کامنا پرشادکا نام اردو حلقے میں کسی تعارف کا محتاج نہیں۔مشہور و معروف ادیب و شاعر پروفیسر اخلاق آہن نے کامنا پرشاد کو بجا طور پر اردو کا سفیر قرار دیا ہے۔ پروفیسر اخلاق آہن فارسی زبان و ادب کے عالمی شہرت یافتہ اسکالر ہیں۔ نہ صرف ہندوستان میں بلکہ ایران، ازبکستان، افغان ستان وغیرہ ممالک میں بھی پروفیسر اخلاق آہن کی پذیرائی ہوتی ہے۔ وہ فارسی اور اردو دونوں زبانوں میں شاعری کرتے ہیں۔ کامنا پرشادکو اور ان کی خدمات کو پروفیسر اخلاق آہن نے قریب سے دیکھا ہے۔انڈیا نیریٹو پروفیسر اخلاق آہن کے شکرئے کے ساتھ یہ مضمون شائع کر رہا ہے تاکہ اہل اردو محترمہ کامنا پرشاد کی علم دوستی اور اردو دوستی کو قریب سے دیکھ سکیں، محسوس کر سکیں۔ (ٹیم، انڈیا نیریٹو اردو)
کامنا پرشاد: اردو کی ایک سفیر
اخلاق آہن
جواہرلعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی
akhlaq.ahan@gmail.com
کامناپرشاد، رخشندہ جلیل اور سعدیہ دہلوی کی تگڑی نے اردو میں دلچسپی رکھنے والے دہلی کے انگریزی داں اشرافیہ میں اردو کے سفیرکے بطور اپنی شناخت بنائی ہے۔ موخرالذکر دو خواتین کے برعکس کامنا کا تعلق اردو کے کسی مقتدرہ گھرانے سے نہیں۔ مجھے ان کی ذاتی زندگی کے حوالے سے صرف اتنا معلوم ہے کہ غالباً ان کی والدہ بہار میں وزیر تھیں۔ان کے شوہر حکومت ہند سے وابستہ اعلی عہدوں پر فائز رہے ہیں اورخوشونت سنگھ نے جن خاتون دوستوں کا ذکر خیر کیا ہے، ان میں ایک یہ بھی ہیں۔ کامنا پرشاد سے آشنائی یا ملاقات کب اور کہاں ہوئی یہ واضح طور پر یاد نہیں۔ البتہ یہ تو طے ہے کہ کسی نہ کسی ادبی محفل میں ہوئی ہوگی اور بہت امکان ہے کہ معروف صنعتکار نویتیا جی کے گھر ہوئی، جو گاہے گاہے ادبی یا ثقافتی محفلیں آراستہ کرتے رہتے ہیں اور کامنا تقریباً ایسی ہر محفل میں موجود ہوتی ہیں اور اب تووہ کم از کم دہلی میں منعقدہ اردو سے متعلق ہر بڑے سیمینار میں خصوصی مہمان کے بطور رونق افروز نظر آجاتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ تقریباً گذشتہ ایک دہے سے مسلسل ’جشن بہار‘ کے عنوان سے بین الاقوامی مشاعرے کے انعقاد نے انھیں اردو حلقوں میں وسیع شہرت بخشی ہے۔ان سے جان پہچان کی جو پہلی یاد میرے ذہن میں ابھرتی ہے، وہ مذکورہ ادب دوست صنعت کار کے گھر ایک غیررسمی میٹنگ کی ہے جس کا مقصدفراز صاحب کے اعزاز میں ایک نششت کا انعقاد کرنا تھا۔ اس میں خود فراز صاحب کے علاوہ، دہلی کی ادب نواز شخصیت اور مجاز و فیض کے قریبی رفیق اکھلیش متھل، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق وائس چانسلر سید شاہد مہدی اور راقم موجود تھے۔بہت ساری باتوں کے علاوہ گفتگو اس پر ٹھہری کہ کن کن کو اس محفل میں بلایا جائے۔ چونکہ متھل صاحب شخصیات کی پسند و ناپسند کے حوالے سے بڑے حساس واقع ہوئے تھے، اس لیے اول انھیں سے پوچھا گیا کہ کسے بلائیں یا نہ بلائیں۔ بہر حال، کچھ دیر میں ذہن اور یادداشت پر زور ڈالنے کے بعد خاص احباب اور چیدہ افراد کی فہرست طے ہوگئی، لیکن فراز صاحب اس فہرست سے کچھ غیر مطمئن سے نظر آئے اور وجہ صاف تھی یعنی اس فہرست میں کسی خاتون کا نام شامل نہیں تھا۔نویتیا جی نے چٹکی لیتے ہوئے کہا ”بھئی انھیں پھلجھڑیاں چاہئے۔“ تو فراز کچھ جھینپتے ہوئے لیکن اپنے خاص انداز میں بولے، ”ظاہر ہے غزل سنانے کے لیے محفل میں غزلیں بھی تو موجود ہوں۔“ سو دلپسند رخوں کی فہرست سازی کی ذمہ داری ان کے سر آئی۔ انھوں نے دھڑادھڑ درجن بھر فہرست نازنیناں پیش کردی۔ ہمیشہ کی طرح محفل آراستہ ہوئی۔ چیدہ سامعین کے سامنے فراز صاحب جلوہ افروز ہوئے اور ان کے پہلو میں براجمان کامناپرشاد نے اپنے خاص انداز دلربایانہ میں نظامت کی ذمہ داری سنبھال لی۔ تعارف کرانے کاسلیقہ، درمیانی وقفہ میں گفتگو اور اردو کے معروف و منتخب اشعارکے پیشکش کا انداز پرکشش تھا۔ چنانچہ اس یادگار محفل کے ساتھ ساتھ کامناپرشاد کی شخصیت بھی نقش ہوگئی۔ایسی ہی ایک محفل پروفیسر گوپی چند نارنگ کو پدم بھوشن ایوارڈ سے نوازے جانے کے موقع پر وہیں گرم ہوئی، البتہ اس میں خواص سے زیادہ اردو کا جمہور طبقہ شامل ہوا، جو اچھی بات تھی اور وہاں کامنا خطاب کرتے ہوئے پہلی بار مجھے کچھ ڈگمگائی سی نظر آئیں۔ اسی طرح گاہے بگاہے ایسی ہی محفلوں میں ان سے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ کبھی کبھار ٹیلیفون پر گفتگو ہوتی۔ اکثر ان کا فون اردو کے تعلق سے کسی مسئلے کی دریافت کے سلسلے میں آتا ہے۔ مثلاً یہ کہ اردو کب سے اردو کہلانا شروع ہوئی، دکنی اردو کی کیا خصوصیات ہیں، دہلی میں اردو کا ادبی چلن کب شروع ہوا یا کسی مفرس لفظ یا اصطلاح کی وضاحت وغیرہ وغیرہ۔کامنا نے اردو زبان اور اس کی تاریخ سے متعلق فلمیں اور سیریل بھی بنائے ہیں۔ ان میں ایک سیریل آجکل ’داستان اردو‘ کے نام سے دوردرشن پر دکھایا جارہا ہے۔ اس سے قبل دہلی کی ایک معروف شخصیت سہیل ہاشمی کے ساتھ بھی انھوں نے ایک یادگار دستاویزی فلم اردو زبان کی تاریخ کے حوالے سے بنائی ہے۔ اردو خط سے ناآشنائی کے باوجود اردو کو برتنے، اردو میں اردو کی گفتگو، اردو سے جڑاؤ اور اقتدار کے گلیاروں میں اپنے رسوخ کے توسط سے اردو کے حوالے سے کچھ کرتے رہنے کا انتھک جذبہ غالباً لوگوں کو کامنا کا گرویدہ بناتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ آج کے ماحول میں جب اردو کا نام لینے میں اردو والے بھی جھجھکتے ہیں، اردو کے حوالے سے کامنا پرشاد کی یہ کوششیں اور اردو کی فخریہ علم برداری قابل تحسین ہے۔