Urdu News

شاہ جہاں کے آگرہ کا ولی حضرت سید احمد بخاری رحمتہ اللہ علیہ

سید فیض علی شاہ جعفری قادری نیازی

سید فیض علی شاہ جعفری قادری نیازی

شہر اکبرآباد کے مشہور بزرگ حضرت سید احمد بخاری شاہ جہانی عہد کے نام ور شخصیت ہیں لیکن ان کی سوانح اور حالات کتب میں بہت کم ملتے ہیں نہ ان پر ابھی تک کوئی تحقیق ہوئے جو بزرگ زبانی بہت کچھ جانتے تھے وہ بھی اب نہیں رہے جو کچھ معلومات ہے وہ بس مزار سے اختساب فیض اور کرامات تک محدود ہے کو بات زبانی تور پر کسرت سے مشہور ہے وہ یہ ہے کہ سید جلاج بخاری کے بڑے بھائی اور حضرت شاہ عالم احمدآبادی کی پانچوی پشت میں ہیں حضرت شاہ عالم قطب گجرات کہلاتے ہیں۔

 ان کے آبا و اجداد بخارا سے تعلق رکھتے تھے یہ خاندان شروع سے اپنے علم و فضل کے لئے جانا جاتا ہے حضرت احمد بخاری صاحب کا خاندان پیشاور کا رہنے والا تھا بادشاہ شاہ جہاں نے ادب و اہترام سے آگرہ دار السلطنت بلایا عزت اور عیزاز سے نوازہ آگرہ میں یہ روایت جلی آتی ہے کہ تاج محل کی تعمیر میں جو روہانی رکاوٹیں تھی وہ بھی حضرت جلال بخاری اور حضرت احمد بخاری کی دعاء اور عمل سے دور ہوئیں ،شاہ جہاں سے آپ کا رشتہ بہت مخلصانہ اور قریبی تھا۔

 کچھ  لوگوں کا مننا ہے کہ شاہ جہاں ان سے بیعت تھا حالانکہ یہ روایت کہیں نہیں ملتی اسی طرح میر سید شاہ مجاہد الدین صفوی کے لیے بھی مشہور ہے لیکن شاہ جہاں کی زوجہ سرہندی بیگم مجاہد الدین صاحب سے بیعت تھیں ۔ شاہ جہاں بادشاہ اولیاء دوست تھا اور اہل صفا کی عزت کرتا تھا ان کو اچھی طرح یاد کرتا تھا یہی وجہ ہے کہ شاید اس طرح کی روایت عام ہو گیں ہوں دوسری طرف کچھ علماء ظاہر وہ بھی ہیں جو خود شجہاں  کو بزرگ مانتے ہیں جو لوگ تصوف سے واقف ہیں ۔

وہ یہ جانتے ہیں کہ ولایت کا کیا کیا شرائط ہیں اور یہ بھی کہ با حیثیت بادشاہ اس کو پورا کرپانا کتنا مشکل ہے،میری رائے میں وہ ایک صالح اور نیک دل باوقار شہنشاہ ہے جس نے مغل حکومت کو انساف پسندی نیکی عدل نفاست اور نظم و ضبط کی بلندیوں تک پہنچایا یہ اس کا فضل اور خدا کا اس پہ بڑا احسان ہے جو بےمسال اور نادر کارنامہ ہے ۔ الغرض حضرت احمد بخاری شاہ جہانی عہد کے مشائخ میں سے ہیں اہل شہر بیحد عقیدت رکھتے ہیں مزار  تاج محل کے مشرقی جانب ایک بلند ٹیلے پر پُرفضا مقام پر واقع ہے یہ جگہاں حویلی خاندوراں خاں عرف نصیری خاں جنگ جو جہانگیر کے عہد کے شاہی ملازم تھے اور شاہ جہانی عید میں سیہ  ہزاری منصب پر فائز تھے کی حویلی کے پاس ہے اب یہ حویلی تو نہیں رہی ایک بلند درواز ضرور بجا ہے جو  آخری سانسیں لے رہا ہے اور کسی بھی وقت گرنے کی صورت میں حیرت انگیز طریقے سے کھڑا ہے ۔ پورا شہر  آگرہ ہی صدیوں سے کھنڈروں سے بھرا تھا اب اس کے نشان بھی لوگ نہیں جانتے نا جانے کتنی اور حویلیاں برباد ہویں اور ہو رہے ہیں آپ چاہیں تو اس سے عہوں کا خاتمہ تصور کریں چاہیں عبرت لیں چاہیں غم کریں وقت اور حالات بدلتے ہیں۔آگرہ کا حال ایک شعر میں کہوں تو یوں ہوگا

اب جہاں چاہوں بنا لوں میں گھر اپنا میکش

بڑ گئی اور بھی وسعت میری ویراں ہو کر

)حضرت میکش اکبرآبادی)

بس اللہ باقی رہنے والا ہے اور وہ جو اللہ کے ہوگئے۔ آج بھی اس جنگل میں اللہ کا ایک ولی اور اس کے سائے میں سیکڑوں ولی آرام کر رہے ہیں

سید احمد بخاری کا عرس ہر سال 25 رجب کو منایا جاتا ہے. شہر کے کونے کونے سے لوگ شرکت کرتے ہیں اور یہ مقام بھی ایسا پر سکون ہے کے لوگ یہاں روحانی سکون محسوس کرتے ہیں اللہ والے جہاں ہوتے ہیں اللہ کی رحمت کا ابرے باراں وہاں ضرور برستا ہے۔ 

بوستان اخیار مشاہیر اکبرآباد میں سیعد احمد مہرہروی لکھتے ہیں آپ آگرہ کے اولیاے قدیم سے ہیں مفصر حال کسی تاریخ یا تزکرہ میں نظر سے نہیں گزرا۔ عام طور سے مشہور ہے کہ آپ سید جلال بخاری کے بڑے بھائی تھے مگر اس کی صحت میں شک ہے۔ آپ کے مزار سے اہل شہر خصوصاً ساکنانِ گنج کو خاص عقیدت ہے۔ مزار نہایت بلند اور پر فضا مقام پر متصل حویلی خاندوراں خاں واقع اور زیارت گاہ خاص و عام ہے۔ شاہان سلف کے عہد کچھ اراضی اس کے اخراجات کے واسطے معاف چلی آتی ہے جو زیر اہتمام کمیٹی لوکل ابجنٹی ہے۔ جمعہ کے دن 25 رجب 1064ھ   کو آپ نے سفر آخرت اختیار فرمایا۔ تاریخ از مخبرالواصلین:

صبح آدینہ رحلتش فرمود

از رجب ماہ بست و پنجم بود

سال تاریخ نقل آن سیّد

گو- منور بہشت از احمدؐ

Recommended