو پھر

لو ندی بن گئی میں تمہارے لیے

(پرارتھنا پنڈٹ)

مشاعرے کی نظامت کے فرائض صبیحہ صدف نے انجام دیا۔دوسرے دن کے آخری اجلاس میں شام قوالی کے تحت مشہور قوالوں منور معصوم، ناصر حسین، آفتاب قادری اور طارق فیض نے بہترین صوفیانہ کلام پیش کر سامعین کو وجد آفریں کردیا. اس اجلاس کی نظامت کے فرائض ثمینہ علی نے کی۔

Recommended