مرزا غالب اپنے زمانے میں بھی سب سے نرالے، سب سے انوکھے اور سب سے مختلف تھے۔ کیا آپ جانتے ہیں آج بھی غالب سب پہ غالب ہیں۔ غالب کے بارے میں ہر با ذوق جاننا چاہتا ہے۔ آج بھی غالب کے پرستار دنیا کی مختلف زبانوں میں غالب کو پڑھتے ہیں۔ غالب کے بارے میں ہر چھوٹی بڑی بات جاننا چاہتے ہیں۔ غالب نے کئی اہم سفر کئے۔ کچھ کی تفصیلات یوں ہے۔
دہلی میں مستقل سکونت کے بعد مرزا غالب ؔدہلی سے باہر کلکتہ،رام پوراور میرٹھ جیسے شہروں کے سفرکیے۔ان میں سب سے لمبا سفر کلکتہ کا تھا۔ اس شہر کا سفر انہوں نے پنشن کی بحالی کی غرض سے کیا تھا۔اس سلسلے میں وہ تقریباً تین سال دہلی سے باہر رہے۔اس سفر کے دوران انہوں نے لکھنو،الہ آباد،بنارس،پٹنہ اور بعض دوسرے شہروں میں بھی قیام کیا۔در اصل غالبؔ کو فیروز پور جھرکہ سے جو پنشن ملتی تھی اسے احمد بخش خان کے بیٹے نواب شمس الدین احمد خان نے بند کر دیا۔ غالبؔ معاشی تنگی سے پریشان تھے اس لیے انہیں قانونی چارہ جوئی کے لیے کلکتہ کا سفر کرنا پڑا۔اس وقت ایسٹ انڈیا کمپنی کا دارالحکومت کلکتہ شہر ہی تھا۔
گورنر اسی شہر میں رہتا تھا۔اس کی انتظامیہ کونسل کے سامنے غالب ؔ نے اپنا مقدمہ پیش کیا۔منت و سماجت کی،سفارشیں کرائیں،وظیفے کی بحالی کے لیے بڑی مشکلیں جھیلیں پھر بھی وہ کلکتہ سے خالی ہاتھ ہی لوٹے۔
مرزا غالب ؔکلکتہ اپنی پنشن سے متعلق مقدمے کے سلسلے میں گیے تھے۔ جسے وہ بحال کرانے میں ناکام رہے. لیکن اس سفر سے مرزا غالب ؔ کو بہت فائدے ہوئے۔شہر کلکتہ غالب ؔ کو خوب پسند آیا۔وہ اپنے خطوط اور نظموں میں یہاں کی آب وہوا اور آموں کی خوب تعریف کی ہیں۔ وہ وہاں کے ادبی مشاعروں میں بھی شریک ہوتے رہے۔ اس شہر میں ان کے کئی اچھے دوست بھی ہو گیے تھے جن سے تا حیات دوستانہ رہا۔کلکتہ میں غالب ؔ کو ایک علمی معرکہ کا بھی سامنا کرنا پڑا جس کا ذکر انہوں ”باد مخالف“نامی مثنوی میں کیا ہے۔ اسی سفر کے دوران مرزا غالبؔ نے لکھنو میں چند ماہ قیام کیا۔لکھنو کے اہل علم نے ان کی خوب آو بھگت کی. لیکن بادشاہ غازی الدین حیدر اور اس کے نائب آغا میر کے دربار میں رسائی نہ ہوسکی۔
لکھنو سے کانپور اور الہ آباد کے راستے بنارس پہنچے۔شہربنارس مرزا غالبؔ کو بہت پسند آیا اور اس شہر کی تعریف میں فارسی زبان میں ایک مثنوی بعنوان”چراغ دیر“ تحریر کیا۔مرزا غالب رام پور دو بار گیے۔پہلی مرتبہ 1860ء میں رام پور کا سفر کیا۔نواب یوسف خان غالب ؔ کے علمی پرستا اور محسن تھے۔غالب ؔکی تنگ دستی کے زمانے میں انہوں نے بطور وظیفہ سو روپیے ماہ وار مقرر کر دیا۔نواب یوسف مرزا غالبؔکے شاگرد
بھی تھے۔
رام پور کے اہل علم میں غالب ؔکی بڑی قدر و منزلت تھی۔ان کی صحبت سے اہل رام پور مستفیض ہوئے۔ کا دوسرا سفر غالب نے 1865ء میں کیا تھا جب نواب یوسف علی خان کا انتقال ہوا تھا۔ان کے جاں نشیں نواب کلب علی خاں نے بھی غالب کو ؔ خوب عزت دی اور ان کی خاطر مدارات کی۔انہوں نے بھی غالبؔ کا وظیفہ جاری رکھا۔1859ء میں غالبؔ نے میرٹھ کا سفر کیا۔اس وقت میرٹھ شہر میں ہی غالب ؔکے دوست نواب مصطفی خان شیفتہؔرہتے تھے۔ ان سے غالبؔ نے ملاقات کی۔شیفتہؔ اس زمانے کے بڑے بلند مرتبہ لوگوں میں تھے۔ان کے نام غالب ؔکے خطوط سے پتہ چلتا ہے کہ شیفتہ ؔ سے ان کا والہانہ لگاو تھا۔شیفتہ اور غالب دونوں ایک دوسرے کے بڑے قدر دان تھے۔
(ڈاکٹر شفیع ایوب)
رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…
مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…
جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…
شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…
زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…
سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…