ایڈوکیٹ ناصر عزیز امروہوی یا دہلوی؟
ڈاکٹر شفیع ایوب، نئی دہلی
ایڈوکیٹ ناصر عزیز گزشتہ چالیس برس سے دہلی میں مقیم ہیں حالانکہ وہ اب بھی چالیس برس کے ہی لگتے ہیں۔ ان کو جاننے والے جانتے ہیں کہ انھوں نے کبھی چوری نہیں کی ہے، دھن دولت تو بھلا کیا چراتے حد یہ ہے کہ چار دہائیوں سے شاعری کر رہے ہیں اور علمی چوری (سرقہ) بھی نہیں کرتے۔ لیکن دل چرانے کے معاملے میں خاصے مشاق ہیں۔اور”پرفیکٹ عمر چور“ تو ہیں ہی۔ناصر عزیز کا شمار میں ان لوگوں میں کرتا ہوں جو فوراً اپنا تاثر قائم کرنے کے بجائے ذرا دیر سے اپنا تاثر قائم کرتے ہیں اور دیر تک وہ تاثر قائم رہتا ہے۔ ایسا بہت کم ہوتا ہوگا کہ کوئی شخص ناصر عزیز سے ملے اور ملتے ہی ان پہ فریفتہ ہو جائے۔ ہاں جو دو چار مرتبہ ملے وہ ان کا گرویدہ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ہے۔ وہ دھیرے دھیرے دل میں اترتے ہیں۔ ناصر عزیز اپنی معصومیت، مروت، علم دوستی، سخن فہمی، سخاوت، حاضر جوابی، مہمان نوازی اور یار باشی سے متاثر کرتے ہیں۔
ناصر عزیز کا حلقہ وسیع ہے۔ وہ ہر طرح کے لوگوں کو برداشت کر لیتے ہیں۔ہاضمہ اور قوت برداشت کے معاملے میں ان کا ثانی نہیں۔ سب سے خندہ پیشانی سے ملتے ہیں اور ستم یہ کہ پیشانی پہ بل نہیں پڑتا۔مسکرانا ان کی عادت ہے جسے بعض خوش فہم لوگ ان کی شرافت سمجھ بیٹھتے ہیں۔ بعض خواتین تو ناصر عزیز کی شرافت کی قسمیں کھانے کو تیار تھیں لیکن ایڈوکیٹ خلیل الرحمن کی بروقت مداخلت نے انھیں ایسا کرنے سے روک دیا۔ناصرعزیز کے سب سے قریبی دوستوں میں سلطان چودھری اور ایڈوکیٹ خلیل الرحمن کا نام لیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے عہد کے ممتاز ترین شاعر نعمان شوق، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے استاد پروفیسر انور پاشا، پروفیسر خواجہ محمد اکرام، پروفیسر اخلاق آہن وغیرہ سے بھائی ناصر عزیز کے دیرینہ تعلقات ہیں۔ دشمنی کسی سے نہیں، دوستی سب سے کر لیتے ہیں، لیکن اچھے لوگوں کو دل کے قریب رکھتے ہیں۔ ناصر صاحب اچھے خاصے مردم شناس ہیں۔ پھر بھی کئی ناقابل برداشت لوگوں کو برسوں بلکہ دہائیوں سے برداشت کر رہے ہیں۔ ایک فراڈ قسم کانام نہاد شاعرکسی طرح ناصر عزیز کے رابطے میں آگیا۔ ناصر عزیز سے اسے جو فائدہ اٹھانا تھا اٹھا لیا۔ ایک روز میں نے آگاہ کیا کہ یہ آدمی اچھا نہیں ہے۔ فراڈ ہے، جھوٹا اور مکار ہے۔ بڑی معصومیت سے بولے مجھے معلوم ہے۔
ناصر عزیز کھانے اور کھلانے کے شوقین ہیں۔ اچھا کھانا خود بھی مزے لے لے کر کھاتے ہیں اور یار دوستوں کو بھی کھلاتے ہیں۔ پینے کے نام پر بس چائے کافی تک خود کو محدود کر رکھا ہے۔ ناصر عزیز کو چائے بہت پسند ہے۔ طرح طرح کی چائے، بھانت بھانت کی چائے۔ دنیا بھر سے چائے۔ چائے پینے اور چائے پلانے کے لئے ناصر عزیز بھرپور اہتمام کرتے ہیں۔ دارجلنگ چائے، اور آسام کے باغات سے منگوائی گئی تازہ چائے کی تو بات ہی چھوڑ دیں، جناب اچھی اور ذرا مختلف چائے کی تلاش میں دبئی، ایران، ترکی، چین، وغیرہ کی یاترا بھی کر چکے ہیں۔ اچھی چائے اچھے خوبصورت کپ میں ہی پی جائے اس کا بھی خیال رکھتے ہیں۔ دم کی ہوئی چائے پہلی پسند ہے۔ لیکن ہر بل ٹی، مسالہ چائے، ادرک والی چائے، گرین چائے، نیبو کی چائے، کالی چائے، دودھ والی چائے سب پی لیتے ہیں۔ کسی نے بتا دیا کہ بنگلور سے ڈھائی سو کیلو میٹر دور کورنگ میں کافی کی کاشت ہوتی ہے۔ وہاں تازہ اور خوشبودار کافی کی کئی قسمیں ملتی ہیں، کافی کے پلانٹس ہیں تو ناصر عزیز دہلی میں تمام ضروری کام چھوڑ کر ایک ہفتہ کے لئے اپنے عزیز ترین دوست سلطان چودھری کے ساتھ بنگلور ہوتے ہوئے کورنگ پہنچ گئے۔ ایسی دیوانگی اس زمانے میں کمیاب تو ہے۔ اسی لئے میں کہا کرتا ہوں کہ ہمارے دوست بھائی ناصر عزیز ذرا مختلف قسم کے آدمی ہیں۔
ناصر عزیز حسن پرست ہیں، وہ حسن تاج محل میں ہو یا ممتاز محل میں۔ وہ تاج اور ممتاز دونوں کو نگاہوں میں بسا کر رکھتے ہیں۔صوم و صلوٰۃ کے پابند ہیں۔ حسن کا دیدار با وضو کرتے ہیں۔ سر راہ حسن نظر آ جائے تو جی بھر کے دیکھتے ہیں اور اپنے رب کا شکر ادا کرتے ہیں۔ اللہ کی ہر نعمت پہ اپنا حق سمجھتے ہیں۔بس اتنا سمجھ لیں کہ امید حور نے سب کچھ سکھا رکھا ہے واعظ کو۔ یہ حضرت دیکھنے میں سیدھے سادے بھولے بھالے ہیں۔ناصر عزیز دہلی کی ایک خوبصورت اور قدرے پوش سوسائٹی میں رہتے ہیں۔ گھر کو قرینے سے سجایا ہے۔ گھر کو سجانے میں ان کی نیک دل اور دینی مزاج کی حامل بیگم کا بڑا یوگ دان ہے۔ کل ملا کر ناصر عزیز جس سوسائٹی میں رہتے ہیں وہ خوبصورت، گھر خوبصورت، گھر کے قریب کی مسجد خوبصورت، لباس خوبصورت، کار خوبصورت، بس تمام طرح کی خوبصورتی کو اپنے دامن میں سجائے ناصر عزیز نہ جانے کس کس کے لئے باعث رشک بنے پھرتے ہیں۔
میں شفیع ایوب خود کو ناصر عزیز کا دوست سمجھتا ہوں اور اس پہ نازاں ہوں۔ ناصر عزیز کیا سمجھتے ہیں وہ جانیں۔ اب دوست سمجھتا ہوں تو ایک راز سے پردہ اٹھاتا ہوں۔ یہ نوجوان ناصر عزیز ماشاء اللہ نانا اور دادا بن چکے ہیں۔ اسی لئے میں ناصر عزیز کی زندگی کو قابل رشک زندگی کہتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ انھیں نظر بد سے بچائے۔ بچپن اور نوجوانی کی محرومیوں کو بعد میں پرور دگار عالم نے نعمتوں سے بدل دیا۔ اس میں خدا وند کریم کی عنایات اور ناصر عزیز کی محنت و سوجھ بوجھ دونوں کا دخل ہے۔ ناصر عزیز بہت کم عمری میں والد کی محبتوں سے محروم ہو گئے تھے اور جب نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو ماں بھی مالک حقیقی سے جا ملیں۔ ناصر عزیز کی زندگی پہ غور کرتا ہوں تو علامہ اقبال کا وہ مشہور شعر یاد آتا ہے کہ ”مری مشاطگی کی کیا ضرورت حسن معنی کو، کہ فطرت خود بہ خود کرتی ہے لالے کی حنا بندی۔ سچ ہے کہ فطرت نے ہی اس لالے کی حنا بندی کی۔ ناصر عزیز کی پروفیشنل اور پرسنل لائف قابل رشک ہے۔ گھر میں ایک نیک دل، معاملہ فہم اور دین کی اچھی سچی سمجھ رکھنے والی خاتون شریک سفر اور شریک حیات ہیں۔ اللہ نے انھیں ایک بیٹا اور ایک بیٹی کی دولت سے نوازا۔ بیٹا اور بیٹی دونوں کو اعلیٰ تعلیم دی، اب ماشاء اللہ دونوں صاحب اولاد ہیں۔ ایسا لگتا ہے ناصر عزیز خاموشی سے منور رانا کا یہ شعر پڑھ رہے ہیں۔ ”جب بھی کشتی مری سیلاب میں آ جاتی ہے۔ ماں دعا کرتی ہوئی خواب میں آ جاتی ہے“۔
امروہہ مصحفی کا شہر ہے۔ مصحفی بھی امروہہ سے نکلے اور ناصر عزیز بھی۔ لیکن قول مشہور ہے کہ امروہہ والے امروہہ کے اندر سے نکل جاتے ہیں لیکن ان کے اندر سے امروہہ نہیں نکلتا۔ ان کے اور ہمارے مشترکہ دوست ایڈوکیٹ خلیل الرحمن ایک روز فرمانے لگے (وہ فرمانے کے ہی انداز میں عرض بھی کرتے ہیں) کہ ناصر تم مصحفی پہ کام کرو۔ مصحفی بہت بڑا شاعر ہے اور اسے خاصہ نظر انداز کیا گیا ہے۔ بس ایڈوکیٹ خلیل الرحمن کے فرمانے کے فوراً بعد ناصر عزیز نکل گئے امروہہ کے لئے۔ امروہہ میں یار دوستوں سے ملے۔ والد کی طرح شفقت کرنے والے اپنے خسر محترم سے ملے، دعوتیں کھا کر واپس لوٹے اور طے کیا کہ اب ایک مشن کے طور پر مصحفی پر کام کیا جائے گا۔ تب سے مشن موڈ میں ہیں، تقریباً ہر ہفتے امروہہ جاتے ہیں، دعوتیں ہوتی ہیں، ملنا ملانا ہوتا ہے، درمیان میں کبھی کبھی مصحفی کا نام بھی لیتے ہیں کہ امروہہ آئے تو اسی غرض سے ہیں۔
ناصر عزیز پیشے سے وکیل ہیں اور مزاج سے شاعر ہیں۔ شبلی نعمانی، فانی بدایونی سے لے کر اظہر عنایتی تک ان ناکام وکیلوں کی ایک طویل فہرست ہے جنھوں نے شعرو ادب کی دنیا میں اعلیٰ مقام حاصل کیا لیکن ناکام وکیل رہے۔ علامہ اقبال کا معاملہ الگ ہے وہ اپنے زمانے میں ایک کامیاب وکیل بھی تھے۔ ناصر عزیز اس معاملے میں علامہ اقبال کی ٹیم میں نظر آتے ہیں۔ یعنی ایک کامیاب وکیل اور بہت عمدہ شاعر۔ آدمی تو خیر ہیں ہی بہت عمدہ۔ ناصر صاحب اپنے وکالت کے پیشے کے حوالے سے بہت سنجیدہ۔ دہلی میں ایک شاندار آفس ہے۔ کئی جونیئر وکیل آپ کے انڈر میں کام کرتے ہیں۔ وقت سے دفتر جاتے ہیں۔ اہم معاملات میں خود عدالت میں حاضر رہتے ہیں۔ اپنی حاضر جوابی سے اکثر جج حضرات کو لاجواب بھی کرتے ہیں۔ ہماری طرح جج صاحبان کو بھی لگتا ہوگا کہ یہ معصوم آدمی ہے۔ ناصر عزیز اپنے دفتر میں کام کرنے والے جونیئر وکلاء اور دیگر اسٹاف سے کام بھرپور لیتے ہیں لیکن رویہ نرم رکھتے ہیں۔ راقم السطور نے خود دیکھا ہے کہ اسٹاف کے لوگ ناصر صاحب کی نرم گفتاری، مروت اور ہمدردانہ رویہ سے بہت خوش رہتے ہیں اور جی لگا کر کام بھی کرتے ہیں۔ یہ بات سچ ہے کہ ناصر عزیز کا شمار دہلی کے کامیاب وکیلوں میں ہوتا ہے۔
وکالت کے پیشے کو لے کر ناصر عزیز جس قدر سنجیدہ ہیں اسی قدر اپنی شاعری کو لے کر بے نیاز ہیں۔ حالانکہ اچھے خاصے زود گو شاعر ہیں۔ غزلیں، نظمیں تو کہتے ہی ہیں۔ برسوں اخبارات کے لئے سیاسی و سماجی موضوعات پر روزانہ قطعہ لکھتے رہے۔دوست احباب کی فرمائش پر سہرہ بھی لکھ دیتے ہیں۔ کوئی اہم تقریب ہو تو خاص موقعے کے لئے کوئی نظم لکھ دیں گے۔ لیکن یہ سب سنبھال کر رکھتے نہیں ہیں۔ دل کے ٹکڑے ہزار ہوئے، کوئی یہاں گرا، کوئی وہاں گرا۔ کاغذ کے کسی ٹکڑے پر غزل کے چار شعر لکھے، ارادہ تھا غزل مکمل کریں گے لیکن کاغذ کا وہ ٹکڑا ملے تب تو؟ ایسے نہ جانے کتنا شعری سرمایہ ادھر ادھر بکھرا پڑا ہے۔ یار دوستوں نے تقاضہ کیا کہ بھائی شعری مجموعہ چھپنا چاہئے۔ حضرت ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نہیں نکالتے بلکہ جس کان سے سنتے اسی کان سے نکال دیتے۔ پھر راقم السطور پیچھے پڑ گیاکہ مجموعہ ترتیب دیجئے۔ دوستی کا بھرم رکھنے کو ناصر صاحب نے کچھ کلام ادھر ادھر سے تلاش کر کے دیا جسے ہم نے اپنے ایک قابل ریسرچ اسکالر کو دے دیا کہ میاں اسے کمپوز کر دو۔ میٹر کمپوز ہو کر آیا تو ناصر عزیز کے اندر کے شاعر نے خوشی کا اظہار کیا۔ آنکھوں میں ایک چمک سی آئی۔ لگنے لگا کہ مجموعہ اب چھپ جائے گا۔ لیکن ناصر عزیز صاحب نے وہ کمپوز شدہ صفحات یہ کہہ کر لے لیا کہ اس کی پروف ریڈنگ کرتے ہیں۔ سو
صٖفحات کی پروف ریڈنگ ایک سال سے کر رہے ہیں۔ہم بھی ہار ماننے والے نہیں ہیں، لگے ہوئے ہیں کہ ناصر عزیز جیسے پیارے انسان اور پیارے دوست کا مجموعہ چھپ ہی جائے۔