Urdu News

یتیم خانے سے زندگی کا آغاز کرنے والی ملکہ جذبات ،میناکماری

اداکارہ مینا کماری

 پیدائش: 01 اگست 1932 ء

وفات:31 مارچ 1972 ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یتیم خانے سے زندگی کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آغاز کرنے والی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملکہ جذبات ،میناکماری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لائبہ نعمان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 کسی بھی بچے کی پہلا سائبان اس کی ماں کی ممتا بھری ہوئی گود ہوتی ہے مگر مینا کماری کا پہلا سائبان بمبئی کا یتیم خانہ تھا۔
 جی ہاں!اپنی سنجیدہ اداکاری سے ناظرین کے دلوں کو چھو لینے والی عظیم اداکارہ مینا کماری ممبئی میں یکم اگست 1932 کو ایک متوسط طبقے کے مسلم خاندان میں مینا کماری جب پیدا ہوئیں تو باپ علی بخش انہیں یتیم خانے چھوڑ آئے کیوںکہ2بیٹیوں کی پیدائش کے بعدوہ بیٹے کے لئے دعا گو تھے ۔۔۔تاہم کچھ ہی عرصے بعد انہیں اپنی بیوی کے آنسوؤں نے بچی کو یتیم خانے سے گھر لانے کے لئے مجبور کر دیا۔
 اورپھرجس باپ نے مالی تنگ دستی کی وجہ سے مینا کو یتیم خانے پہنچایا تھا اسی نے ان کےوہ خواب پورے کیے جنہیں وہ ساری زندگی ہارمونیم کے سروں میں پروتے آئے تھے۔
 مینا کماری کی ماں اقبال بانو نے ان کا نام ”ماہ جبیں“ رکھا۔بچپن کے دنوں میں مینا کماری کی آنکھیں بہت چھوٹی تھیں اس لئے خاندان والے انہیں ”چینی“ کہہ کر بھی پکارا کرتے تھے۔
 سن1939 ءمیں چار سال کی عمر میںمینا کماری نے بطور چائلڈ آرٹسٹ فلموں میں اداکاری کرنی شروع کر دی تھی۔ پرکاش پکچرز کے بینر تلے بنی فلم ”لیدر فیس“میں ان کا نام ’’بے بی مینا‘‘ رکھا گیا۔اس کے بعد مینا نے ”بچوں کا کھیل“ میں بطور اداکارہ کام کیا۔ اسی فلم میں انہیں” مینا کماری“ کا نام دیا گیا۔
 یو ں تو مینا کماری ہر طرح کے کردار میں خود کو ڈھال لیا کرتی تھیں لیکن جب وہ سنجیدہ کردار نبھاتیں تو وہ ایک مثال بن جایا کرتی تھیں۔ سنجیدہ اور درد میں ڈوبے کرداروں کو موثر طریقہ سے ادا کرنے کی صلاحیت نے انہیں سنیما کے آسمان کی ان بلندیوں تک پہنچا دیا ۔
 مینا کماری بہترین اداکارہ کے ساتھ ساتھ ایک اچھی شاعرہ بھی تھیں۔ ان کے کرداروں کی طرح ان کی شاعری میں بھی درد، بے چینی، تنہایوں، محرومیوں اور بے شمار تلخیوں کا ایک طویل سلسلہ نظر آتا ہے۔
 مینا کماری کے قریبی دوست نے بتایا کہ’’مینا کمار ی کے والد ماسٹر علی بخش اور والدہ اقبال بیگم کے گھریلو حالات ناتواں تھے۔باپ کو بیٹے کی خواہش تھی لیکن پیدا بیٹی ہو ئی ، اس لئے ماں کو مینا کماری سے خاص محبت نہیں تھی۔
 مینا کماری کا بچپن محرومی میں گزرا ۔ وہ دل بہلانے کے لئے اپنے آنگن سے پتھر اٹھا کر معروف موسیقار نوشاد صاحب کے گھر پر پھینک دیا کر تی تھیں ۔ نوشاد صاحب کو بھی یہ علم نہ تھا کہ ان کے گھر پر پتھر پھینکنے والی بچی ایک دن بڑی اداکارہ بنے گی جس کے دنیا میں چرچے ہو ں گے ۔‘‘
 سن 1952میں میناکماری کو وجے بھٹ کی ہدایت میں فلم’’بیجو باورا‘‘ میں کام کرنے کا موقع ملا۔ فلم کی کامیابی کے بعد وہ بطور اداکارہ اپنی شناخت بنانے میں کامیاب رہیں۔
 اسی سال انہوں نے فلم ساز کمال امروہی کے ساتھ شادی کر لی۔ اسی دوران انہوں نے کئی کامیاب فلمیں بھی دیں جن میںآرتی، میں چپ رہوں گی اورصاحب بیوی اور غلام “جیسی فلمیںان کے فلمی کیریئر کے لئے کامیاب ثابت ہوئیںلیکن مزاج نہ ملنے کی وجہ سے ان کی ازدواجی زندگی میں تلخی آ گئی اور دونوں علیحدہ ، علیحدہ رہنے لگے۔
 کمال امروہی کی فلم ”پاکیزہ“کو بننے میں تقریبا ً14برس لگ گئے۔ کمال امروہی سے الگ ہونے کے باوجود مینا کماری نے شوٹنگ جاری رکھی تھی کیونکہ ان کا خیال تھا کہ پاکیزہ جیسی فلموں میں کام کرنے کا موقع بار بار نہیں مل پاتا۔
 بعد میں تاریخ نے ثابت کیا کہ مینا کماری کی یہ بات بالکل سچ ثابت ہوئی۔
 بہترین اداکاری کے لئے انہیں چار بار فلم فیئر کے بہترین اداکارہ کے ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ ان میں”بیجو باورا، پرینیتا، صاحب بیوی اور غلام اور ”کاجل“ شامل ہیں۔
 اتنے دکھوں نے مینا کماری کو اندر سے کہیں توڑ دیا تھا ۔ اس غم کو بھلانے کے لئے انہوں نے شراب نوشی شروع کردی جو آہستہ آہستہ ان کے لئے جان لیوا ثابت ہوئی۔ شراب نوشی کے سبب انہیں موت نے مزید زندہ رہنے کا موقع نہیں دیا اور وہ 31 مارچ 1972 کواس دنیا کو الودع کہہ گئیں۔
 مینا کماری اگر اداکارہ نہ ہوتیں تو شاعر ہ کے طور پر اپنی شناخت بناتیں۔ہندی فلموں کے نغمہ نگار اور شاعر گلزار سے ایک بار مینا کماری نے کہا تھا، ”یہ جو اداکاری میں کرتی ہوں اس میں ایک کمی ہے۔یہ فن، یہ آرٹ مجھ میں پیدا نہیں ہوا ہے، خیال دوسرے کا، کردار کسی کا اور ہدایت کسی کی۔ میرے اندر سے جو پیدا ہوا ہے، وہ میں لکھتی ہوں، جو میں کہنا چاہتی ہوں، وہ لکھتی ہوں۔“
 مینا کماری نے اپنی وصیت میں اپنی نظمیں چھپوانے کا ذمہ گلزار کو دیا تھا جسے انہوں نے ”ناز“ تخلص سے چھپوایا۔
 ہمیشہ تنہا رہنے والی مینا کماری نے اپنی ایک غزل میں اپنا ایک درد بیان کیا تھا ۔
چاند تنہا ہے آسماں تنہا 
دل ملا ہے کہاں کہاں تنہا 
راہ دیکھا کرے گا صدیوں تک 
چھوڑ جائیں گے یہ جہاں تنہا
منتخب اشعار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 آبلہ پا کوئی اس دشت میں آیا ہوگا 
ورنہ آندھی میں دیا کس نے جلایا ہوگا
آغاز تو ہوتا ہے انجام نہیں ہوتا 
جب میری کہانی میں وہ نام نہیں ہوتا 
ترے قدموں کی آہٹ کو یہ دل ہے ڈھونڈتا ہر دم
ہر اک آواز پر اک تھرتھراہٹ ہوتی جاتی ہے 
عیادت کو آئے شفا ہو گئی 
مری روح تن سے جدا ہو گئی 
 کہیں کہیں کوئی تارہ کہیں کہیں جگنو
جو میری رات تھی وہ آپ کا سویرا ہے 
ہنسی تھمی ہے ان آنکھوں میں یوں نمی کی طرح 
چمک اٹھے ہیں اندھیرے بھی روشنی کی طرح
یہ نہ سوچو کل کیا ہو
کون کہے اس پل کیا ہو
اداسیوں نے مری آتما کو گھیرا ہے
رو پہلی چاندنی ہے اور گھپ اندھیرا ہے
روح کا چہرہ کتابی ہوگا
جسم کا رنگ عنابی ہوگا
چاند تنہا ہے آسماں تنہا
دل ملا ہے کہاں کہاں تنہا
عیادت ہوتی جاتی ہے عبادت ہوتی جاتی ہے
مرے مرنے کی دیکھو سب کو عادت ہوتی جاتی ہے
یوں تیری رہ گزر سے دیوانہ وار گزرے
کاندھے پہ اپنے رکھ کے اپنا مزار گزرے
بہ شکریہ : عمبر شمیم  

Recommended