گیا، 26 جولائی (انڈیا نیرٹیو)
محرم الحرام کا مہینہ شروع ہوتے ہی کربلا کی یاد میں مجلسیں شروع ہوجاتی ہیں۔ ریاست بہار کے بڑے اور قدیم گیا کے کربلا میں بھی ہر دن ہزاروں افراد پر مشتمل عقیدت مندوں کا ہجوم نظر آتا ہے اور اس میں ہندو مسلم سبھی شامل ہوتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ گیا کے اس قدیم کربلا کی تعمیر دو ہندو خاندانوں نے کرایا ہے۔ اس میں ایک نے زمین دی تو دوسرے نے عمارت کی تعمیر کروائی ، اس کربلا میں بلا تفریق مذہب و ملت ہر طبقے کے لوگوں کی آمد ہوتی ہے۔
گیا کربلا کے خادم ڈاکٹر سید شبیر عالم کہتے ہیں یہاں ایک خاتون نے کربلا معلی سے خون آلودہ مٹی لاکر تدفین کیا تھا اور اسی کے بعد رائے ہری پرساد نے کربلا کی تعمیر کے اخراجات کو برداشت کیا۔ زینت بی بی نام کی خاتون نے پہلی بار اس جگہ کو اس وقت منتخب کیا تھا۔ جب اْنہوں نے اس مقام کو خواب میں دیکھا، جس جگہ پر یہ کربلا واقع ہے۔
دراصل اْسکے سامنے سے پھلگو ندی بہتی ہے۔ اسکے دوسری جانب پہاڑی ہے ، جغرافیہ طور پر اس کو کربلا معلی سے مشابہت تسلیم کی گئی ہے۔ شبیر عالم کہتے ہیں کہ گیا کا یہ کربلا ‘ ثانی کربلا ‘ سے بھی معروف ہے اور اس کی تعمیر ایک خاتون کے خواب پر منحصر ہے جسے ہندو خاندان نے مکمل کی یعنی کربلا کے لیے زمین وقف کی اور پھر اس پر کربلا کی تعمیر بھی کروائی۔
گیا کے کربلا کی تاریخ کے حوالے سے یہاں کے خادم ڈاکٹر سید شبیر عالم بتاتے ہیں کہ انہوں نے اپنے آبا و اجداد اور مؤرخین سے سْنا ہے کہ زینت بے بی نامی خاتون نے خواب دیکھا تھا کہ ‘جس مٹی پر حضرت حسین کو شہید کیا گیا تھا، وہی خون میں لت پت مٹی انہوں نے بغداد کربلا سے لاکر بھارت میں ایک جگہ دفن کی ہے۔
اس خواب کے بعد ایک دن راستے سے گزرتے ہوئے جب زینت اس جگہ کی تلاش میں ‘گیا سے گزر رہی تھیں تو ان کی نظر اقبال نگر کے قریب رام شیلا پہاڑ کے دامن پر پڑی، جس کے سامنے سے پھلگو ندی کا گزر ہوتا ہے۔ جہاں دو پہاڑیوں کے درمیان ایک اونچی جگہ ہے، جس کے کنارے ندی بہتی ہے۔ جو بالکل ان کے خواب کی تعبیر تھی۔
کربلا ٹرسٹ کے سکریٹری مسعود منظر نے بتایا کہ رائے ہری پرساد ایک زمیندار تھے اور انگریزی حکومت نے انہیں رائے کا لقب نوازا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ کہا جاتا ہے کہ زینت بی بی رائے پرساد کی بیوی تھی اور جب اسنے خواب کی جگہ ڈھونڈنے کے بعد اپنے شوہر ہری پرساد سے اس واقعہ کا ذکر کیا تو انہوں نے کربلا بھیج کر مٹی منگوایا اور یہاں کربلا تعمیر کروایا۔ اس کی دیکھ بھال کی ذمہ داری ڈاکٹرسید شبیرعالم قادری کے آبا و اجداد کو سونپی گئی۔
آج بھی یہاں سے سات محرم کو جو جلوس نکلتا ہے وہ ہری پرساد کے گھر کے پاس جاکر رکتا ہے اور وہیں پر فاتحہ کی رسم ادا ہوتی ہے۔ کہاجاتا ہے کہ یہاں عراق اور ایران کے لوگ بھی سال 1800 عیسوی میں آئے تھے اور کربلا کے بارے میں معلومات حاصل کی اور ان کے آنے کا سلسلہ برسوں جاری رہا۔ گیا کے کربلا تاریخ قریب تین سو برس قدیم ہے۔ کربلا کے علاقے میں واقع قبرستان میں بھی دو سو ڈھائی سو برس پرانی قبروں پر بھی لگے قطبہ سے اسکی قدامت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
موجودہ وقت میں اس کربلا کے انتظام و انصرام کی ذمہ داری کربلا ٹرسٹ کی ہے۔ جس میں سبھی طبقہ کے افراد شامل ہیں کربلا ٹرسٹ کا قیام سال 1906 میں ایک ٹائٹل سوٹ مقدمہ کے فیصلے کی بنا پر ہوا ٹرسٹ کے موجودہ سکریٹری مسعود منظر بتاتے ہیں کہ 1800عیسوی کے آخر میں یہاں ہندو ، سنی مسلمان اور شعیہ مسلمانوں کے درمیان کربلا کی جگہ پر ملکیت کے معاملے کو لیکر تنازعہ ہوا۔ حالاں کہ کچھ ہی دنوں میں ہندو خاندان نے ملکیت سے اپنا دعوی واپس لے لیا حالانکہ سنی مسلمان اور شعیہ مسلمانوں کے درمیان تنازعہ چلتا رہا۔ سال 1906میں سول کورٹ نے اپنے فیصلے میں دونوں کی ملکیت کے دعوے کوختم کرتے ہوئے فیصلہ دیا اور کربلا ٹرسٹ بورڈ قائم کردیا۔
گیا کا کربلا ہندو مسلم سکھ عیسائی سبھی طبقے اور مذہب کے اتحاد کا مظہر ہے۔ یہاں سبھی طبقے کے لوگوں کی آمد ہوتی ہے اور سبھی امام عالی مقام حضرت سیدنا امام حسین کی بارگاہ تک اپنی محبت کا نذرانہ پیش کرتے ہیں۔ سنتوش سنگھ کہتے ہیں کہ کربلا میں ہر برس محرم کے جلوسوں کو وہ اپنے علاقوں سے لے کر پہنچتے ہیں۔ بڑی عقیدت ہے اور سبھی کی کوشش ہوتی ہے کہ پرامن اور بھائی چارے میں محرم منایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ محرم کے علاوہ بھی وہ کربلا جاتے ہیں اور اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں جب کہ مسعود منظر کہتے ہیں کہ آج بھی محرم کے موقع پر ‘ پیک ‘ لگاتے ہیں ان میں ہندوو?ں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔
گیا شہر کے اقبال نگر محلے میں واقع کربلا میں محرم کے موقع پر ہزاروں عقیدت مندوں کا مجمع ہوتا ہے۔ انتظامیہ پرسکون طریقے سے پوری تقریب کو اختتام کرانے میں کوشاں ہے۔ موجودہ حالات کے تناظر میں اس بار مزید احتیاط برتی جا رہی ہے۔
کربلا میں پہنچ کر خود ڈی ایم ڈاکٹر تیاگ راجن نے انتظامات کا جائزہ لیا اور اور یہاں ہونے والے سبھی پروگراموں کا تفصیلی جائزہ لیا۔ ڈی ایم نے کہا کہ بہار کا یہ بڑا کربلا لوگوں کے لیے مرکز عقیدت ہے یہاں سبھی طرح کی سہولیات کا انتظام و انصرام ہونا ضروری ہے۔ تاکہ عقیدت مندوں کو پریشانی نہ ہو۔
رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…
مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…
جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…
شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…
زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…
سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…