Urdu News

معروف شاعر رضی احمد فیضیؔ: ذرا تفصیل سے

معروف شاعر رضی احمد فیضیؔ

(خاکہ نما)

ڈاکٹر افروز عالم (جدہ)

صدر: گلف اردو کونسل

     تحقیق اور تنقید کے شہسوار ممکن ہے کہ میری اس بات سے اتفاق نہ بھی کریں تاہم مجھے یہ کہہ لینے دیجئے کہ بہار کے شمال مغرب میں بسے ہوئے سیوان اور گوپال گنج، یہ دونوں اضلاع زبان کی بنیاد پر عظیم آباد سے ذرا سا مختلف ہیں۔

  تاریخی حوالے سے ان اضلاع کے بیشتر حصے ہتھوا راج کے زیر حکومت آتے تھے، لیکن اب یہاں کے لوگ زیادہ تر اپنی چھوٹی بڑی ضرورت کے لئے پڑوسی راجیہ یو پی کے شہر گورکھپور کاسہارا لیتے ہیں، اس لئے اس علاقے میں اردو کا مزاج نسبتا ً لکھنوی ہے۔ ان علاقوں سے چھوٹی بڑی کئی ندیوں کی روانی تو ہے ہی ساتھ ہی سرکاری نہریں اور قدرتی موسم کی وجہ سے ان علاقوں میں کھیت ہمیشہ لہلیاتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے خو شحالی دامن گیر ہے، ہاں کبھی کبھی گوپال گنج شہر کے شمالی علاقے کو سیلاب کا سامنا بھی کرنا پڑ جاتا ہے، خیر۔ صدیوں سے ملک کے بڑے شہروں میں اوراب خلیجی ممالک میں محنت مزدوری کر کے عالی شان گھروں میں رہنے والے اس علاقے کے سادہ مزاج لوگ اپنی تعلیمی لیاقت کے بنا پہ اس علاقے سے ہمیشہ سماج کو کچھ نہ کچھ عطا کیا ہے۔

 بھارت کے پہلے صدر جمہوریہ ڈاکٹر راجندر پرساد، اردو ادب کا مایا ناز شاعر علامہ جمیل مظہری، تعلیم اور سیاست کی بڑی ہستی مولانا مظہرالحق، عالمی شہرت رکھنے والا کتب خانہ خدا بخش خاں (پٹنہ) کے بانی خدا بخش خان، بہار کے وزیر اعلی رہے محترم عبدالغفور، محترم لالو پرساد،محترمہ رابڑی دیوی سمیت علم،فلم اور سیاست میں اپنا مقام بنا چکے شخصیات کی اگر فہرست مرتب کر دوں تو محترم عامر صبحانی (آئی اے ایس) تک پہنچنے میں ہی کئی صفحات کی ضرورت ہوگی، جب کہ ڈاکٹر ظفرؔ کمالی،جوہرؔ سیوانی، کوثرؔ سیوانی، قمرؔ سیوانی، فہیمؔ جوگاپوری، سنیل کمار تنگ،     ڈاکٹر مشتاق صدف ؔاور افتخار راغبؔ جیسی باکمال ادبی شخصیات کے معاملات بیان کرنے کے لئے کئی کتابیں در کار ہو ں گی، جب کہ پروفیسر منظور نعمانیؔ اور شرف الدین شرفؔ کی ادبی اور سماجی تگ و دو بھی کم قابل شمار نہیں ہے۔ انہیں طویل فہرت میں ادبی حوالوں سے ایک نام آج کل بہت ہی نمایاں نظر آرہا ہے، جس کی پہچان دنیائے ادب میں رضی احمد فیضیؔ  ؔکے طور پر ہو چکی ہے۔

شہر گوپال گنج کے جنوب میں ایک چھوٹا سا قصبہ ہے تھاوے، دیوی درگا کی وہاں ایک قدیم مندر ہے، جس کی بنیاد پر یہ قصبہ بہار کے نقشے پر اپنا نمایاں مقام رکھتا ہے، اس لئے تھاوے ریلوے جنکشن بھی علاقے کا ایک اہم ریل اسٹیشن ہے، اسی اسٹیشن کے مغرب میں مسلمانوں کی کئی بستیاں آباد ہیں، ان بستیوں میں بسنے والے لوگ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اپنی کھیتی باڑی کو ترجیح دیتے ہیں، انھی بستیوں میں ایک بستی ہے، اندرواں بیرم،وہیں 31 جنوری 1973 کو محترم علی احمد صاحب کے گھر بھائی فیضی ؔ پیدا ہو ئے۔ آپ کے والد مشرقی بنگال میں اپنے کاروبار سے وابستہ تھے، جب کہ والدہ محترمہ حسن آرا بیگم گاؤں کے ہی اسکول میں مدرس تھیں، اس لئے تعلیم کی ابتدا کے لئے یہی اسکول زیادہ مناسب سمجھا گیا،سو پاس کے ہی اسکول سے ابتدائی تعلیم کے بعد ایم ایم اردو ہائی اسکول، (گوپال گنج) میں داخلہ ہوا جہاں سے آپ نے میٹرک کیا۔

اس کے بعد ذکیہ آفاق اسلامیہ کالج(سیوان)   سے انٹر کا سند لیکر مظفر پور (بہار) کا رخ کیا اور بابا بھیم راؤ امبیدکر بہار یونیورسیٹی کے دو مختلف کالجوں سے بی اے اور ایم اے کی تعلیم پوری کی۔اس کے بعد اعلی تعلیم کے لئے آپ کو علی گڑھ مسلم یونیوریسٹی بھیجا گیا، تاکہ آپ خاندان اور علاقے کا نام روشن کریں لیکن آپ کو تو گوپال گنج میں ادب کے الاؤ پر بیٹھ کر لمحہ لمحہ اندھن ڈالنا تھا، تاکہ ادب اور سماج کا کوئی خاص نقطہ راکھ کے تہہ میں دب کے دم نہ تو ڑ دے۔ سو آپ نے تین سال تک علی گڑھ میں رہ کر ایم فل کی ۔

نامکمل تعلیم کی سند لئے بغیر اپنا واپسی کا رخت سفر باندھااور گاؤں آکر زندگی کے سیلابی مدو جزر سے جوجھنے لگے، وقت نے کروٹ بدلا تو ضلع کے ہی نیشل کالج (برو لی) میں جغرافیہ کے لکچرر مقرر ہوئے، جہاں وہ اپنی زندگی کو ہنوز برف کئے جا رہے ہیں۔ مسلم گھرانوں میں خاص کر خواتین میں جدید تعلیم کا جہاں بہت فقدان ہے، ایسے ماحول میں آپ کے والدین کی تربیت کے بدولت آپ کا پورا پریوار تعلم و تربیت کے پیشے سے وابسطہ ہے۔ یہ بہت خوشی کی بات ہے کہ آپ کی بیگم اور آپ کی بہنیں بھی ٹیچر ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ رب العالمین ان سب کو صحت مند رکھے (آمین)۔ اب آپ کے بچے بھی اعلی تعلیم کے لئے دہلی میں مصروف عمل ہیں۔

             لمبے قد کاٹھی،نفیس طبیعت، مسکراتا ہوا کلین شیو، گہنواں رنگ، قوت برداشت کے مالک، دوستوکے ساتھ ہمیشہ کھڑے رہنے والے،  بھائی رضی احمد فیضیؔ کے ماتھے کی وسعت اب بہت زیادہ ہو گئی ہے، ہالاکہ میں ان کو” چانکہ “کہنے کی گستاخی نہیں کرنا چاہتا کیوں کہ فی زمانہ اس کا معنی منفی ہو چکا ہے، حالا کہ سر کی طرف اچانک نظر جائے تو گمان ” چانکہ ” کا ہی ہوتا ہے۔ دراصل محبت کے خمیر سے وجود میں آنے والے پیکر کا شریست سیاست کی ارتھ شاسترا سے نہیں بلکہ ادب کے تھاپ سے مست ہوتا ہے، اس لئے آپ کے من مندر میں ہر وقت ایک بیراگی ہاتھوں میں ایک تارا لیکر گاتا رہتا ہے

تری   جانب  جو  جاتا   ہے

وہ   تیرا  ہی  ہو  جاتا    ہے

تو  دریا  ہے  میں  ایک  قطرہ

جو  پانی  میں  کھو  جاتا   ہے

کوئی  چاہے  کچھ  بھی کر لے

ہونے  والا   ہو   جاتا     ہے        (فیضیؔ)

بھائی فیضیؔ اپنے ہم عصروں میں کئی حوالوں سے ممتاز مقام رکھتے ہیں، علاقے  میں منعقد ہونے والے شعری محافل میں دام درمے سخن قدم شامل ہوتے ہیں، جس کی بنا پر آپ کی ادبی شناخت دور دراز تک پہنچ رہی ہے، اس مثبت رویے سے ایک طرف جہاں علاقے کے سینئر ادیبوں کادلار آپ کو حاصل ہے وہیں دنیائے ادب کے معتبر شخصیات بھی آپ کو پسند کرتی ہیں۔

 آپ غزل کے بہت ہی پختہ کار شاعر ہیں، نظم کی تعداد بھی آپ کے بیاض میں ٹھیک ٹھاک ہے، قصیدہ، نعت اور ملی نغمے بھی آپ نے خوب کہے ہیں۔ ہندوستان کے کئی مشاعروں میں راقم الحروف نے آپ کے ساتھ منچ ساجھا کیاہے جہاں آپ نے حسب ضرورت محفل میں ترنم کا رنگ گھول کر سامعین کے مزاج کو طرب خیز ہ کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔

 اس فن میں بھی آپ چاک و چوبندہیں۔ صد ہائے مسرت کے فیضیؔ بھائی اپنا شعری مجموعہ ترتیب دینے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ فیضیؔ بھائی کا قد طویل ہے اس لئے ان کے متعلق قصہ بھی طویل ہوگا، سو بہت ساری باتوں کو کسی اور خوش گوار موقعے کے لئے اٹھا رکھتے ہیں اور ان کی شاعری سے کچھ لطف لینے کی کوشش کرتے ہیں۔

محترم دوستو! کسی بھی فن پارے کے متعلق اپنی رائے دیتے ہوئے خاکسار نے کبھی یہ نہیں چاہا کہ اپنے قارئین کو ایسا کوئی راستہ بناکر دے تا کہ وہ فن پارے کو میرے نظریہ کے مطابق پڑھیں اور اس کی روح تک رسائی حاصل کریں جیسا کہ میں چاہتا ہوں،بلکہ ہمیشہ میری کوشش رہی ہے کہ میں اپنے قارئین کو اس نقطے تک پہنچا دوں جہاں سے وہ خود تخلیق سے اسرار اور رموز کے پردے کو ہٹائے اور تخلیق میں تہ در تہ معنی کی تلاش کرے۔

 میرے نزدیک قاری کو اتنی حریت ملنی جاہئے کہ وہ تخلیق کے بطن میں پہنچ کر چھپے ہوئے رنگین و سادہ، تلخ و شیریں، سخت و ملائم معاملات کا لطف لے سکے۔ تاہم کسی چوراہے پر لگے ہوئے اشارے کسی مسافر کو ان کے گھر تک تو نہیں پہنچاتے لیکن سفر کے کچھ مشکلات کو آسان ضرور کر دیتے ہیں۔ رضیؔ بھائی کی شاعری  اور شخصیت پر گفتگو کرتے ہوئے میں بھی یہاں وہی کرونگا تاکہ آپ تخلیق کا لطف لے سکیں اب یہ آپ پر منحصر ہوگا کہ اس تخلیق سے آپ کتنا لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ تو آئیے کچھ اشعار کی قرات سے پہلے ڈاکٹر مشتاق صدف صاحب کے مضمون سے ایک چھوٹا سا اقتباس پڑھ لیا جائے۔

’’فیضی کے لفظوں کا درو بست تغیراتی ہے۔ ان کی تخلیقیت اس قدر خوش رنگ ہے کہ سب کچھ سچ اور آسان دیکھائی دیتا ہے۔ ان کے کچھ مصرعے تو ایسے ہیں کہ جو کبھی بھلائےنہیں جا سکتے۔ بیشک دو مصروں سے شعر کی تکمیل ہوتی ہے لیکن ان کے کچھ مصرعے ایسے

ہیں جو تشکیل شعر کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتے ہیں۔ در اصل یہ مصرعے صرف مصرعے نہیں ہیں بلکہ یہ شعر میں معنی افرینی کو بہت پر اثر بنا دیتے ہیں۔ یہ مصرعے اپنے آپ میں مکمل دیکھائی دیتے ہیں۔‘‘

 اب آیئے کچھ اشعار کا لطف لیتے ہیں

کوئی رشتہ نہ یہاں آخری منزل کوئی

 زندگی یہ ہے کہ ہر وقت سفر میں رہئے

کبھی  ملو  تو  سناؤں  کا  حال زار   اپنا

ترے  بغیر  گزرتی  ہے  زندگی  کیسی

تعجب  کیا  ہے آپس میں یہ گھاتے ہوتی رہتی ہیں

         بڑے شہروں میں چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی رہتی ہیں

میری یک طرفہ محبت سے پریشان  نہ  ہو

اس میں ہر فائدہ  نقصان  مرا  ذاتی  ہے

محترم دوستو! کچھ یوں عرض کرنے کا جی کر رہا ہے کہ ہم جسے شعر کہتے ہیں وہ صرف الفاظ کا وہ مجموعہ نہیں ہوتا، جسے شاعری کے قواعد کا پیرہن عطا کر کے پیش کر دیا جائے۔ جب تک الفاط کی بنت میں دل کے جذبات شامل نہ ہو جائیں، تب تک اشعار میں جان محسوس نہیں ہوتی پھر جس میں جان نہیں وہ شاعری اپنے قاری کو اپنی طرف متوجہ کر نے میں ایک سر ناکام رہے گی، ایسی شاعری نہ تو خود زندہ رہ سکتی ہے نہ تو شاعر کو ہی کوئی فیض پہونچا سکتی ہے، تاہم اس مضمون میں محترم رضی احمد فیضی ؔ کے اشعار پیش کئے گئے ہیں جس میں جذبات کی سچائی کے ساتھ ساتھ شعر کی تمام تر خوبیاں موجود ہیں، آپ اپنی پسند کے مطابق ان اشعار کا لطف لے سکتے ہیں۔ یہ بھی عرض کرنا ضروری ہے کہ محترم رضی احمد فیضی ؔ کا وجود صرف ادب اور شاعری کے لئے ہے،کالج میں بے شک وہ جغرافیہ پڑھاتے ہیں، روز مرہ کی ضرورتوں کے لئے اپنی کھیتی باڑی بھی کرتے ہے، لیکن میں ان کو کل وقتی شاعر مانتا ہوں۔ آپ نے بے شما ر غزلیں کہی ہیں، خو ب صورت نظموں کو بنا ہے، محترم فہیم جوگا پوری جیسا کہنہ مشق استاد کی سرپرستی حاصل ہے، پھر ایسے اشعار کیوں کر نہ رقم ہو

مضمون دل فریب ہے لیکن میرے حضور

عنوان  باب  اور  ہے یہ باب اور ہے

اسے  بھلانے  کی کوشش تو میں کی لیکن

اسے  بھلانا  مجھے  عمر  بھر  نہیں  آیا

دامان  دریدہ  کو  کہاں لے کے چلے  ہو

اس  دور  ترقی  میں  رفو  گر  نہیں   ملتا

لب پہ مسکان سجاتے ہوئے تھک جاتا ہوں

میں  یہ کردار  نبھاتے ہویے تھک جاتا ہوں

  رضی احمد فیضیؔ کی شاعری میں ان گلشن کی فصاؤں کی مہک ہے جہاں مہوا کی میٹھاس ہے، یاسمین کی بہار ہے،نرم دلی کا احساس ہے۔ مزکورہ  اشعار کی بنت میں شعری صنعت کی جو حلاوت محسوس ہو رہی ہے وہ دراصل کلاسیکی غزل کا گہنہ ہے، واضع رہے کہ کسی بھی شہپر کی وہی پرواز کامیاب ہوگی، جس کی کشش اس کی مٹی کی طرف ہو۔ ہوا میں تیر چلانا نہ تو جدیدیت ہے نہ توما بعد جدیدیت۔ تخلیق کی جڑیں اگر اپنی زمین سے جڑی ہوئی ہوں تو، پھر” نیرنگ تمنا” کو معنی کی تلاش کرنے میں تاخیر نہیں ہو سکتی ہے، جیسا کہ میں نے عرض کیا تھا کہ خاکسار آپ کو شاعری کے شیریں چشمے پر پہونچا کر آپ کو کہے گا کہ آپ وقفہ لے لیں اور” نیرنگ تمنا” کی تلاش کریں پھر اپنی دعاؤں میں راقم الحروف کے ساتھ ساتھ صاحب کتاب کو بھی شامل کریں۔

میں اس کتاب کی اشاعت پر فیضیؔ بھائی کے والدین کے لئے بھی دعا گوں کہ اللہ ان پر اپنی رحمت جاری رکھے اور فیضی بھائی کے لئے دعا ہے کہ” اللہ کرے مرحلء شوق نہ ہو طے”

Recommended