Urdu News

بھگوت گیتا کا اردو میں منظوم ترجمہ کرنے والے مشہور و معروف شاعر منشی_بشیشور_پرشاد منورؔ لکھنوی صاحب“ کی برسی.

نام منشی_بشیشور_پرشاد اور تخلص منورؔ

 24؍مئی

بھگوت گیتا کا اردو میں منظوم ترجمہ کرنے والے مشہور و معروف شاعر ”#منورؔ_لکھنوی صاحب“ کی برسی…..
نام #منشی_بشیشور_پرشاد اور تخلص #منورؔ کرتے تھے۔ ان کی پیدائش لکھنو میں 08؍جولائی 1897ء کو ہوئی۔ ان کے والد منشی دوارکا پرشاد افق کا شمار لکھنؤ کے معززین میں کیا جاتا تھا ۔ وہ بھی شاعری کرتے تھے۔ منورؔ لکھنوی عمر بھر محکمہ ریلوے سے وابستہ رہے اور مختلف مقامات پر تبادلہ ہوتا رہا۔ منورؔ لکھنوی شاعر تو تھے ہی ، شاعری انہیں ورثے میں ملی تھی لیکن اس کے ساتھ ان کی پہچان کا ایک بڑا حوالہ ہندی اور سنسکرت زبان سے کئے گئے ان کے تراجم ہیں۔ منورؔ لکھنوی کو اردو ، فارسی ، ہندی اور سنسکرت زبان پر عبور حاصل تھا۔ 1927ء میں وہ دلی آگئے اور پھر یہیں سے ملازمت سے سبکدوش ہوئے ۔
منورؔ لکھنوی کی شاعری اپنے موضوعات اور زبان کے لحاظ سے اپنے معاصر شعری منظرنامے میں بہت الگ نظر آتی ہے۔ اس کی وجہ ان کے تخلیقی عمل کی تہہ میں موجود فارسی ، ہندی اور سنسکرت زبان کی علمی روایت ہے۔ منورؔ لکھنوی کے کئی شعری مجموعے چھپے۔ ان کے تراجم کی تعداد بھی خاصی ہے۔ انہوں نے رامائن ، بھگوت گیتا اور دوسرے بہت سے مذہبی و غیر مذہبی متون کا منظوم ومنثور ترجمہ کیا۔
منورؔ لکھنوی 24؍مئی 1970ء دہلی میں انتقال کر گئے۔
 
معروف شاعر منورؔ لکھنوی صاحب کے یومِ وفات پر منتخب کلام بطور خراجِ عقیدت…..

 
سکوں مل گیا ہے قرار آ گیا ہے
کسی پر ہمیں اعتبار آ گیا ہے
قفس میں بھی کیسی بہار آ گئی ہے
قفس میں جو ذکر بہار آ گیا ہے
ان آنکھوں کو دیکھا ہے مخمور جب سے
ان آنکھوں میں بھی کچھ خمار آ گیا ہے
ملا ہے دم صبح شبنم نے غازہ
یہ کیوں روئے گل پر نکھار آ گیا ہے
منورؔ کو دیکھا تو کچھ لوگ سمجھے
سر بزم اک بادہ خوار آ گیا ہے
 
بڑے عجیب مناظر نظر سے گزرے ہیں
جب اہل ہوش تری رہ گزر سے گزرے ہیں
مسافران رہ زیست کا شمار کہاں
نہ جانے قافلے کتنے ادھر سے گزرے ہیں
تری تلاش میں دنیا کو چھان ڈالا ہے
تری تلاش میں ہر رہ گزر سے گزرے ہیں
میں جانتا ہوں وہی دل کو دل بنا دیں گے
مصیبتوں کے جو طوفان سر سے گزرے ہیں
یہ کہہ رہے تھے فرشتوں سے میکدے والے
ابھی جناب منورؔ ادھر سے گزرے ہیں
 
ہے کچھ اگر سلیقہ ہے کچھ اگر قرینا
مرنے کی طرح مرنا جینے کی طرح جینا
کرتا ہوں پار دریا طوفان کی مدد سے
میری نگاہ میں ہے ہر موج اک سفینا
اس میں بھی روشنی ہے اس میں بھی روشنی تھی
میرا بھی ہے وہ سینہ موسیٰ کا تھا جو سینہ
جس سمت سر جھکاؤں گلشن عرق عرق ہو
مہکے مری جبیں سے ہر پھول کا پسینا
پرہیز کس لیے پھر جب رائے ہے یہ سب کی
جائز ہے اے منورؔ تم کو شراب پینا
 

پیشکش : شمیم ریاض


 

Recommended