پریم ناتھ بسملؔ
مرادپور، بہار
حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدحت، تعریف اور ان کے اوصاف و خصوصیات کو شاعری میں بیان کرنے کو نعت گوئی کہتے ہیں۔ صنفِ نعت ایک نازک ترین فن ہے اس کے باوجود اردو زبان میں نعت کا دامن بہت وسیع ہے۔
اردو شاعری کی دنیا میں اس وقت بہت زیادہ موضوعِ تذکرہ رہنے والا نام ” ذکی طارق بارہ بنکوی “۔ جس نے اپنی شاعری کے ذریعے بہت کچھ کہا ہے اور مسلسل کہے جا رہے ہیں۔ان کا دل بے حد کشادہ ہے.انہوں نے جہاں اپنے گرد و نواح کی مختلف زبانوں کے الفاظ کو اپناتے ہوئے اپنے آپ کو عام فہم بناتے ہوئے خود کو دوسری زبانوں کے مختلف الفاظ سے مالا مال کیا ہے وہیں دوسری زبانوں کے ادب میں رائج مختلف اصنافِ سخن کو اپناتے ہوئے ان پر خوب طبع آزمائی کی ان کی شاعری میں آمد کی جھلک صاف صاف دکھائی دیتی ہے۔ ان کی نظموں اور غزلوں میں انسانی زندگی اور سماج کے مسائل پر کافی سنجیدہ بحث ملتی ہے۔ وہ ان مسائل کو حل کرنے اور اور سماج میں پھیلی ہوٸی ان گنت برائیوں کو اپنی شاعری کے ذریعے دور کرنے کی جگہ جگہ کوشش کرتے ہیں۔یہ بےحد ذہین ہیں ویسے تو جناب ذکی طارق غزل اور نظم کے شاعر ہیں لیکن نعت گوئی میں بھی ان کو مہارت حاصل ہے۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ شاعری کی ایسی کوئی بھی صنف نہیں جس پر انہوں نے طبع آزمائی نہ کی ہو ان کی تخلیق کی ہوٸی حمد ، نعت ، منقبت ، قوالی ، گیت اور غزل وغیرہ ہمیشہ ہی اخباروں اور رسائل میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ لیکن یہاں پر ہم صرف ان کی نعت گوئی کے متعلق بات کریں گے۔
نعت گوئی ہر کس و ناکس کے لئے ممکن نہیں ہے۔ اس میں بہت ہی احتیاط اور ادب و احترام کے ساتھ قلم اٹھانی ہوتی ہے۔ اگر ذہن میں تھوڑا سا بھی بھٹکاؤ ہوا تو پھر نتیجہ بالکل ہی خطرناک رخ اختیار کر سکتا ہے۔ مگر ذکی طارق صاحب کو نعت گوئی میں ایسی مہارت حاصل ہے کہ وہ ان سب چیزوں سے بالکل ہی خوف نہیں کھاتے اور ذکر مصطفی کا حق ادا کرتے ہوئے کہتے ہیں:
ہو جس سے نبی کی شفاعت عطا
ہے بے شک ”ذکی“ وہ خطا محترم
آیئے پڑھ لیں درودِ پاک برکت کے لئے
اپنے ایمان و یقین کی زیب و زینت کے لئے
جب مرے سرکار ہیں میری شفاعت کے لئے
پھر مجھے فکرو تردّد کیوں ہو جنت کے لئے
بے شک! یہ نبی کا ہی کرم ہے کہ ذکی طارق اتنی بے فکری کے ساتھ نعت گوئی کرتے ہوئے چلے جاتے ہیں اور راہِ مصطفی میں اپنا فرض ادا کرتے ہیں:
کرم آمیز دل آویز کیف انگیز کتنا ہے
مرے آقا کا اسمِ پاک راحت خیز کتنا ہے
کسی سے عُقدہء ماَ اَقرَ و، حل ہو نہیں پایا
کہ اُس اُمّی کا اک اک لفظ معنیٰ خیز کتنا ہے
خوشاہر ہر قدم پر نور کے دریا امڈتے ہیں
زمین طیبہ ہر ذرہ ترا ذرخیز کتنا ہے
مشکل ترکیبوں صنعت لفظی اور عبارت آرائی سے پرہیز کرتے ہوٸے وہ اپنی نعتیہ شاعری میں بالکل ہی عام فہم سادہ اور سلیس زبان کا استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے مشکل سے مشکل مضمون بھی سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے:
ہر کام میں سنت ہو جینا ہو تو ایسا ہو
ہو صلی علٰی لب پر مرنا ہو تو ایسا ہو
کونین ہو شاہی میں رتبہ ہو تو ایسا ہو
اور فاقے پہ ہو فاقہ تقو یٰ ہو تو ایساہو
سر کا رِ مدینہ کے کر د ا ر کا کیا کہنا
قا ٸد ہو تو ا یسا ہو آ قا ہو تو ایسا ہو
سنتے ہی خبر اپنے دانتوں کو اکھاڑا ہے
جو عشقِ محمد کا سودا ہو تو ایسا ہو
ذکی صاحب کو نعت گوئی سے وہی نسبت ہے جو زندگی کو سانس سے۔ موجودہ دور کے نعت گو شعرا میں ان کا نام خاص اہمیت رکھتا ہے۔ذکی صاحب کی نعتیہ شاعری سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے بے پناہ اور والہانہ عشق اور سچّی محبت کا آئینہ ہے۔ وہ اس کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں:
ٹوٹ کر شیشہء نازک سا بکھر جاٶں گا
آپ جو روٹھے نبی پھر کہاں جی پاٶں گا
ذکی صاحب کی قادرالکلامی سے ان کی سچّی روحانی پاکیزگی اور والہانہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اظہار ہوتاہے ۔ ان کی نعتوں میں کافی احتیاط اور وارفتگی جگہ جگہ دیکھی جا سکتی ہے:
مقصد مری حیات کا عشقِ رسول ہے
عشقِ رسول ہی سے ملے گا خدا مجھے
جو عشقِ نبی کی تڑپ میں ملے
وہ غم محترم وہ قضا محترم
بہر وقت ہے گفتگوئے مدینہ
خوشازندہ باد آرزوئے مدینہ
دیدی اپنے نام کی نسبت ہمارے نام کو
کس قدر مضبوط ہے رشتہ ہمارا آپ کا
عشقِ نبی کا یوں بھی کرشمہ دکھائی دے
ہر شئے میں مجھ کو عکسِ مدینہ دکھائی دے
انھیں کا نام مرے واسطے وظیفہ ہے
ہمیشہ لب پہ رہے جو وہ تذکرہ ہیں نبی
برائے دیدِ مدینہ خود کو بہت سجاتی ہیں میری آنکھیں
بہ اہتمام آنسوؤں سے اکثر وضو بناتی ہیں میری آنکھیں
ذکی طارق دور جدید کے منفرد شاعر ہیں ۔ان کی نعت گوئی کا امتیازی وصف ان کی سادگی ہے۔ وہ سہل الممتنع شاعر نظر آتے ہیں۔ انہوں نے روز مرہ کے محاورے اور تشبیہات و استعارات کے انتخاب میں اپنے ذوق شعری کا مکمل ثبوت پیش کیا ہے۔ وہ ہر موضوع پر بڑی خوبصورتی سے اشعار پیش کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ اکثر و بیشتر ان کی شاعری تہذیب و تمدن اور سماج کے رسم ورواج سے بھی واقفیت کراتی ہے۔ وہ اپنے گرد وپیش اپنے ماحول و تجربات و مشاہدات سے جو مواد اخذ کرتے ہیں انہیں ہو بہو اپنی شاعری میں ڈھالنے کی کوشش کرتے بےشک نعت گو کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ نعت رسولؐ لکھتے ہوئے کبی بھی ان کے قلم میں لغزش نہیں آئے جناب ذکی طارق اس کمال میں پوری طرح کھرے اترتے ہیں ۔ ساتھ ہی اپنی نعتیہ شاعری کے ذریعے یہ پیغام دینے کی کو شش بھی کرتے ہیں کہ مسلمانوں کی موجودہ پستی کا بنیادی سبب یہ ہے کہ انہوں نے رسول ﷺ کے بتائے ہوٸے راستوں سے انحراف کیا اور نبی کی سنتوں کو ترک کیا ہے۔حضرت محمد ﷺ کو اپنی امت سے جو محبت تھی اس کا بہترین اظہار ان کی شاعری میں دیکھنے کو ملتا ہے:
ترک کرے سنت کو ہم نے اتنا جانا ہے
اپنی زندگی کی ہی مشکلیں بڑھانا ہے
نبی اکرم کے رحمتہ اللعالمیں اور شافع محشر ہونے کے یقین کو دیکھئےکس آسانی اور سلیقے کے ساتھ اپنی نعت کے ایک شعر میں نظم کیا ہے:
یہ ہیں گناہ یہ ہے رحمتِ نبی پہ یقیں
لے مولا ساری حیات آج روبرو کردی
حشر کی دھوپ بدن چھیل رہی ہے میرا
آج کملی میں مجھے اپنی چھپا لو آقا
نعت پاک کے مطلع میں ایک اور شعر میں کہتے ہیں کہ:
نبی نے ختم زمانوں کی جستجو کر دی
کہ لب ہلاتے ہی تکمیل جستجو کردی
نہ پوچھو کہ حشر میں کتنا ذلیل ہوتا میں
وہ کہئے آقا نے محفوظ آبروکردی
جیسا تھا صحابہ کو جیسا کہ تھا خلفا کو
سرکاردوعالم سے رشتہ ہوتو ایساہو
ان کی نعتوں میں خلوص ، صداقت اورجذبات و احساسات کی شدت ہے۔ انہوں نے اپنی نعت گوئی کے ذریعے محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف کو نہایت فطری انداز میں عمدگی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ نئے دور کے ہر فن مولا شاعر جناب ذکی طارق صاحب شعری کائنات میں چمکتے ہوئے تارے کی حیثیت رکھتے ہیں۔