Urdu News

ادب ایک ایسا دروازہ ہے جس میں سیندھ لگا کر داخل نہیں ہوا جاسکتا: ڈاکٹر یعقوب یاور

ایم پی اردو اکادمی کے زیر اہتمام خطاب اور شعری نشست کا انعقاد

ایم پی اردو اکادمی کے زیر اہتمام خطاب اور شعری نشست کا انعقاد

مدھیہ پردیش اردو اکادمی، محکمہ ثقافت کے زیر اہتمام سلسلہ کے تحت "ہم سے پوچھو کہ غزل کیا ہے غزل کا فن کیا" موضوع پر خطاب اور شعری نشست کا انعقاد  2 جولائی 2022 کو شام  4  بجے سوراج بھون، پولیٹکنک چوراہا ،بھوپال میں کیا گیا۔

اردو اکادمی کی ڈائریکٹر ڈاکٹر نصرت مہدی پروگرام کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ اردو اکادمی نے سلسلہ کے تحت ریاست کے سبھی اضلاع میں شعری و ادبی نشستیں منعقد کرنے کا خاکہ تیار کیا ہے۔اس سلسلے کا پہلا پروگرام 2 جولائی کو بھوپال میں منعقد ہورہا ہے جس میں بھوپال کے ایسے شاعر اور ادیب اپنی تخلیقات پیش کر رہے ہیں جنھیں اکادمی کے پلیٹ فارم پر کم موقع ملا ہے. اس پروگرام میں ان شاعروں کی رہنمائی کے لیے شاعری کے حوالے سے خطاب بھی رکھا گیا ہے جس میں معروف ادیب، شاعر اور افسانہ نگار پروفیسر یعقوب یاور شاعری کی فنی خصوصیات پر گفتگو کریں گے۔

پروگرام کے مہمانان خصوصی ڈاکٹر یعقوب یاور نے اپنے خطاب میں نوجوان شعرا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ادب ایک ایسا دروازہ ہے جس میں سیندھ لگا کر داخل نہیں ہوا جا سکتا بلکہ اس کے لیے کڑی محنت و ریاضت درکار ہوتی ہے. انھوں نے شاعری کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فن شاعری تمام فنون لطیفہ میں سب سے مقبول ترین فن لطیف ہے اس کی یہ خصوصیت ہے لوگ اس کی جانب فوراً متوجہ ہوتے ہیں۔اس کی واضح مثال وہ نوجوان ہیں جو تیزی سے شاعری کی طرف مائل ہورہے ہیں۔انھوں نے شعر کے حوالے سے کہا کہ شعر مادہ ہے شعور کا جو اپنے آپ میں یہ کہہ رہا ہے کہ شعر ایک شعوری کوشش کا نام ہے۔ انھوں نے آگے کہا کہ میری رائے میں تخلیق کار کا ذہنی معیار ناقد کے ذہنی معیار سے ہمیشہ بلند ہوتا ہے اس لیے تخلیق کار کو ناقد کے سامنے اپنی تخلیق پر لکھوانے کے لیے کبھی جھکنا نہیں چاہیے۔ ڈاکٹر یعقوب یاور کے خطاب کے بعد شعری نشست کا انعقاد ہوا جس کی صدارت بھی انھوں نے ہی فرمائی۔

شعری نشست میں جن شعرا کے اپنا کلام پیش کیا ان کے اسمائے گرامی اور اشعار درج ذیل ہیں۔

میں اپنا سچ کہیں محفوظ رکھ پاتا ترے سچ سے

کہ میرا سچ تیرے سچ سے ہار جاتا ہے

(ڈاکٹر یعقوب یاور)

عمر بھر خود پہ ظلم کرتا رہا

بھائیوں میں نفاق کے ڈر سے

(تاج الدین تاج)

سوچتی ہوں کبھی ساحل کبھی دریا ہوجاؤں

یا ٹھہر جاؤں تو خاموش جزیرہ ہوجاؤں

(پروین صبا)

دی دید کی نعمت اندھوں کو مفلس کو عطا کی زرداری

سب پہ تمھاری نظر کرم ہم کو ہی مسیحا بھول گئے

(اشفاق ندیم)

کتنی اونچی ہیں دیواریں گھر کی مرے

دھوپ آنگن کے باہر کھڑی رہ گئی

(سلطانہ حجاب)

ہر ایک لمحہ یہی سوچتے گزرتا ہے

ہمارے بعد کی نسلوں کا جانے کیا ہوگا

(سلیم تنہا)

ستمگر ستم پہ ستم کررہے ہیں

ستم درگزر ان کے ہم کررہے ہیں

(اورینا ادا)

دیکھنا ساجد تیرا تقویٰ دھرا رہ جائے گا

ان کی زلفوں مو ذرا تا بہ کمر ہونے تو دے

(ساجد انصاری)

سجائے جس کی خاطر پھول میں نے

مری راہوں میں کانٹے بو رہا ہے

(شعیب علی خان)

مجھے عشق لے کر کہاں آگیا تو

یہ دنیا نئی ہے یہ انساں نئے ہیں

(مبارک شاہین)

میری خدمات کو وہ بھول گئے ہیں شاید

صرف اپنا انھیں احسان نظر آتا ہے

(نسیم بھوپالی)

وقت اپنی زبان کھولتا ہے

حقیقت کی زمیں پہ بولتا ہے

(اندر سنگھ ٹھاکر)

رشتوں کی تباہی کا ہے منظر مرے مولا

ہر ہاتھ میں ہے پیار کا خنجر مرے مولا

(ابھیشیک ورما)

زندگی ہم تیری گردش سے خفا ہیں پھر بھی

عمر بھر ساتھ نبھانے کی قسم دیتے ہیں

(چترانش کھرے)

غریب باپ نہ کرپایا ضد کبھی پوری

کھلونے والے کو بچے مچل کے دیکھتے ہیں

(سوریہ پرکاش اشٹھانا)

وہ میرے ہر سوال پہ پتھر بنا رہا

ناداں پہ پرسشوں کا اثر کچھ نہیں ہوا

(سنتوش کھروڑکر)

دل محبت بھرا مہا ساگر

ماں وہ ہم سب کی کتنی اعظم

(موتی ساگر موکھرے)

زمانے کو بدلنا چھوڑ کر اب

میں خود کو ہی بدلتی جا رہی ہوں

(نمرتا شریواستو)

غم اگر گھیر بھی لیں راہ وفا میں ہم کو

دل کا ہر زخم چھپائیں گے یہ وعدہ کرلیں

(اشفاق انصر)

ترا برسات میں ہم سے بچھڑنا

ہمیں رونے میں آسانی ہوئی ہے

(سدھیر شرما)

میں ایک گھائل پرندے کہ طرح دنیا میں ہوں پھر بھی

بھٹک کر در بہ در اپنے ٹھکانے ڈھونڈ لیتا ہوں

(شیوم دویدی)

شعری نشست کی نظامت کے فرائض شعیب علی خان انجام دیے

Recommended