ملک میں خواتین کا تحفظ: مسائل اور چیلنجیز
ڈاکٹر شفیع ایوب
ہمارا ملک ہندوستان دنیا میں اُس تہذیب کے لئے ممتاز ہے جہاں خواتین کو دیوی کا درجہ دیا گیا۔ قدیم ہندوستان نے دنیا کے سامنے جس تہذیب اور جس سماج کو پیش کیا اس سماج میں خواتین کو اعلیٰ مقام حاصل تھا۔ ماں سیتا، دیوی درگا اور لکشمی جی کی پوجا جس ملک میں صدیوں صدیوں سے ہوتی رہی ہو اُس ملک میں خواتین کے مقام کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ قدیم زمانے سے موجودہ دور تک ہمارے ملک میں سماج کے ہر طبقے نے عورت کو اعلیٰ مقام دینے کی بات کی ہے۔ تمام مذہبی پیشواؤں نے بھی خواتین کے احترام کا سبق دیا ہے۔ اہلِ سیاست اور اہلِ حکومت نے بھی اپنی جانب سے کوشش کی ہے۔ لیکن اِن تمام کوششوں کے باوجود ملک میں خواتین کا تحفظ ایک مسئلہ بنا ہوا ہے۔ خواتین کا تحفظ سماج کے ہر فرد کے لئے ایک چیلنج ہے۔ اِس چیلنج کو قبول کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
ملک میں خواتین کے تحفظ کے حوالے سے جب بھی گفتگو ہوگی، اس کے مسائل اور چیلنجیز کو سمجھنا ہوگا۔ اس حقیقت کو بھی نظر میں رکھنا ہوگا کہ خواتین کے تحفظ کے مسائل یک رُخی نہیں ہیں۔ اس کی مختلف شکلیں ہیں۔ کچھ واضح اور کچھ غیر واضح شکلیں۔ خواتین کو درپیش مسائل میں ان کی تحفظ کا مسئلہ سب سے اہم ہے۔ یہ بات ہمارے ذہنوں میں آئینے کی طرح صاف ہونی چاہئے کہ تحفظ سے مُراد صرف جسمانی تحفظ نہیں ہے۔ ذہنی، فکری، روحانی اور نفسیاتی تحفظ بھی خواتین کے لئے بے حد ضروری ہے۔ لیکن ملک کے طول و عرض میں جب خواتین خود کو محفوظ نہ محسوس کر سکیں تو ذہنی، فکری اور نفسیاتی تحفظ کی باتیں بے معنی لگتی ہیں۔ ماہرین نفسیات بار بار اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ تحفظ سے زیادہ تحفظ کا خوف جان لیوا ہوتا ہے۔ اپنی تحفظ کو لے کر خوفزدہ رہنے والی خواتین زندگی کے کسی شعبے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پاتی ہیں۔ بہترین کارکردگی کے لئے احساس تحفظ بہت ضروری ہے۔
خواتین کے خلاف ہونے والے ہر قسم کے تشدد سے تحفظ کا شیرازہ بکھرتا ہے۔ تشدد گھر کے اندر ہو یا گھر کے باہر، اس کی زیادہ تر شکار خواتین ہی ہوتی ہیں۔ مقام شکر ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں خواتین کے تحفظ کے حوالے سے قومی سطح پر بحث و مُباحثہ کا آغاز ہوا ہے۔ نہ صرف اہلِ سیاست اور حکومت بلکہ سماجی کارکن اور صحافی بھی اس میدان میں آگے آئے ہیں۔ خواتین کے تحفظ کو یقینی بنانے میں قومی میڈیا نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ کئی اہم ادارے اور تنظیمیں اس موضوع پر ریسرچ بھی کر رہی ہیں۔ ان موضوعات پر ریسرچ اس لئے ضروری ہے کہ ان کا تعلق محض لاقانونیت سے نہیں ہے۔ تمام ماہرین اس بات پہ متفق ہیں کہ ملک میں خواتین کے تحفظ کے مسائل اور چیلنجیز کا تعلق محض لاء اینڈ آرڈر سے نہیں ہے۔ اس کے سماجی و نفسیاتی پہلو نظر انداز نہیں کئے جا سکتے۔ اداروں اور تنظیموں نے جب ملک گیر سطح پر ریسرچ کی اور اعداد و شمار جمع کئے تو انکشاف ہوا کہ بہت سے مسائل سے ہماری واقفیت ہی نہیں تھی۔ پھر یہ کہ مسائل کی درجہ بندی بھی وقت کی اہم ضرورت تھی۔ حکومت ہند کا اہم ادارہ نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو نے بھی اس درجہ بندی میں اہم رول ادا کیا ہے۔ حکومت کو، عدلیہ کو یا سماجی تنظیموں کو جب تک یہ نہیں معلوم ہوگا کہ خواتین کہاں کہاں، کس مقام پہ سب سے زیادہ غیر محفوظ ہیں، تب تک ان کے تحفظ کو یقینی بنانا مشکل ہوگا۔ خواتین کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے ان کے خلاف ہونے والے تشدد کی صحیح جانکاری بہت ضروری ہے۔
نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو کی رپورٹ کے مطابق خواتین کے خلاف تشدد میں ہر سال تقریباً ساڑھے چھہ فیصد (6.5%) کا اضافہ ہو رہا ہے۔ہمارے ملک کے لئے یہ نہایت خطرناک صورت حال ہے۔ ہمارے ملک میں ہر تین منٹ میں خواتین کے خلاف تشدد کا ایک واقعہ رونما ہو رہا ہے۔ یہ اعداد و شمار اس وقت سامنے آئے ہیں جب 65 فیصد ہندوستانی مرد یہ مانتے ہیں کہ خواتین کو اپنے خلاف ہونے والے تشدد کو خاموشی کے ساتھ برداشت کر لینا چاہئے۔ گلوبل انڈکس سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ خواتین اپنے خلاف ہونے والے جرم یا تشدد کی رپورٹ کرتی ہیں تو اس سے خاندان کی بدنامی ہوتی ہے۔ اس لئے تقریباً 65 فیصد ہندوستانی مرد یہ چاہتے ہیں کہ خواتین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے معاملات کو پولس تک نہیں پہنچنا چاہئے۔ جرم اور تشدد کو خاندان کی عزت کے ساتھ جوڑ دینے کی یہ بیماری مزید تشدد کو جنم دیتی ہے۔ اس لئے خاندان کی عزت کے نام پر تشدد کو برداشت کرنے کی وکالت کرنے والی ذہنیت پر بھرپور چوٹ کرنے کی ضرورت ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ ہمارے ملک میں خواتین صرف سڑکوں، پارکوں، بازاروں یا شاہراؤں پر غیر محفوظ ہیں۔ وہ گھروں میں بھی غیر محفوظ ہیں۔ گھریلو تشدد کی شکار خواتین کی تعداد کا ٹھیک ٹھیک اندازہ سرکاری ایجنسیوں کو نہیں ہو تا۔ کیونکہ خاندان کی عزت کے نام پر یہ معاملات رپورٹ کی منزل تک نہیں پہنچتے۔ ناموس کی خاطر لڑکیوں کا قتل یعنی آنر کلنگ میں گھر کے افراد ہی شامل ہوتے ہیں۔ ان میں شاید ہی کوئی پیشہ ور مجرم ہو۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو محض کسی فرضی جذبے کے تحت اپنی ہی بیٹی یا بہن کو موت کے گھاٹ اُتار دیتے ہیں۔ ایسے معاملات صرف سخت قوانین سے نہیں روکے جا سکتے ہیں۔ ایسے معاملات کو روکنے کے لئے سماج کی ذہن سازی بہت ضروری ہے۔ اسی طرح ہمارے ملک میں جہیز کے لئے ہونے والے تشدد کو محض قانون کی سختی سے روک پانا ممکن نہیں ہے۔ جہیز کم لانے یا نہ لانے کی پاداش میں لڑکیاں سسرال میں جل کر مر جاتی ہیں یا جلا کر مار دی جاتی ہیں۔ جہیز مخالف قانون (Anti Dowri Law) ہمارے ملک میں 1961میں بنا تھا۔ اس قانون میں سخت سزا کا التزام کیا گیا تھا۔ لیکن اس قانون کے وجود میں آنے کے بعد بھی جہیز کے لئے ہونے والے تشدد اور جرم میں کچھ خاص کمی دیکھنے کو نہیں ملی۔ اس کے لئے سماج میں ذہنی بیداری کی سخت ضرورت تھی۔
ملک میں خواتین کے تحفظ کو کیسے یقینی بنایا جائے، اس بات کے لئے سماج کا ہر طبقہ فکر مند ہے۔ ایک طبقہ وہ بھی ہے جو ہر بات کے لئے حکومت کو ذمہ دار تصور کرتا ہے۔ بے شک حکومت کی اپنی ذمہ داری ہوتی ہے۔ حکومت کا کام خواتین کے تحفظ کے لئے سخت ترین قانون بنانا اور اسے نافذ کرنا ہے۔ لیکن یہ بات ہم نہیں بھول سکتے کہ صرف سخت ترین قانون سے خواتین کے تحفظ کو یقینی نہیں بنایا جا سکتا ہے۔ قانون کو نافذ کرنے والی ایجنسیوں کو بھی بہت فعال اور حسّاس ہونے کی ضرورت ہے۔ سماج کا ایک طبقہ قانون کے لچیلے پن کو ذمہ دار تصور کرتا ہے۔ حکومت بے شک سخت ترین قانون بنا سکتی ہے لیکن ماہرین قانون جانتے ہیں کہ قانون کے غلط استعمال کی گنجائش ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ اس لئے قانون کا مسوّدہ اس طرح ڈرافٹ کیا جاتا ہے کہ کوئی بے گناہ اس کی زد میں نہ آنے پائے اور مجرم قانون کے لچیلے پن کا فائدہ اُٹھا کر چھوٹنے نہ پائے۔ عورتوں کے خلاف ہونے والے تشدد اور جرم کے سلسلے میں سخت ترین قانون کی حمایت ہم سبھی کرتے ہیں۔ لیکن اس میں توازن کا ہونا بھی انصاف کا تقاضہ ہے۔
خواتین کے تحفظ کو یقینی بنانے میں ایک بڑا چیلنج میڈیا کا روّیہ بھی ہے۔ الکٹرانک میڈیا کا ایک طبقہ سنسنی خیزی میں یقین رکھتا ہے۔ کسی بھی واقعے یا حادثے کو سنسنی خیز بنا کر پیش کرنے سے چینل کے ناظرین کی تعداد میں اضافہ ممکن ہے۔ لیکن اس سے سماج پر بے پناہ منفی اثر پڑتا ہے۔ ایک طرف متاثرہ خاتون کی ذاتی زندگی متاثر ہوتی ہے۔ اس کے اہلِ خانہ اور اہلِ خاندان متاثر ہوتے ہیں۔ دوسری جانب مجرم کی چالاکی اور مکاری کو کئی مرتبہ اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ وہ ہیرو کی شکل میں ابھرنے لگتا ہے۔ بہت سے نوجوان اس جرم میں کشش محسوس کرتے ہیں۔ ایک اور بڑا نقصان پولیس اور دیگر جانچ ایجنسیوں کو اُٹھانا پڑتا ہے، جب میڈیا سے خبر پاکر مجرم خود کو بچانے کی کامیاب تدبیر کر لیتا ہے۔ پل پل کی میڈیا رپورٹ سے وہ جانکاری حاصل کرتا ہے اور خود کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ بعض مرتبہ میڈیا رپورٹ سے ہی وہ جانکاری حاصل کر لیتا ہے کہ پولیس اور دیگر ایجنسیاں کس سمت میں جانچ کر رہی ہیں۔
جب ہم خواتین کے تحفظ کی بات کرتے ہیں تو اس میں ہر عمر اور ہر طبقے کی خواتین شامل ہوتی ہیں۔ ننھی بچیوں سے لے کر بزرگ خواتین تک، سبھی کو تحفظ فراہم کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ جب تک ہم ہر عمر، ہر رنگ، ہر نسل، ہر طبقے کی خواتین کو احساس تحفظ فراہم نہیں کرتے، ہم ایک مہذب سماج کہلانے کے حقدار نہیں ہیں۔ ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ سرِ عام ایک خاتون پر حملہ ہو رہا ہے یا اس کی ناموس سے کھلواڑ کی کوشش ہو رہی ہے اور آس پاس موجود لوگ تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ یہ ہماری سماجی بے حسی کی انتہا ہے۔ پہلے یہ وبا شہروں تک محدود تھی۔ قصبات اور گاؤں میں عام آدمی اپنی آواز بلند کرتا تھا۔ لیکن 2017 کے ایک نیشنل سروے نے ہر با ضمیر شہری کو سوچنے پر مجبور کر دیا۔ شمالی ہندوستان کے قصبات، گاؤں اور دیہات سے تعلق رکھنے والے 58 فیصد لوگوں نے مار پیٹ، چھیڑ چھاڑ اور ریپ کے لئے لڑکیوں کے چال چلن کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ ایک اور تکلیف دہ بات سامنے آئی کہ تقریباً 65 فیصد لوگوں نے کہا کہ وہ ان معاملات میں دخل نہیں دیتے ہیں۔ لوگوں کا عام روّیہ یہ تھا کہ کسی خاتون پر تشدد ہو رہا ہے تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟ وہ سوچتے ہیں کہ ہم اپنی جان کو کیوں خطرے میں ڈالیں؟ جب سماج اِس ذہنی پستی تک پہنچ جائے تو بھلا قوانین کس حد تک خواتین کو تحفظ فراہم کر سکیں گے۔
کبھی کبھی خواتین پر تشدد کے لئے مذہبی آڑ بھی لی جاتی ہے۔ یہاں یہ بات بہت صاف ہونی چاہیے کہ کوئی بھی مذہب خواتین پر تشدد کی چھوٹ نہیں دے سکتا۔ وہ مذہب ہو ہی نہیں سکتا جو خواتین پر تشدد کی بات کرے۔ یہ مذہب کا چولا پہن کر کچھ لوگ خواتین کا استحصال کرتے ہیں۔ انھیں بے نقاب کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ ہمارے ملک کا قانون ایسے ڈھونگی پاکھنڈیوں کو ان کے انجام تک پہنچانے کے لئے کافی ہے۔ لیکن ہمیں ہمت دکھانا ہوگا۔ ہمیں خواتین کے خلاف ہونے والے ہر جرم کو پولیس اور عدالت کے دروازے تک لے جانا ہوگا۔ جب ہم ایک ساتھ مل کر آواز بلند کریں گے تب ہی صورت حال میں تبدیلی آئے گی۔ تب ہی ایک نئی صبح کا آغاز ہوگا۔ تب ہی ہم ملک میں خواتین کو مکمل تحفظ فراہم کر سکیں گے۔
(مضمون نگار ڈاکٹر شفیع ایوب، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں)