Urdu News

خواجہ احمد عباّس بطور افسانہ نگار

خواجہ احمد عباّس

 خواجہ احمد عباّس بطور افسانہ نگار 

خواجہ احمد عباس کے یوم پیدائش (7جون) پہ ان کی یادوں کو سلام کرتے ہوئے انڈیا نیریٹو کی جانب سے یہ خصوصی مضمون پیش خدمت ہے۔ ”سات ہندوستانی“ جیسی فلم بنا کر امیتابھ بچن کو بریک دینے والے خواجہ احمد عباس نہ صرف اعلیٰ پائے کے فلم کار تھے بلکہ وہ ایک بے دار ذہن صحافی، کالم نگار، اسکرپٹ رائٹر، ناول نگار اور صف اول کے افسانہ نگار بھی تھے۔ ہم ڈاکٹر قدسیہ نصیر کے شکریے کے ساتھ یہ مضمون آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ خواجہ احمد عباس کو جنم دن بہت بہت مبارک ہو۔ (ٹیم انڈیا نیریٹو اردو، نئی دہلی)  

خواجہ احمد عباّس کا شمار مشہور ترقی پسندافسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ سعادت حسن منٹو، راجندر سنگھ بیدی، کرشن چندر اور عصمت چغتائی جیسے مشہور و معروف اردو افسانہ نگاروں کے ہم عصر خواجہ احمد عبّاس  ایک اہم افسانہ نگار ہیں جو ترقی پسند مصنفین کے اہم ستون بھی ہیں۔  خواجہ احمد عباس کا پہلا افسانہ ”ابابیل‘‘ ۵۳۹۱؁ء میں جامعہ ملیہ اسلامیہ سے شائع ہونے والے رسالہ ”جامعہ“ میں شائع ہوا،جس کا ذکر انھوں نے اپنی خود نوشت سوانح میں بھی کیا ہے۔ یہ افسانہ بقول عباس تیرہ جگہوں سے واپس آنے کے بعد ”جامعہ“ میں شائع ہوا، شائع ہوتے ہی اس افسانے کو بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ دنیا کی تقریباً تمام بڑی زبانوں مثلاً جرمن، انگریزی، فرانسیسی، روسی، عربی، چینی، سویڈش وغیرہ میں اس کا ترجمہ ہو چکا ہے۔ اس افسانے کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ جرمن زبان میں افسانوں کا ایک انتخاب شائع ہوا۔ اس انتخاب میں ہندستان کی تین کہانیاں لی گئیں۔ ایک رابندر ناتھ ٹیگور کی، ایک ملک راج آنند کی اور ایک خواجہ احمد عباس کی۔ اسی طرح ملک راج آنند اور اقبال سنگھ نے کہانیوں کا جو انتخاب شائع کیا اس میں بھی ’ابابیل‘ شامل ہے۔ 
خواجہ احمد عباس کو ادیب اور قلم کار بنانے کے پیچھے سب سے بڑا محرک تھا ان کے خاندان کا ادبی اور علمی ماحول۔ ان کے خاندان کے کئی لوگ جو ان کے ہم عمر اور بزرگ بھی تھے ادب میں کافی شہرت رکھتے تھے۔قدرت نے انھیں ایسے خاندان میں پیدا کیا جو علم و فن میں یکتا تھا۔گھر
کا ماحول نہایت ادبی اور علمی تھا۔ جس سے عباس کے اندر پوشیدہ صلاحیتوں کو اجاگر ہونے میں مدد ملی۔                  
’مسدس حالی‘ والے خواجہ الطاف حسین حالی عباس صاحب کے پر نانا تھے۔ آپ کے والد کا نام خواجہ غلام السبطین تھا۔ مشہور ماہر تعلیم خواجہ غلام السیدین آپ کے چچا زاد بھائی تھے۔ پانی پت میں حالی مسلم ہائی اسکول  سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد عباس علی گڑھ پہونچے۔ علی گڑھ  کے تعلیمی ماحول میں وہ سب سے زیادہ اپنے چچازاد بھائی خواجہ غلام السیدین سے متاثر ہوئے۔ غلام السیدین خود ایک ماہر تعلیم اور ادیب تھے۔ انھوں نے عباس کی صلاحیتوں کو پروان چڑھایا۔ علی گڑھ میں عباس انکی ہی گارجین شپ میں رہے۔  انکی ذاتی لائبریری سے استفادہ کیا۔ 
 ایسے خاندان میں آنکھ کھولنے والے اور ایسے ماحول میں پرورش پانے والے خواجہ احمد عباس کو رائیٹر تو بننا ہی تھا۔ قلم سے انکا رشتہ خاندانی وراثت کے طور پہ انھیں ملا تھا۔ لیکن عباس صاحب کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں۔ ان کے کارنامے ناول نگاری اور صحافت سے لیکر فلم سازی تک پھیلے ہوئے ہیں۔ لیکن بنیادی طور پہ ان کی حیثیت اردو ادب میں ایک افسانہ نگار کی ہی ہے۔ ”ابابیل“ کے شائع ہونے کے بعد ایک طویل عرصے تک مختلف ادبی رسالوں خاص طور پر ’ادب لطیف‘  ’افکار‘ ’سیپ‘  اور ’نیا دور‘ وغیرہ میں ان کی مختلف کہانیاں شائع ہوتی رہیں۔ انکا پہلا افسانوی مجموعہ ”ایک لڑکی“ کے نام سے شائع ہوا جو بہت مقبول ہوا۔ انکا ادبی سفر نصف صدی کو محیط ہے۔ اس مدّت میں انھوں نے تین سو سے زائد افسانے لکھے۔ خواجہ احمد عباس کے شائع شدہ افسانوی مجموعے مندرجہ ذیل ہیں: 
(۱)  ایک لڑکی 
(۲)  پاؤں میں پھول 
(۳)  زعفران کے پھول 
(۴) میں کون ہوں؟ 
(۵)  دیا جلے ساری رات 
(۶)  پانچ دانے پیار کے 
(۷)  پیار کی پکار 
(۸)  گیہوں اور گلاب 
(۹)  چراغ تلے اندھیرا
(۰۱)  پیرس کی ایک شام 
(۱۱)  کہتے ہیں جس کو عشق 
(۲۱)  بیسویں صدی کے لیلیٰ  مجنوں 
(۳۱)  نئی دھرتی نئے انسان 
(۴۱)  نیلی ساڑی
(۵۱)  سونے چاندی کے بت  (اس مجموعہ میں فلم پر مضامین اور فلمی اداکار کے خاکے بھی شامل ہیں) 
(۶۱)  ماڈرن الف لیلیٰ 
ایک لڑکی خواجہ احمد عباس کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ہے۔ 
جس دور میں خواجہ احمد عباس نے افسانہ نگاری کی ابتدا کی اس دور کی افسانہ نگاری میں مجموعی حیثیت سے تین خصو صیات نمایاں ہیں۔ پہلی خصوصیت تو یہ ہے کہ ان میں سے ہر افسانہ نگار کو اس بات کا شدید احساس ہے کہ افسانہ اور زندگی کی حقیقتوں میں ربط ہونا چاہئے۔ اس دور کے افسانوں کی دوسری امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ لکھنے والوں کے مزاج اور شخصیت کا بہت گہرا پرتو ان کے افسانوں میں نظر آتا ہے۔ تیسری خصوصیت یہ ہے کہ اس دور کے افسانہ نگار اسلوب اور فن میں نئے نئے تجربے کرنے سے نہیں گھبراتے۔  چونکہ خواجہ احمد عباس کا شمار ان ممتاز ترقی پسند افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے جنھوں نے اردو افسانہ نگاری کو وقار بخشا۔  چنانچہ عباس صاحب کے یہاں بھی یہ تمام خصوصیات  بدرجہ اتم موجود ہیں۔ انکا مطالعہ وسیع اور مشاہدہ گہرا تھا۔ وہ سماج میں مساوات کے زبردست حامی تھے۔  ۷۴۹۱؁ء کے فسادات نے ہر حساس فنکار کو رلایا۔  رامانند ساگر نے ”اور انسان مر گیا“ جیسا ناول اور کرشن چندر نے ”ہم وحشی ہیں“ جیسی کہانی لکھی۔ خواجہ احمد عباس جیسا حساس فنکار اپنے قلم کو بھلا کیسے روک سکتا تھا۔ انھوں نے فسادات کے موضوع پر ”میں کون ہوں“ اور ”میری موت“ جیسے افسانے لکھے۔  میں کون ہوں نام کے مجموعے میں کل گیارہ افسانے شامل ہیں۔ اور یہ تمام افسانے فسادات کے موضوع پر لکھے گئے ہیں۔ افسانہ  ”میری موت“ پہلے ”سردار جی“ کے نام سے شائع ہوا۔ لوگوں نے بیحد پسند کیا۔ لیکن یہی افسانہ جب ہندی (دیوناگری) میں چھپا تو ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ خواجہ احمد عباس  پر مقدمہ چلایا گیا۔ حالانکہ عباس صاحب کا مقصد کسی قوم یا فرقے کا مذاق اڑانا ہرگز نہیں تھا۔ تاہم انھوں نے اظہار افسوس کیا اور بعد میں یہ افسانہ  ”میری موت“ کے نام سے مجموعے میں شامل کیا گیا۔ 
ترقی پسند افسانہ نگاروں پہ یہ الزام عائد کیا جانے لگا کہ وہ محبت کی کہانیاں نہیں لکھتے۔ وہ اپنے افسانوں میں ہمیشہ بھوک، بیکاری اور بیماری کا رونا روتے ہیں۔ عباس صاحب نے اس الزام کا جواب دیا۔  ”کہتے ہیں جس کو عشق“  ”شکر الّللہ کا“  اور ”مسوری“ جیسے افسانے لکھ کر۔  یہ تینوں طویل افسانے انکے مجموعہ ’کہتے ہیں جس کو عشق‘ میں شامل ہیں۔ یہ تینوں طویل افسانے عشقیہ موضوع پہ ضرور ہیں مگر ان کا تعلق روایتی عشق سے نہیں ہے۔ عباس صاحب کا تعلق بمبئی کی فلمی دنیا سے بڑا گہرا تھا۔  اس لئے انکے کئی افسانوں میں بمبئی کی زندگی اپنی تمام تر رنگینیوں اور رعنایؤں کے ساتھ موجود ہے۔ ”پاؤں میں پھول“ ایسا ہی ایک خوبصورت افسانہ ہے جس میں فلمی دنیا کی زندگی کو اندر تک جھانک کر دیکھنے کی کوشش نظر آتی ہے۔ عباس صاحب کے افسانوں پہ مقصدیت حاوی ہے۔ کہیں کہیں افسانے کا فن مجروح ہوتا ہے۔ مگر انکو اس کی فکر نہیں ہے۔ وہ تو افسانے کے ذریعے اپنی فکر کو قارئین تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ کشمیر اور کشمیر کے حسن پہ اردو کے کئی افسانہ نگاروں نے افسانے لکھے ہیں۔ کرشن چندر نے تو کشمیر کے حسن کو بھرپور ڈھنگ سے اپنے افسانوں میں پیش کیا ہے۔ عباس صاحب کے افسانہ  ”زعفران کے پھول“ کا تعلق بھی کشمیر سے ہے۔ لیکن یہاں کشمیر کا حسن نہیں ہے بلکہ ڈوگرا حکمرانوں کے ظلم و تشدّد کے خلاف کشمیری عوام کی صدائے احتجاج کی کہانی ہے۔ اس افسانے کا مرکزی کردار ایک دیہاتی لڑکی زعفرانی ہے۔  زعفرانی شیخ محمد عبداللّٰلاہ کی تقریر سن کر متاثر ہوتی ہے اور ایک انقلابی بن کر سماج کو تبدیل کرنے کا خواب دیکھنے لگتی ہے۔ اس افسانے میں فن کی سطح پہ عباس صاحب نے تجربہ کیا ہے۔ اسی لئے بعض ناقدین  ’زعفران کے پھول‘ کو افسانہ کے بجائے رپورتاژ قرار دیتے ہیں۔  لیکن عباس صاحب ناقدین ادب کی تنقید سے گھبراتے نہیں تھے۔ انکا افسانوی مجموعہ ”نیلی ساڑی“  مکتبہ جامعہ سے ۳۸۹۱؁ء شائع ہوا۔                      
خواجہ احمد عباس میں دوسروں کی اچھی چیزوں کو اپنا لینے کا حوصلہ بھی تھا اور نت نئے اسلوب تلاش کرکے انھیں بے جھجھک سامنے لانے کی جرآت بھی۔ اجتماعی زندگی کے مسائل فرد کے ذہن اور دل و دماغ پر کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں اس کا مطالعہ عباس صاحب نے بڑی باریک بینی سے کیا ہے اور اپنے دائرہ عمل میں فرد کے فکری اور جذباتی رد عمل کو ایک خاص انداز میں اپنے افسانوں میں پیش کیا ہے۔ انھوں نے زندگی کا جو مشاہدہ کیا اس سے نئے نئے موضوعات سامنے آئے۔ ان نئے موضوعات کے اظہار کے لئے عباس صاحب نے نت نئے تجربات کئے۔ کچھ تجربے کامیاب ہوئے اور کچھ ناکام بھی ہوئے۔ تجربات کی کامیابی یا ناکامی کا ان پہ کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔ وہ بنے بنائے راستے پرچلنے کے بجائے اپنا راستہ خود بناتے تھے۔ موضوع کے لحاظ سے اسلوب اپناتے تھے۔  
ایسا ہی ایک تجربہ ہمیں انکے افسانہ ”مونتاژ“  میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ ”مونتاژ“ ہر لحاظ سے ایک منفرد افسانہ ہے۔ اس افسانے میں خواجہ احمد عباس نے فن مصوری کی تکنیک کو فلم سازی کے معرفت اختیار کیا ہے۔ بظاہر غیر متعلق، بے ربط، ان میل اور بے معنی مناظر میں ایک خاص ڈھنگ سے ربط پیدا کرنے کو فلمی تکنیک میں مونتاژ کہتے ہیں۔ عباس صاحب نے اس افسانے میں مختلف غیر متعلق واقعات اور خبروں کو سلسلہ وار لکھ کر افسانے کی شکل دی ہے۔ ان میں زیادہ تر اخباروں کی سرخیاں یا واقعات کا ذکر ہے۔ لیکن ساتھ ساتھ ایک کہانی ہے جو عدالت میں ایک عورت کے خلاف مقدمے کی شکل میں چل رہی ہے۔ پھر بیچ بیچ میں خبروں کی سرخیاں ہیں اور انھیں سے مماثل اس کہانی کے مرکزی کردار گنگا کی کہانی ہے۔ ان تمام واقعات کو یکجا کر کے ایک نئے تکنیکی تجربے کو افسانے میں پیش کیا گیا ہے۔ 
ترقی پسند تحریک کے زیر اثر کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، راجندر سنگھ بیدی، عصمت چغتائی، احمد ندیم قاسمی جیسے افسانہ نگار ہندستان کی جہالت، توہم پرستی، فرقہ واریت، عدم مساوات اور دوسری تمام سماجی برائیوں کے خلاف مختلف نوعیت کے افسانے لکھ رہے تھے۔ خواجہ احمد عباس کا ذہن شاید ان میں سب سے زیادہ انقلابی تھا اسی لئے اکثر مقام پر انھوں نے فن پر فکر کو ترجیح دیتے ہوئے اپنے نظریات کی ترسیل کے لئے افسانے لکھے۔ ایسا ہی ایک افسانہ  ”گیہوں اور گلاب“ بھی ہے۔ یہ قدرے طویل افسانہ ہے۔ افسانے کے عنوان سے ہی ہم چونک پڑتے ہیں کہ بظاہر ’گیہوں‘ اور ’گلاب‘ میں کوئی رشتہ نظر نہیں آتا۔ لیکن ان دونوں لفظوں کا استعمال عباس صاحب نے یوں ہی نہیں کیا ہے۔ یہ دو لفظ زندگی کے دو مختلف دھاروں کی علامت بن جاتے ہیں۔ گیہوں علامت ہے محنت، مشقت اور مادیت کا جبکہ گلاب عیش و عشرت اور جمالیات کی علامت کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ دونوں میں ایک کشمکش ہے۔ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ انسانی زندگی کے لئے گیہوں اور گلاب میں سے کس کا وجود زیادہ ضروری ہے۔ خواجہ احمد عباس کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے گیہوں کو گلاب پر یا گلاب کو گیہوں پر فوقیت دینے کے بجائے دونوں کے وجود اور دونوں کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے۔ ورنہ کارل مارکس کے نظریات پر ایمان رکھنے والے عباس سے یہ بھی ممکن تھا کہ وہ گلاب کی اہمیت کو یکثر نظر انداز کر دیتے۔ لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ گیہوں اور گلاب کے حامیوں کے درمیان کشمکش دکھاتے ہوئے اس حقیقت کو منکشف کرنا چاہتے ہیں کہ زندگی کے لئے دونوں کا وجود بے حد ضروری ہے۔ گیہوں پیٹ کی آگ بجھانے کے کام آتا ہے۔ بھوک مٹاکر ہمیں قوت و توانائی عطا کرتا ہے تو گلاب سے ہمیں ذہنی آسودگی ملتی ہے۔ گلاب ذہن کو تازگی اور فرحت عطا کرتا ہے۔ 
 
(مضمون نگار ڈاکٹر قدسیہ نصیر، اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی (اگنو) نئی دہلی میں کنسلٹنٹ (اردو) ہیں)                   
                       
 
                             
                  

Recommended