اردو کے سب سے بڑے شاعر مرزا غالب کا خاندانی پس منظر
مرزاغالبؔ کا اصل نام مرزا اسداللہ بیگ خان ہے۔عرفیت مرزا نوشہ تھی۔27دسمبر1797ء میں بروز بدھ آگرے میں پیدا ہوئے۔دہلی کے ایک معزز خاندان میں اسد اللہ خان کی شادی ہوئی،شادی کے بعد وہ آگرہ سے دہلی منتقل ہوگیے۔ان کے والد مرزا دولہا کی نسبت سے انہیں مرزا نوشہ کے نام سے یاد کیااور دہلی میں اسی عرفیت کے ساتھ وہ مشہور ہوئے۔پہلے’اسد‘کے نام سے شعر کہتے تھے۔بعد میں کسی اسد نامی شاعر کے بارے میں سنا تو انہوں نے غالبؔ تخلص اختیار کیا۔دبیر الملک،نجم الدولہ اورنظام جنگ جیسے خطابات شاہی دربار سے غالبؔ کو عطا کیے گیے۔استاد شیخ محمدابراہم ذوق ؔکے بعد بہادر شاہ ظفر کے استاد بھی مقرر ہوئے۔ان کے والد مرزا عبداللہ بیگ خان ایک بہادر سپاہی تھے۔مرزاغالبؔ کی والدہ کا نام عزت النسا تھا جو ایک معزز خاندان کی تعلیم یافتہ اور نیک دل خاتون تھی۔غالبؔ کا تعلق ایک معزز خاندان سے تھا۔غالب ؔخود کو پُشنگی اور افراسیابی کہتے تھے۔پشنگ افراسیاب کے باپ کا نام تھا۔افراسیاب قدیم ترکستان یا تورانی قبائل کا ایک معروف اور طاقتور شخص تھا۔غالب اپنے آبائی حسب نامے کے مطابق تر ک سلجوقی ہیں۔سپہ گری اس خاندان کا محبوب پیشہ تھا۔
سلجوق سلطنت کا شہزادہ مرزا ترسم بیگ خاں جو مرزاغالبؔ کا پردادا ہے۔جب سلجوق حکومت کو زوال لاحق ہوا توترسم خان نے سمرقند میں سکونت اختیار کی۔غالبؔ کے دادا کا نام مرزا قوقان بیگ خاں تھا۔قوقان بیگ خاں اپنے باپ ترسم خاں سے ناراض ہو کرمحمد شاہ کے زمانے میں لاہور میں آ بسے تھے۔شہر لاہور میں قوقان بیگ خاں معین الملک کے ہم راہ ہوئے۔جب معین الملک کی بساط الٹ گئی تو قوقان بیگ خاں دہلی میں مرزا نجف خاں بہادرکے دربار سے وابستہ ہوگیے۔غالبؔ کے والد مرزا عبداللہ بیگ خاں کی پیدائش دہلی میں ہوئی۔مرزاقوقان بیگ خاں کی کل سات اولادیں تھیں:چار لڑکے تین لڑکیاں۔ان میں غالب ؔکے والد مرزاعبداللہ بیگ اور چچا نصر اللہ بیگ بہت مشہور ہوئے،کئی درباروں میں متعدد عہدوں اور جاگیروں سے سرفراز ہوئے۔اس لیے ان کے احوال زندگی کے بارے میں معلومات دستیاب ہیں جب کہ باقی کے حالات تا ریخ میں مرقوم نہیں۔روایت کے مطابق مرزاغالبؔ کے والد مرزا عبداللہ نے بھی اپنے آبائی پیشہ سپہ گری کو اختیار کیا۔عبداللہ بیگ پہلے لکھنو کے آصف الدولہ کے دربار میں ملازم ہوئے۔اس کے بعد حیدرآباد کے نظام علی خان کی فوج میں تین ہزار فوجوں کے ساتھ شامل ہوگیے۔وہاں سے آگرہ چلے آئے،جہاں سکونت اختیار کی۔الور کے راجہ بختاور سنگھ کی فوجی کمان سنبھالی1802ء میں راج گڑھ کی معرکہ آرائی میں مرزا عبداللہ جنگ کے میدان میں شہید ہوگیے۔اس وقت مرزاغالبؔ کی عمر صرف پانچ سال کی تھی۔غالبؔ کل تین بھائی بہن تھے،سب سے بڑی بہن چھوٹی خانم اور چھوٹا بھائی مرزایوسف۔مرزاغالبؔ کے والد کی وفات کے بعد ان کے چچا نصراللہ بیگ مرزاغالبؔ کی کفالت کا بار اپنے ذمہ لے لیا۔نصراللہ خاں کی اپنی کوئی اولاد نہ تھی اس لیے انہیں اپنے بھائی کی اولادوں سے بے انتہا محبت تھی۔انہوں نے ان کی پرورش و پرداخت میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔مرزا نصراللہ آگرہ میں مرہٹوں کی طرف سے صوبے دار تھے۔انگریزوں کے اقتدار میں آنے کے بعدانہیں رسالدار بنا دیا گیا۔آگرہ کے دو پرگنے سونس اور سونسہ کے علاقے بطور جاگیر انہیں عطا کیے گیے تھے۔مگر مشیت یزدی کچھ اورہی تھی۔1806ء کو مرزا نصراللہ بیگ ہاتھی سے گر کر شدید طور پر زخمی ہوگیے۔اس حادثے کے بعد ان کی وفات ہو گئی۔اس وقت غالبؔ کی عمر آٹھ برس کی تھی۔اس طرح غالبؔ چچا کی کفالت اور شفقت سے بھی محروم ہو گیے۔نصراللہ بیگ خاں کے پس ماندگان کی پرورش کے لیے انگریز حکام نے وظیفہ مقرر کردیا،جس میں سے ایک مخصوص حصہ مرزاغالبؔ کو بھی ملتا تھا۔بعد میں غالب ؔکے حصے کی رقم روک دی گئی۔جس کے لیے مرزاغالبؔ نے مقدمہ بازی بھی کی اور بہت تکلیفیں اٹھائیں۔