Urdu News

گورکھپور کا علمی وادبی منظر نامہ

مشرقی اتر پردیش کا تاریخی شہر گورکھپور کئی حوالوں سے مشہور ہے۔

 گورکھپور کا علمی وادبی منظر نامہ 

مشرقی اتر پردیش کا تاریخی شہر گورکھپور کئی حوالوں سے مشہور ہے۔ 
گورکھپور کے آسمانِ ادب پہ جو چاند ستارے ہمیشہ جگ  مگ کرتے رہے ہیں ان میں مہدی افادی، ریاض خیرآبادی، فراق گورکھپوری، مجنوں گورکھپوری، ہندی گورکھپوری، پروفیسر محمود الٰہی، پروفیسر احمر لاری، پروفیسر اختر بستوی، پروفیسر افغان اللہ خان، ڈاکٹر سلام سندیلوی، ماسٹر احمر گورکھپوری  کے ساتھ عمر قریشی کا نام بھی شامل ہے۔ جو حضرات اس وقت بھی شعر و ادب کی خدمت میں مصروف ہیں ان میں دہلی میں مقیم پروفیسر عبد الحق اور پروفیسرمحمد شاہد حسین، علیگڑھ میں پروفیسر اصغر عباس، پروفیسر قاضی افضال حسین، پروفیسر قاضی جمال حسین، جئے پور راجستھان میں پروفیسر فیروزاحمد،اجین، مدھیہ پردیش میں ڈاکٹر غلام حسین، لکھنؤ میں ڈاکٹر وضاحت حسین رضوی اور ڈاکٹر سید اکبر علی بلگرامی وغیرہ کا نام بہت اہمیت کا حامل ہے۔ گورکھپور یونیورسٹی میں اس وقت پروفیسر رضی الرحمن کے رفیق کار دو نوجوان اسکالرس ڈاکٹر ساجد حسین انصاری اور ڈاکٹر محبوب حسن ہمہ وقت مصروف ہیں۔ یہاں جن چند حضرات کا نام لیا گیا ہے وہ محض ایک مثال ہے ورنہ فہرست تو کافی طویل ہے۔ اس فہرست میں بابائے اردو افسانہ منشی پریم چند کا نام بھی شامل ہوگا کہ وہ نارمل اسکول میں ٹیچر تھے۔ گورکھپور سے منشی پریم چند کا بڑا گہرا تعلق رہا ہے۔ انکی بہت سی مشہور تخلیقات کا تعلق گورکھپور سے رہا ہے۔ نارمل اسکول کے احاطے میں جہاں منشی پریم چند قیام پذیر تھے وہاں سے فرلانگ بھر کی دوری پہ عید گاہ مبارک خاں شہید ہے۔ آپ کو منشی پریم چند کی کہانی   ”عید گاہ“ تو یاد ہے نا؟ 
مہدی افادی جیسا نثر نگار اور انشا پرداز بھی اپنی ملازمت کے سلسلے میں گورکھپور میں مقیم تھے۔ گورکھپور کے نخاس چوک سے علامہ شبلی نعمانی کو خطوط لکھے جا رہے تھے۔ پروفیسر فیروز احمد کی کتاب’مہدی افادی‘پڑھ لیجئے۔ گورکھپور اور مہدی افادی جی اٹھیں گے۔ شاعرِ خمریات حضرت ریاض خیرآبادی گورکھپور میں سکونت پذیر تھے۔ باریش، نیک طینت، پرہیزگار ریاض خیرآبادی کی پوری شاعری شراب، میکدہ، میخانہ، جام و سبو، ساقی، صراحی، خم اور پیالہ سے عبارت ہے۔ انکا یہ شعر تو زبانِ زد خاص و عام ہے۔ 
              جامِ مے  توبہ شکن، توبہ  میری جام شکن
              سامنے ڈھیر ہے ٹوٹے ہوئے پیمانوں  کا
یہاں تک کہ جب نعت پاک کہتے ہیں تب بھی بڑی خوبصورتی سے انھی لوازمات کو برت کر بات بنا لیتے ہیں۔ فرماتے ہیں،
                آبِ زم زم کے سوا کچھ نہیں کعبے میں ریاض
                    میکدہ  کہتے  ہیں  جس کو  وہ  مدینہ  ہوگا 
ریاض خیرآبادی کے علاوہ ہندی گورکھپوری، فراق گورکھپوری، مجنوں گورکھپوری، ملک زادہ منظور احمد، پروفیسر محمود الٰہی، ڈاکٹر سلام سندیلوی،    پروفیسر احمر لاری، ڈاکٹر اختر بستوی، پروفیسر افغان اللہ خان، جیسی شخصیات نے گورکھپور کی علمی اور ادبی فضا کو منور کرنے میں نمایاں رول ادا کیا ہے۔ گورکھپور کی علمی ادبی فضاؤں میں پرورش پانے والے حضرات میں جناب شمس الرحمٰن فاروقی کا نامِ نامی بھی ہے۔ جو لوگ گورکھپور کے جغرافیہ سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ ابو بازار سے بخشی پور کی جانب بڑھیں توغازی روضہ چوراہا پار کرتے ہی چند قدم کی دوری پر دادا میاں کا مزار ہے۔ اسی مزار کے قریب میں معزز فاروقی خاندان آباد ہے۔ اسی خاندان سے ایک نو عمر لڑکا میاں صاحب اسلامیہ انٹر کالج میں پڑھنے جایا کرتا ہے۔ راستے میں ایک دفتری کی دکان ہے۔ اس کی دکان پر بہت سی کتابیں جلد سازی کے لئے آتی ہیں۔ یہ نو عمر لڑکا اس جلد ساز سے دوستی کر لیتا ہے۔ بدلے میں پڑھنے کے لئے اسے بھانت بھانت کی کتابیں مل جاتی ہیں۔ پڑھنے کا شوق رفتہ رفتہ جنون کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ دادا میاں کے مزار سے اسلامیہ کالج کی دوری محض ایک کیلومیٹر ہے۔ یہ نو عمرلڑکا گھر سے کالج گھنٹوں میں پہینچتا ہے کیونکہ کتاب پڑھتے ہوئے راستہ طئے کرتا ہے۔ آنکھوں پر پاور کا چشمہ چڑھ جاتا ہے۔ سول سروس کا امتحان پاس کر کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہوتا ہے۔  دنیائے شعروادب نے اس نو عمرلڑکے کو شمس الرحمٰن فاروقی  کے نام سے جانا۔ ”شعر غیر شعر اور نثر“  ”افسانے کی حمایت میں“  ”عروض آہنگ اور بیان“  ”درس بلاغت“ لغاتِ روز مرّہ“ اور چار جلدوں میں  شہرہ آفاق ”شعر شور انگیز“  کے بعد ”کئی چاند تھے سرِ آسماں“ جیسا شاہکار ناول دنیائے ادب کو دینے والے شمس الرحمٰن فاروقی پر اہلِ گورکھپور کیوں نازاں نہ ہوں۔                    
ماسٹر احمر گورکھپوری کا شمار استاد شعراء میں ہوتا تھا۔ حضرت داغ دہلوی اور نوح ناروی کی طرح ماسٹر احمر گورکھپوری کے شاگردوں کی بڑی تعداد تھی۔ شہر گورکھپور اور ملک کے دوسرے حصوں سے بڑی تعداد میں شعراء اصلاح سخن کے لئے ماسٹر احمر گورکھپوری سے رجوع کرتے۔ استاد شاعر ماسٹر احمر گورکھپوری کے عزیز شاگردوں میں ایک معتبر نام عمر قریشی کا ہے۔ عمر قریشی بھرپور شاعر تھے۔ لیکن انکی لافانی شہرت کا سبب انکی شاعری نہیں بلکہ انکی دلکش فنِ نظامت ہے۔ 
نظامت کے جن چار ستونوں کی بات ابتدا میں کی ہے وہ چاروں اپنے اپنے انداز کے، اپنے اسلوب کے بادشاہ ہیں۔ اپنے لہجے اور آواز سے پہچانے جاتے ہیں۔جناب ثقلین حیدر اپنی نظامت کے دوران بیشمار اشعار سناتے تھے۔ انکا حافظہ زبردست تھا۔ برمحل اشعار سے محفل میں جان ڈال دیتے تھے۔ ہزاروں اشعار انکی نوکِ زبان پہ تھے۔ مشاعروں کا بڑا سے بڑا شاعر اپنا کلام پڑھ کے بیٹھتا اور ثقلین حیدر شروع ہو جاتے۔ شاعر نے جس مضمون کا شعر پڑھا تھا اسی مضمون کو میر انیس نے کیسے باندھا ہے یہ بتانا ثقلین حیدر کا کام تھا۔ جس زمین میں شعر پڑھا گیا ہے اسی زمین میں مصحفی اور ناسخ کے شعر سنا دیتے۔ شاعر جس ردیف قافیہ کا استعمال کرتا اسی ردیف قافیہ میں کبھی داغ دہلوی تو کبھی علامہ اقبال کے اشعار برمحل سنا دیتے۔ مشاعرہ سن رہے ہزاروں سامعین جھوم اٹھتے، واہ واہ کی صدا بلند ہوتی، لوگ ثقلین حیدر کی سخن فہمی اور زبردست یادداشت کی داد دیتے۔ لیکن بیچارہ شاعر سر دھن کے رہ جاتا۔ جو داد و تحسین اس کے حصے میں آنی تھی وہ ناظم ِ مشاعرہ ثقلین حیدر لوٹ لیتے تھے۔ ثقلین حیدر کی زبردست نظامت کا منفی پہلو یہ تھا کہ شاعر پھیکا پڑ جاتا تھا۔ نظامت چمک جاتی تھی۔ 
دوسرے کامیاب طرین ناظمِ مشاعرہ پروفیسر ملک زادہ منظور احمد ہیں۔ جنھوں نے مشاعروں کو کسی حد تک ادبی وقار عطا کیا ہے۔ عمر قریشی کے شہر سے ملک زادہ منظور احمد کا بھی گہرا تعلق رہا ہے۔ ابتدائی اور اعلیٰ تعلیم گورکھپور میں حاصل کرنے کے بعدکچھ زمانے تک درس و تدریس کا سلسلہ بھی گورکھپور میں رہا۔ پھر اعظم گڑھ اور لکھنؤ میں تدریسی فرائض انجام دیتے رہے۔ ملک زادہ منظور احمد لکھنؤ یونیورسٹی میں اردو زبان و ادب کے استاد رہے۔ اردو اور انگریزی ادب کا گہرا مطالعہ ہے۔ دورانِ نظامت ایک خاص معیار سے گر کر کبھی گفتگو نہیں کرتے۔ کچھ خاندانی روایت، کچھ بزرگوں کی صحبت نے ملک زادہ منظور احمد کو ایک خاص طرزِ گفتگو عطا کیا ہے۔ شاعروں کی شان میں بیجا قصیدہ نہیں پڑھتے اور اول جلول لطیفے سنا کر سامعین کے ذوق کو خراب نہیں کرتے۔ آواز میں قدرتی بھاری پن اور کھنک ہے اسی لئے مائیکروفون پہ ملک زادہ منظور احمد کی آواز دوسروں کے مقابلے زیادہ بلند اور صاف سنائی دیتی ہے۔ شاعروں کو داد بھی ایک خاص کڑک دار آواز میں دیتے ہیں۔ شاعروں کا تعارف کراتے وقت بیجا طوالت سے عام طور پہ بچتے ہیں۔ 
مشاعروں میں فنِ نظامت کے چوتھے ستون کا نام عمر قریشی ہے۔ ثقلین حیدر، ملک زادہ منظور احمد اور انور جلال پوری سے بالکل الگ انداز تھا جنابِ عمر قریشی کی نظامت کا۔ وہ شاعروں کا تعارف انکے شہروں کے حوالے سے کراتے تھے۔ مالوہ کی ایک شاعرہ اپنا کلام سنا کے بیٹھی تو عمر قریشی گویا ہوئے خواتین و حضرات آئیے اب آپ کو مالوہ سے گلابی شہر جئے پور لئے چلتا ہوں جہاں سے تشریف لائے ہیں خاکِ پائے جگرجناب حسرت جئے پوری۔ جتنی دیر میں حسرت جئے پوری اپنی جگہ سے اٹھتے اور مائک پر آتے اتنی دیر میں عمر قریشی جئے پورکے  جغرافیہ اور تاریخ پر بھرپور روشنی ڈال چکے ہوتے۔ ہر شہر کی ادبی تاریخ ان کے زبان پر تھی۔ مراد آباد سے تشریف لائے کسی شاعر کو زحمتِ سخن دے رہے ہیں تو قمر مراد آبادی، کیف مراد آبادی اور جگر مرادآبادی اور نہ جانے کس کس مرادآبادی شاعر کا نام لیتے اور انکا کلام بھی سنا دیتے تھے۔ اسی طرح کوئی شاعر بھوپال کا ہے تو نہ صرف کیف بھوپالی، اسعد بھوپالی اور شعری بھوپالی کا نام لیتے بلکہ بھوپال کی پہاڑیوں اور بھوپال کے چھوٹے تالاب اور بڑے تالاب کا ذکر بھی کرتے۔  وہ ہندوستان کے تقریباً تمام اہم شہروں کی ادبی وراثت سے واقف تھے۔ ایک خاص بات انکے حوالے سے یہ ہے کہ وہ کبھی بھی مشاعروں میں اپنا کلام نہیں سناتے تھے۔ دورانِ نظامت اپنے لا تعداد اشعار بر محل سناتے تھے لیکن بطور شاعر مائک پہ آکر اپنا کلام نہیں سناتے تھے۔ جبکہ دنیا کو معلوم ہے کہ وہ ایک بہترین شاعر تھے، انکے کئی مجموعے شائع ہوئے۔ شہرِ صدا، زخمِ صدا وغیرہ کو بے حد سراہا گیا۔ لیکن انکی عادت تھی کہ وہ مشاعروں میں صرف نظامت کرتے تھے۔ ایک اور بات انھیں اپنے ہم عصر ناظموں سے الگ کرتی ہے کہ وہ شاعر کی قابلیت پہ بہت غور نہیں کرتے تھے۔ شاعر کسی سطح کا ہو، بطور ناظمِ مشاعرہ وہ چاہتے تھے کہ شاعر اسٹیج سے کامیاب و کامران واپس جائے۔ شاعر اور شاعری کمزور ہو تو عمر قریشی کی نظامت اسے سہارا دینے کا کام کرتی تھی۔ کسی طرح شاعر کامیاب ہو جائے اور مجموعی طور پر مشاعرہ کامیاب ہو جائے یہ عمر قریشی کی کوشش ہوتی تھی۔ 
گورکھپور کی علمی ادبی فضا کو جو تابناکی فراق، مجنوں، ریاض، مہدی افادی، محمود الٰہی، احمر لاری اور شمس الرحمن فاروقی کی ذات سے ملی اسے آج آگے لے جانے والوں میں پروفیسر عبد الحق، پرفیسر محمد شاہد حسین، پروفیسر قاضی افضال حسین، پروفیسر قاضی جمال حسین،  پروفیسر اصغر عباس، پروفیسر فیروز احمد، ڈاکٹر غلام حسین، پروفیسر رضی الرحمن، ڈاکٹر اکبر علی، ڈاکٹر ساجد حسین انصاری اور داکٹر محبوب حسن وغیرہ کا نام قابل ذکر ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ناموں کی یہ فہرست بہت چھوٹی اور نا مکمل ہے۔ گورکھپور کی علمی ادبی فضاؤں پہ ایک نہیں کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ راقم السطور بھی اس سلسلے میں کچھ کام کر رہا ہے۔ امید ہے کہ نئی نسل کے کچھ اور باذوق اور با صلاحیت نوجوان اسکالرس سامنے آئیں گے اور گورکھپور کی علمی ادبی فضاؤں کو سنوارنے والوں پہ جی بھر کے لکھیں گے۔ 
((ڈاکٹر شفیع ایوب، ہندوستانی زبانوں کا مرکز، جے این یو، نئی دہلی)   
  
 
 

Recommended