جے این یو میں کیسا ہوتا ہے افطار کا خصوصی انتظام
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں سحری و افطار کا انتظام شروعاتی زمانے سے ہے۔ میس میں یہ انتظام کیا جاتا ہے۔ مسلم طلبہ کا ساتھ اکثر غیر مسلم طلبہ بھی دیتے ہیں۔
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی یعنی جے این یو کا نام ہمیشہ سرخیوں میں رہا ہے۔ جے این یو کیمپس میں درجنوں ہوسٹل بنے ہوئے ہیں۔ لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے الگ الگ ہوسٹل ہیں۔ لیکن کچھ ایسے ہوسٹل بھی ہیں جس کے ایک ونگ میں لڑکے تو دوسرے ونگ میں لڑکیاں رہتی ہیں۔ جیسے سابر متی ہوسٹل اور تاپتی ہوسٹل میں لڑکے لڑکیاں ایک ہی ہوسٹل میں رہتے ہیں ونگ الگ ہے، میس ایک ہے۔ شادی شدہ لوگوں کے لئے بھی ہوسٹل بنے ہیں جیسے مہاندی ہوسٹل۔ ایک اور خاص بات کہ جے این یو میں ہوسٹل کے نام ہندوستان کی ندیوں کے نام پر رکھا گیا ہے۔ جیسے گنگا ہوسٹل اور گوداوری ہوسٹل لڑکیوں کے لئے مخصوص ہے۔ جبکہ لڑکوں کے لئے نرمدا، پیریار، کاویری، ستلج، جھیلم وغیرہ ہوسٹل بنے ہیں۔ چندربھاگا، تاپتی، لوہت، اور برہم پتر وغیرہ بھی ہوسٹل کے نام ہیں۔ ایک ہوسٹل میں تقریباً تین سو طالب علم رہتے ہیں۔ الگ الگ ہوسٹل میں مسلمان طالب علموں کی تعداد الگ الگ ہے۔ کسی کسی ہوسٹل میں مسلمان طالب علموں کی تعداد سو سے زیادہ بھی ہے۔ ہر ہوسٹل میں میس کی طرف سے افطار و سحری کا انتظام رہتا ہے۔ جے این یو کے شروعاتی دنوں سے یہ روایت قائم ہے۔ جے این یو کے پرانے طالب علم اور نیشنل اسکول آف اوپن اسکولنگ کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر شعیب رضا خان بتاتے ہیں کہ جے این یو میں افطار و سحری کا جو انتظام ہے ویسا انتظام علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں بھی نہیں ہے۔
جے این یو میں مسلم طلباء کے ساتھ ساتھ بہت سے غیر مسلم طلبہ بھی افطار میں شامل ہوتے ہیں۔ کچھ غیر مسلم طلبہ روزہ بھی رکھتے ہیں اگرچہ ان کی تعداد بہت کم ہے۔ ابھی گزشتہ روز اردو کی تحریک چلانے والے شاعر و ادیب ڈاکٹر شکیل احمد معین پٹنہ سے دہلی تشریف لائے۔ سابر متی ہوسٹل میں رہنے والے جموں و کشمیر کے نوجوان اسکالر مشتاق صدیقی کو معلوم ہوا تو انھوں نے ڈاکٹر شکیل معین کو ہوسٹل میں افطار کرنے کی دعوت دی۔ مشتاق صدیقی کی دعوت پر شکیل معین کے ساتھ پروفیسر انور پاشا، ڈاکٹر شفیع ایوب اور ممتاز صحافی احمد جاوید سابر متی ہوسٹل پہنچے۔ وہاں دیگر طالب علموں کے ساتھ عبد الحکیم، مشتاق صدیقی اور جلیل اقبال خاکی نے مہمانوں کا استقبال کیا۔ افطار کے بعد سابر متی ہوسٹل کی چھت پہ با جماعت مغرب کی نماز ادا کی گئی۔
ڈاکٹر شکیل احمد معین کی دہلی آمد پر جواہرلعل نہریونیورسٹی میں ایک میٹنگ کا اہتمام کیا گیا۔ ہندوستانی زبانوں کے مرکز کے سابق چیر پرسن، ممتاز نقاد پروفیسر انور پاشا کی صدارت میں منعقد اس مٹنگ میں مشہور صحافی اور ادیب احمد جاوید اور میڈیا پرسن ڈاکٹر شفیع ایوب کے علاوہ اور کئی سرکردہ شخصیات نے شرکت کی۔ بہار میں خصوصی طور پر اور پورے ملک میں عمومی طور پر اردو کے فروغ و ملت کے اندر مسلکی اور ذات برادری کی تفریق کو باہمی رابطے سے محبت میں بدلنے کی معیاری تحریک مائنارٹی ویلفئر اینڈ پرموشن آف اردو موومنٹ کی اہم اور خصوصی میٹنگ اس کے بانی اور چیئر مین ڈاکٹر شکیل معین کی اعزاز میں اس تنظیم کے دو اہم ستون عالمی شہرت یافتہ ادیب، آل انڈیا یونیورسٹی اردو ٹیچرس ایسو سیشن کے قومی صدر و جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے پروفیسر و اس تنظیم کے سرپرست انور پاشا صاحب کی رہائش اور ان کی صدارت میں اس تنظیم کے اعزازی مشیر نامور صحافی اور انقلاب اردو کے لکھنؤ و پٹنہ ایڈیشن کے سابق مدیر جناب احمد جاوید کی باوقار موجودگی اور دہلی میں اپنی ادبی و سماجی خدمات کے لئے مشہور ڈاکٹر شفیع ایوب کی پر وقار موجودگی میں ہوئی۔ جس میں تنظیم کے حوالے سے اہم فیصلے لئے گئے۔ تنظیم کے ذریعے بہار کے چار بڑی کمشنریاں (مگدھ، گیا، ترہٹ، مظفر پور۔ سارن، چھپرہ اور متھلا دربھنگہ) اور اس کے اضلاع میں تنظیم کے شاندار اجلاس اور لوگوں کے جذبے کی پذیرائی کی گئی۔ اس حوالے سے تنظیم کا ترجمان ”ماہنامہ خبر نامہ“ مئی مہینے کے دوسرے ہفتے سے نکالنے کا فیصلہ لیا گیا جس کا باقائدہ اجرا پٹنہ میں ہوگا۔ تنظیم کی عوامی مقبولیت کے پیش نظر اردو کے ملک کے دو اہم صوبے دہلی و اتر پردیش میں اس کے مرکز کا قیام عمل میں آیا۔ دہلی مرکز کے کنوینر ممتاز ناظم مشاعرہ و میڈیا پرسن ڈاکٹر شفیع ایوب اور اتر پردیش کے کنوینر مشہور سماجی شخصیت جناب عمیر قدوائی (بارا بنکی) کو بنایا گیا۔ افطار کا شاندار اہتمام جے این یو کے مشہور سابر متی ہوسٹل میں ہوا۔ جو معیاری اور پر لطف تھا۔ جے این یو کے سابر متی ہوسٹل میں طلبہ کی جانب سے افطار پارٹی منعقد کی گئی۔ جس میں ڈاکٹر شکیل احمد معین اور پروفیسر انور پاشا کے ہمراہ ڈاکٹر شفیع ایوب اور احمد جاوید نے شرکت کی۔ ریسرچ اسکالرس مشتاق صدیقی، جلیل اقبال خاکی، عبد الحکیم وغیرہ نے میزبانی کے فرائض انجام دئے۔”مائنارٹی ویلفیئر اینڈ پرموشن آف اردو“دراصل سماجی خدمت گار، شاعر و عالمی شہرت یافتہ ناظم مشاعرہ ڈاکٹر شکیل احمد معین کی کاوشوں کا نتیجہ ہے جس کو عملی جامہ پہنانے میں پروفیسر انور پاشا، احمد جاوید و چند جاں نثاروں نے ڈاکٹر شکیل معین کا بھرپور ساتھ دیا۔ اب یہ تنظیم نہ صرف بہار میں بلکہ دیگر ریاستوں میں بھی سڑک پر اتر کر اردو کی لڑائی لڑ رہی ہے۔ ڈاکٹر شکیل معین اور پروفیسر انور پاشا کا کہنا ہے کہ اردو کی لڑائی کو ہم ”سڑک سے سنسد“تک لڑیں گے۔ سڑکوں پر اتر کر لوگوں کے اندر بیداری پیدا کی جا رہی ہے تو دوسری طرف حکومتوں کو بھی آگاہ کیا جا رہا ہے۔ اس سلسلے کو آگے برھاتے ہوئے آج دہلی اور لکھنؤ مرکز کا قیام بھی عمل میں آیا۔ اس میٹنگ میں پروفیسر انور پاشا نے گزشتہ کاروایؤں پر اطمینان کا اظہار کیا جبکہ ممتاز صحافی احمد جاوید نے ڈاکٹر شکیل معین کی قائدانہ صلاحیتوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ دھیرے دھیرے ہم منزل کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ اردو کو اس کا جائز حق دلا کر رہیں گے۔