سری نگر، 8؍ دسمبر
کشمیر کے لوگ جو روایتی ٹوپی استعمال کرتے ہیں اسے مقامی زبان میں قراقل کہتے ہیں۔ کشمیر کی شاہی ٹوپی سمجھی جاتی ہے، یہ کشمیریوں کے لیے عزت اور وقار کی علامت ہے۔
قراقل کی اصطلاح بھیڑوں کی ‘ قراقل‘ نسل سے آئی ہے، جو وسطی یا مغربی ایشیا سے تعلق رکھتی ہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، یہ ٹوپی بھیڑوں اور بکریوں کی اون سے بنائی گئی ہے۔
قراقل بھیڑ کی کھال سے بنی یہ ٹوپی کشمیر میں بہت مشہور ہے۔ اس کھال میں نرم، گھوبگھرالی ساخت، مخملی احساس اور چمکدار چمک ہے۔چمڑے کے معیار پر منحصر ٹوپی کی قیمت 6,000 روپے سے 30,000 روپے تک ہوتی ہے۔
ماہرین کے مطابق قراقلی نے ازبکستان کے شہر بخارا سے وسطی ایشیا اور افغانستان تک اپنا راستہ بنایا اور آخر کار کشمیری ثقافت کا ایک لازمی حصہ بن گیا۔یہ دیکھا گیا ہے کہ زیادہ تر مرکزی دھارے کے سیاست دان قراقل کی ٹوپیاں پہننے کا انتخاب کرتے ہیں۔
یہ بھی ایک عام بات ہے کہ ایک کشمیری دولہا اپنی دستار اتار کر اس کی جگہ قراقل کی ٹوپی پہنتا ہے جب وہ اپنی دلہن کے اپنے سسرال پہنچنے کا انتظار کرتا ہے۔سری نگر کے علاقے نواں بازار میں مشہور دکان ‘جان کیپ ہاؤس’ اس انوکھی ٹوپی کی 125 سال پرانی دکان ہے۔
مظفر جان، جو اب ان ٹوپیاں بنانے والے چوتھی نسل ہیں، بتاتے ہیں کہ اس مخصوص ٹوپی کے تین بنیادی انداز ہیں۔ پہلا جناح طرز، دوسرا افغان قراقول اور تیسرا روسی قراقول۔
مظفر کا کہنا ہے کہ ان کی دکان میں بنی ٹوپیاں محمد علی جناح اور موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی سمیت کئی اہم شخصیات پہن چکی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ میرے دادا نے 1944 میں جناح کے لیے قراقل کی ٹوپی بنوائی۔
رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…
مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…
جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…
شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…
زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…
سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…