برداشت کا کلچر
*جوش، فیض اور مولانا مودودی کی دوستی*
سید ابو الاعلیٰ مودودی سے کسی نے جوش ملیح آبادی کے بارے میں رائے لی تو مولانا نے فرمایا "اچھا اس لئے نہیں کہوں گا کہ دین دار نہیں، برا اس لئے نہیں کہوں گا کہ میرے پرانے دوست ہیں" جوش صاحب بھی مولانا کو بہت مانتے تھے مگر کچھ اور لوگوں کی طرح ان کی بھی رائے تھی کہ اگر وہ سیاست میں نہ آتے تو بہتر ہوتا۔ "سیاست پیغمبروں کا میدان تھا جس پر شیاطین نے قبضہ کر لیا ہے۔ جو یہاں آیا بگڑ گیا …مولانا بھی سیاست میں آئے، اگر صرف عالم رہتے تو اچھا تھا" دونوں کی دوستی کا ایک کمال واقعہ جناب محمود عالم صدیقی نے اپنی کتاب ’سید مودودی نسلوں کے رہنما‘ میں لکھا ہے، "نظام حیدر آباد کا عتاب نازل ہوا تو اس موقع پر اسٹیشن پہنچانے صرف مولانا مودودی اور ان کے بھائی ابو الخیر آئے۔ سینکڑوں دوستوں میں کوئی نہیں تھا۔ کسی میں جرات نہ ہوئی" کتاب میں جوش صاحب اور فیض صاحب سمیت بہت سے ایسے انٹرویو شامل ہیں جو نظریاتی طور پر مولانا مودودی صاحب سے اختلاف رکھتے تھے مگر ان کے علم اور قابلیت کے قائل تھے۔
یہ تینوں حضرات یعنی مولانا مودودی، جوش اور فیض مخالف سمت کے مسافر تھے اور ان کو ماننے والے اکثر ایک دوسرے کے شدید خلاف رہے ہیں، فرق صرف یہ ہے کہ ان تینوں میں ایک احترام کا رشتہ رہا۔ دوستی بھی رہی اور گفتگو بھی مگر یہ برداشت کا کلچر اور دلیل سے ایک دوسرے سے اختلاف کرنے کا رجحان اب معاشرے سے ناپید ہو چکاہے۔ دلیل کی جگہ غصے نے لے لی ہے اور قلم کی جگہ ہتھیار نے۔ اب تو گفتگو کرتے ہوئے بھی خوف آتا ہے اس لئے صرف چیخ و پکار سنائی دیتی ہے۔ جمہوریت برداشت کا دوسرا نام ہے۔ مجھے آج بھی زمانہ ٔطالب علمی کے وہ خوبصورت لمحات یاد ہیں جب یونین کے الیکشن میں جوش اور فیض کی انقلابی فکر کا حامی تھا اور میرا دوست سلیم مغل، مولانا مودودی کی فکر کا، صبح ہم جامعہ میں ایک دوسرے کے خلاف گفتگو کرتے تھے، الیکشن مہم پر ہوتے تھے مگر یہ طے تھا کہ رات کھانا اور چائے ساتھ پئیں گے۔میری بدقسمتی کہ میری کبھی مولانا سے ملاقات نہیں رہی نہ ہی گفتگو کا موقع ملا۔ البتہ ان کی چند کتابیں پڑھنے کا اتفاق ہوا ۔جوش صاحب اور فیض صاحب کا تو خیر ہمارے گھر آنا جانا رہتا تھا۔ فیض احمد فیض دھیمی گفتگو کرتے تھے۔ شاید ہی کبھی کسی نے ان کو بلند آواز میں گفتگو کرتے ہوئے سنا ہو۔انہوں نے بھی مولانا کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کا ذکر کیا ہے۔پاکستان کے ابتدائی برسوں میں ایک طرف بائیں بازو کے ترقی پسند زیر عتاب تھے تو دوسری طرف مولانا مودودی اور ان کے رفقاء بھی جبر کا شکار رہے۔ اس لئے فیض صاحب اور مولانا ایک ساتھ الگ الگ مقدمات میں جیل میں رہے اور ان کی ملاقاتیں بھی ہوتیں۔ بقول فیض صاحب "بیورو کریسی کا ہر اس طبقے پر نزلہ گرتا ہے جو ان کی نمبر داری پوری طرح قبول نہیں کرتا"
فیض صاحب نے 1953میں مولانا کے ساتھ جیل میں گزرے لمحات کا ذکر اپنے انٹرویو میں کیا ہے۔ جب مولانا سزائے موت سننے کے بعد عمر قید بھگت رہے تھے، اس زمانے میں ہم سیاسی گفتگو نہیں کرتے تھے۔ ان سے شعرو ادب کی باتیں ہوتی تھیں۔ جیل خانے جا کر آدمی تھوڑی دیر کیلئے سیاست سے چھٹکارا پا لیتا ہے۔ مولانا کے ہاں اختلاف کرنے کا ایک قاعدہ اور مختلف نقطۂ نظر سننے کا ایک طریقہ تھا۔ پاکستان میں پہلے سیاسی اتحاد سول لبرٹیز یونین میں ہم نے شہری حقوق کے لئے مل کر جدوجہد کی"۔ ایوب خان کے خلاف تحریک کے دوران ذوالفقار علی بھٹو نے بھی جیل سے ڈاکٹر مبشر حسن اور جے اے رحیم کے ذریعے کچھ خطوط مولانا کو بھیجے اور ان دونوں کو یہ بھی پیغام دیا کہ وہ مولانا سے ملیں۔ وہ الگ بات کے وہ پھر بھی نہیں ملے۔ ایک خط میں بھٹو صاحب نے مولانا سے شکایت کی کہ آپ کی جماعت کے لوگ میری ذات پر حملے کر رہے ہیں۔ میں نے کبھی آپ کے خلاف نازیبا الفاظ ادا نہیں کئے۔ اس طرزِ عمل کو روکا جائے۔
بیگم مولانا مودودی کا انٹرویو بھی خاصا دلچسپ ہے۔ ان کا تعلق ایک جدید طرزِ فکر کے حامل گھرانے سے تھا۔ اسے پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا کا اپنی رائے منوانے کا اپنا طریقہ تھا۔ "ایک موقع پر انہوں نے مجھ سے کہا، بیوی! میں تم سے کبھی نہیں کہوں گا کہ تم پردہ کرو۔ تم خود پڑھو اور اپنی عقل سے فیصلہ کرو کہ آیا عورت کو پردہ کرنا چاہئے یا نہیں۔ انہوں نے کبھی اپنی رائے میرے اوپر نہیں ٹھونسی، مثلاً وہ خود نماز پڑھتے تھے مگر مجھے کبھی نہیں کہا۔ بس اتنا کہا کرتے کہ سوچ لو، اگر سمجھ آئے تو اختیار کر لو نہ سمجھ آئے تو نہ کرو۔ میں سمجھتی تھی یہی وہ حکمت عملی تھی جو ہماری شادی کو کامیاب بنا گئی۔ حکماً کچھ کہتے تو شاید شادی ناکام ہو جاتی". ایک جمہوری کلچر کی خوبصورتی یہی ہے کہ اس میں رائے کی آزادی ہوتی ہے اس وقت تو ہمارے کچھ دوست کافی عرصہ سے ’لبرل فوبیا‘ کا شکار ہیں تو دوسری طرف بہت سے ترقی پسند ’قوم پرست‘ بن کر رہ گئے ہیں۔ فیض صاحب سے جب یہ سوال ہوا تو بولے "تہذیب مغرب پر تنقید نئی نہیں، مگر دیگر علماء کے مقابلے میں مودودی صاحب کا نقطہ نظر زیادہ معتدل ہے انہوں نے غیر جذباتی اور استدلالی انداز میں تنقید کی ہے"۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ مولانا کی فیض صاحب اور جوش صاحب سے دوستی تھی پھر بھی جب مولانا کی جماعت کے ایک صاحب وزیر اطلاعات بنے تو جوش، فیض اور جالب پر ریڈیو اور ٹی وی کے دروازے بند کر دیئے گئے۔
ایک زمانے میں جلسوں میں سیاسی رہنمائوں کی زبانیں پھسل جاتی تھیں تو معذرت کر لیتے تھے اب تو بدزبانی کا مقابلہ ہے۔ ہم جس جانب بڑھ رہے ہیں، وہاں طاقت کے ذریعے بات منوانے کا کلچر فروغ پا رہا ہے اس سے آپ روبوٹ تیار کر سکتے ہیں، انسان نہیں۔ مولانا مودودی، جوش اور فیض صاحب کی دوستی اور نظریاتی اختلاف ہمارے لئے آگے بڑھنے کی مثال بن سکتی ہے۔
(مظہر عباس)
بہ شکریہ باسط خٹک