علی سردار جعفری کو ان کے جنم دن (29نومبر)پر خراج عقیدت
علی سردار جعفری: شاعر، ادیب، نقاد، فلم میکر اور شعلہ بیان مقرر
مشہور و معروف ترقی پسند شاعر علی سردار جعفری 29نومبر1912ء کو مشرقی یوپی کے بلرام پور میں ایک زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ اتر پردیش کے شمال مشرقی علاقے میں گونڈہ ضلع واقع ہے جو صدیوں فکر وفن اور شعر و ادب کا گہوارہ رہا ہے۔ لوک کتھاؤں میں گونڈہ بھگوان شری رام کے پُتر لَو کا گؤ چر تھا جہاں گونڈ قبیلے کے لوگ آباد تھے۔ اسی ضلع گونڈہ کے شمالی اور ترائی علاقے میں بلرام پور واقع ہے جسے فیروز شاہ تغلق کے عہد میں راجہ بلرام سنگھ نے آباد کیا تھا۔ اس علاقے میں بڑے عظیم شاعروں اور فنکاروں نے جنم لیا جس میں رام چرت مانس کی رچنا کرنے والے گوسوامی تلسی داس، پاتنجلی، گھاگھ کوی، برم بھٹ اور جگت داس کے نام روشن ہیں۔ یہیں اصغر گونڈوی، جگر مراد آبادی، مرزا شوق، اور خواجہ مسعود حسن ذوقی نے اپنا مسکن بنایا اور یہیں کے ہوکر رہے۔
بلرام پور سے رشتہ
راجہ بلرام پور خود اردو کے شاعر تھے۔ اپنے دربار کی زینت کے لئے راجہ بلرام پور نے مانک پور سے خلیل مانک پوری، لکھنؤ سے خاندان میر انیس کے چشم و چراغ نوشہ بھیا اور آگرہ سے جعفری گھرانے کے ذہین و متین لوگوں کو بلا کر بلرام پور میں آباد کیا۔ اسی جعفری خاندان میں علی سردار نے جنم لیا۔
بلرام پور، لکھنؤ، دہلی یونیورسٹی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے حصول تعلیم کے بعد ممبئی میں سکونت اختیار کی۔ ممبئی کی فلمی دنیا سے وابستگی کے باوجود زندگی کی آخری سانس تک وہ بلرام پور اور لکھنؤ کو نہ بھول سکے۔ شام اودھ کی تمام تر رعنائیاں ان کی یادوں میں رچی بسی رہیں۔ ”نہ جانے کیا کشش ہے بمبئی تیرے شبستاں میں۔ کہ ہم شام اودھ صبح بنارس چھوڑ آئے ہیں“ ان کے والد نے نہ جانے کس مقبول گھڑی میں ان کا نام رکھاتھا کہ انھوں نے ہمیشہ سردار بن کے زندگی بسر کی۔
نام اور شاعری میں انفرادیت
علی سردار جعفری کی شخصیت اور شاعری کی طرح ان کے نام میں بھی انفرادیت ہے۔ وہ خود بھی اپنے نام کی انفرادیت پہ نازاں تھے۔ اپنے والد سید جعفر طیار جعفری اور چچا سید حیدر کرار جعفری و سید احمد مختار جعفری کو ان چار مصروں میں اس طرح یاد کیا ہے۔
نور نظر احمد مختار ہوں میں لخت جگر حیدر کرار ہوں میں
ہیں فتح و ظفر قوت ِبازوِ سردار یعنی پسرِ جعفر طیار ہوں میں
اردو میں ترقی پسند تحریک کا کوئی تذکرہ سردار جعفری کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا۔ وہ اردو شعر و ادب کا ایک اہم ستون اور ترقی پسند تحریک کے روح رواں تھے۔ عہد حاضر کے ممتاز نقاد پروفیسر گوپی چند نارنگ نے انھیں ترقی پسندی کے تاج کا نگینہ کہا ہے۔ اپنی ایک تحریر میں پروفیسر نارنگ نے علی سردار جعفری کو ترقی پسندوں کے سب سے بڑے قافلہ سالار کے طور پر یاد کیا ہے۔یوں تو پریم چند اور رگھو پتی سہائے فراق گورکھپوری سے لیکر فیض، مجروح، مخدوم اور احتشام حسین تک ادیبوں اور شاعروں کی ایک کہکشاں موجود ہے۔ لیکن سچ بات یہ ہے کہ سید سجاد ظہیر اور ملک راج آنند کے بعد ترقی پسند تحریک کو سمت و رفتار عطا کرنے میں علی سردار جعفری نے سب سے نمایاں رول ادا کیا ہے۔
سردار جعفری کی مرثیہ نگاری
”۱۴۹۱ ء میں لکھنؤ ریڈیو نے ایک مشاعرہ منعقد کیا جو سارے ہندستان میں بڑے ذوق و شوق سے سنا گیا۔اس کا نام تھا ’نو وارد شعراء کا مشاعرہ‘۔ جوش نے صدارت کی لیکن کلام نہیں سنایا۔ فیض، مخدوم، مجاز،جذبی اور جاں نثاراختر نے میرے ساتھ اس مشاعرے میں شرکت کی۔ن م راشد کسی وجہ سے نہیں آ سکے۔ یہ نئی ترقی پسنداردو شاعری کے سات سیارے تھے جن کی تابناک گردش کا نغمہ آج بھی گونج رہا ہے۔“
علی سردار جعفری کی شاعری کا آغاز مرثیہ گوئی سے ہوا۔ پھر افسانہ نگاری کی طرف مائل ہوئے۔ ۸۳۹۱ ء میں افسانوں کا مجموعہ ”منزل“ شائع ہوا۔ ۳۴۹۱ ء میں شعری مجموعہ ”پرچم“ ۸۴۹۱ ء میں ”نئی دنیا کو سلام“ ۰۵۹۱ ء ”امن کا ستارہ“ اور ۱۵۹۱ء میں ”ایشیا جاگ اُٹھا“ شائع ہوکر خواص و عوام میں مقبول ہوئے۔ ان کے علاوہ ”پرواز“ ”خون کی لکیریں“ ”ایک خواب اور“ ”لہو پکارتا ہے“ اور ”پتھر کی دیوار“ جیسے شعری مجموعوں کو بھی اہل نظر نے بے حد پسند کیا۔نثر میں ان کی تصانیف ترقی پسند ادب، لکھنؤ کی پانچ راتیں، پیغمبران سخن، غالب اور اس کی شاعری، ترقی پسند تحریک کی نصف صدی اور اقبال شناسی کی بھرپور پذیرائی ہوئی۔ سردار جعفری نے دیوان غالب، دیوان میر، کبیر بانی اور پریم وانی جیسی اہم کتابوں کی تدوین و ترتیب کا کام بھی انجام دیا۔ انھوں نے ڈاکیومنٹری فلمیں بنائیں، کہکشاں جیسا مقبول سیریل لکھا اور ”نیا ادب“ جیسے عہد ساز رسالے کی ادارت بھی کی۔
انسان دوستی اور علی سردار
معروف ترقی پسند نقاد پروفیسر شارب ردولوی نے بجا لکھا ہے کہ انسان دوستی سردار جعفری کے کلام کا بنیادی محور ہے۔ دراصل سردار جعفری کی شاعری تڑپتی اور سسکتی ہوئی انسانیت کا نوحہ ہے۔ ان کے طویل شعری سفر میں جو ایک جذبہ ہر جگہ نمایاں نظر آتا ہے وہ انسان کے کرب اور اس کے مسائل سے ہمددردی کا جذبہ ہے۔ انسان کی مجبوریوں کے بارے میں تقریباً سبھی شعرا نے کسی نہ کسی انداز میں اظہار خیال کیا ہے لیکن سردار جعفری نے جس تسلسل کے ساتھ اس موضوع پر اظہار خیال کیا ہے وہ دوسرے شعرا کے یہاں کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ سردار جعفری نے اپنے ایک طویل مضمون میں لکھا ہے کہ انھیں انسانی ہاتھ بہت خوبصورت معلوم ہوتے ہیں۔ جن ہاتھوں کی کاریگری نے دنیاکو حسن جمیل عطا کیا ہو انھیں سلام عقیدت پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں:
اِن ہاتھوں کی تعظیم کرو
اِن ہاتھوں کی تکریم کرو
دنیا کے چلانے والے ہیں
اِن ہاتھوں کو تسلیم کرو۔
اعجاز ہے یہ ان ہاتھوں کا، ریشم کو چھوئیں تو آنچل ہے
پتھر کو چھوئیں تو بُت کر دیں، کالکھ کو چھوئیں تو کاجل ہے
مٹی کو چھوئیں تو سونا ہے، چاندی کو چھوئیں تو پائل ہے
ان ہاتھوں کی تعظیم کرو۔
مزدور اور کسان سے ہمدردی
سردار جعفری کی شخصیت اور شاعری کو تنقید کا نشانہ بھی خوب بنایا گیا ہے۔ رفعت سروش تعریف کرنے پر آئے تو کہہ دیا کہ غالب اور اقبال کے بعددنیائے شاعری میں سب سے توانا آواز علی سردار جعفری کی ہے۔ جبکہ پروفیسر محمد حسن نے سردار جعفری کو تین اشعار اور تین نظموں کا شاعر قرار دیا ہے۔ علی جواد زیدی انھیں سرے سے شاعر ہی تسلیم نہیں کرتے۔ یہ تمام تنقیدی رائیں ایک حد تک انتہا پسندی کی شکار ہیں۔ دراصل سردار جعفری کے شعری مقام و مرتبہ کا تعین ناقدین اکیسویں صدی کو کرنا ہے۔ یہ سچ ہے کہ سردار کی شاعری کا ایک بڑا حصہ وقتی اور ہنگامی شاعری کے زمرے میں رکھنے کے لائق ہے۔ لیکن اس کی وجہ بھی وہ خود بیان کرتے ہیں۔
ہم اس دنیا ئے رنگ و بوکے طوفانوں سے گزرے ہیں
صنم خانوں سے اٹھے ہیں، پری خانوں سے گزرے ہیں
بڑھا کر تشنگی سے لذّتِ ذوق ِ ِ طلب اپنی
بھری مینا کو ٹھکرایا ہے، پیمانوں سے گزرے ہیں
غزل دل کی سنا کر اُٹھ گئے ہیں بزم یاراں سے
بجاتے اپنی زنجیروں کو زندانوں سے گزرے ہیں
شاعری کی عمر
علی سردار جعفری کی شاعری کی عمر نصف صدی سے زیادہ پر محیط ہے۔ ہیئت اور موضوع کی سطح پر ان کے کلام میں بے پناہ تنوع ملتا ہے۔ ایک زمانے تک صرف آزاد نظمیں کہتے رہے پھر پابند نظموں کی طرف رُخ کیا۔ طویل اور مختصر نظمیں کہیں۔ کئی تجربات کئے۔ غزل گوئی سے خاص رغبت نہ تھی لیکن روایتی شاعری کے جس ماحول میں ان کی پرورش ہوئی تھی اس کا اثر تھا کہ جب غزلیں کہتے تھے تو میر و غالب کے انداز کی پیروی کرنے کی بات بھی کرتے ہیں۔
مہک رہی ہے غزل ذکر زلف خوباں سے
نسیم صبح کی مانند کو بہ کو کہئے
شکایتیں بھی بہت ہیں، حکایتیں بھی بہت
مزا تو جب ہے کہ یاروں کے روبرو کہئے
سنواریے غزل اپنی بیان غالب سے
زبان میر میں بھی ہاں ہاں، کبھو کبھو کہئے
غزل گوئی میں بھی مہارت
بیان غالب سے غزل کو سنوارنے اور زبان میر میں کبھو کبھو کہنے کی بات تو کرتے ہیں لیکن وہ اپنے خطیبانہ انداز سخن سے خود کو کب تک بچاتے۔ وہ ایک بلند آہنگی جو ان کی نظموں کا خاصہ ہے، وہی بلند آہنگی ان کی غزلوں میں بھی در آئی ہے۔ اس بلند آہنگی اور انداز تحکم نے ان کی غزلوں کو بانکپن عطا کیا ہے۔
میں جہاں تم کو بلاتا ہوں وہاں تک آؤ
میری نظروں سے گزر کر دل و جاں تک آؤ
پھر یہ دیکھو کہ زمانے کی ہوا ہے کیسی
ساتھ میرے مرے فردوسِ جواں تک آؤ
حوصلہ ہو تو اُڑو میرے تصور کی طرح
میری تخئیل کے گلزار جناں تک آؤ
اٹل بہاری واجپئی سے تعلق خاص تھا
ہمارے ملک کے ایک عظیم سیاسی رہنما اور سابق وزیر اعظم آنجہانی اٹل بہاری واجپئی بھی سردار جعفری کی شخصیت اور شاعری کے دلدادہ تھے۔ دونوں اپنے زمانے کے مقبول ترین مقرر تھے۔ دونوں شاعر تھے اور بلرام پور سے دونوں کا ایک رشتہ تھا۔ ایک کی جنم بھومی تو دوسرے کی کرم بھومی کا نام ہے بلرام پور۔ بطور وزیر اعظم ہند شری اٹل بہاری واجپئی جب پاکستان گئے تو اپنے ساتھ سردار جعفری کی کتاب بھی تحفتاً لے گئے۔ یہاں سردار جعفری کی نظم ”کون دشمن ہے“ کا ذکر ضروری ہے کہ جنگ نہ ہونے دیں گے کے فلسفے پر اس نظم کی بنیاد ہے۔
یہ ٹینک، توپ، یہ بمبار ، آگ بندوقیں
کہاں سے لائے ہو، کس کی طرف ہے رُخ ان کا
دیارِ وارث و اقبال کا یہ تحفہ ہے؟
جگا کے جنگ کے طوفاں زمین ِ نانک سے
اُٹھے ہو برق گرانے کبیر کے گھر پر
غلام تم بھی تھے کل تک، غلام ہم بھی تھے
نہا کے خون میں آئی تھی فصلِ آزادی
ہمارے پاس ہے کیا دردِ مشترک کے سوا
مزا تو جب تھا کہ مل کر علاجِ جاں کرتے
خود اپنے ہاتھ سے تعمیر گلستاں کرتے
ہمارے درد میں تم اور تمہارے درد میں ہم
شریک ہوتے تو پھر جشنِ آشیاں کرتے
مگر تمہاری نگاہوں کا طور ہے کچھ اور
یہ بہکے بہکے قدم اُٹھ رہے ہیں کس جانب؟
کدھر چلے ہو یہ شمشیر آزمانے کو؟
سمجھ لیا ہے جسے تم نے ملک کی سرحد
وہ سرحدِ دل و جاں ہے، ہمارا جسم ہے وہ
تم اس کو تیغ کے ہونٹوں سے چھو نہیں سکتے
ادب سے آؤ کہ غالب کی سر زمین ہے یہ
ادب سے آؤ کہ ہے میر کا مزار یہاں
نظام و کاکی و چشتی کے آستانے ہیں
جھکا دو تیغوں کے سر بارگاہ ِ رحمت میں
اس نظم میں صلح و آشتی کی باتیں کرتے ہوئے، جنگ کے فلسفے کے خلاف دلائل پیش کرتے ہوئے، محبت کے پیغام کو عام کرتے ہوئے، اپنے ملک ہندستان کی گنگا جمنی تہذیب پہ ناز کرتے ہوئے، گوتم و نانک و چشتی کا حوالہ دیتے ہوئے نظم کے آخری چار مصرعے اس طرح پیش کرتے ہیں:
تم آؤ گلشن ِ لاہور سے چمن بردوش
ہم آئیں صبح بنارس کی روشنی لے کر
ہمالہ کی ہواؤں کی تازگی لے کر
اور اس کے بعد یہ پوچھیں کہ کون دشمن ہے؟
آخری عمر کی باتیں
ایک بھرپور اور با مقصد زندگی گزار کر86 سال کی عمر میں یکم اگست سن 2000ء کو علی سردار جعفری اس دارِ فانی سے رخصت ہوئے۔ سچ یہ ہے کہ ایسے عظیم لوگ مرتے نہیں ہیں۔ وہ لاکھوں کروڑوں دلوں میں زندہ رہتے ہیں۔
اسے نہ ڈھونڈھو
اسے نہ ڈھونڈھو کہ وہ کہیں بھی نہیں ملے گا
ابھی یہاں تھا، ابھی وہاں ہے
وہاں جہاں سے کبھی کسی کی
خبر ملی ہے نہ مل سکے گی
وہ ایک تازہ ہوا کا جھونکا تھا، ایک تازہ ہوا کا جھونکا
جو زیست کے گلشنِ تمنا
کو رنگ و بوئے بہار دے کر
گزر گیا ہے
کبھی نہ کہنا، وہ مر گیا ہے
کیونکہ شاعر علی سردار جعفری خود وعدہ کرتے ہیں کہ
لیکن میں یہاں پھر آؤں گا
بچوں کے دہن سے بولوں گا
چڑیوں کی زباں سے گاؤں گا۔
(مضمون نگار ڈاکٹر شفیع ایوب، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو)، نئی دہلی میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں)
تحریر۔۔۔ ڈاکٹر شفیع ایوب
ہندستانی زبانوں کا مرکز،
جے این یو، نئی دہلی، 110067
Mobile no. 9810027532
shafiayubi75@gmail.com