عمر قریشی بطور ناظمِ مشاعرہ
کسی مضبوط، مستحکم اور بلند عمارت کے لئے چار ستون بیحد اہم تصوّر کئے جاتے ہیں۔ ہندستان میں مشاعروں کی نظامت کو اگر ایک خوبصورت عمارت تصوّر کر لیں تو اِس کے چار ستونوں کے نام ہیں۔ ثقلین حیدر، عمر قریشی، ملک زادہ منظور احمد اور انور جلال پوری۔ ہندستان کے طول وعرض میں بے شمار مشاعرے منعقد ہوتے رہتے ہیں۔ ہر مشاعرے میں ایک ناظم ضرور ہوتا ہے۔ کبھی کوئی نوآموز تو کبھی کوئی کہنہ مشق شاعر نظامت کے فرائض انجام دیتا ہے۔ لیکن جن حضرات نے نظامت کو با قاعدہ ایک فن کا درجہ عطا کر دیا ہو ان میں سرِ فہرست یہی چار حضرات ہیں جن کا ذکر سطورِ بالا میں ہوا ہے۔
بہ حالتِ مجبوری کوئی بھی شاعر نظامت کے فرائض انجام دے سکتا ہے اور دیتا بھی ہے۔ منتظمین ایک فہرست ناظم ِ مشاعرہ کے ہاتھوں میں پکڑا دیتے ہیں۔ کبھی کبھی اس فہرست میں یہ ترتیب بھی ہوتی ہے کہ مشاعرے میں سب سے پہلے کون شاعر اپنا کلام سنائے گا اور کس شاعر کو فجر کی اذان کے وقت اپنا کلام سنانا ہے۔ ناظم ِ مشاعرہ ایک کے بعد دیگر شاعر کا نام پکارتا ہے، شاعر مائک پر آتا ہے، جس قدر چاہے کلام سناتا ہے، پھر دوسرا شاعر آتا ہے، سلسلہ چلتا رہتا ہے، سامعین جماہیاں لیتے رہتے ہیں۔ مجمع منتشر ہوتا رہتا ہے۔ اسٹیج پر بھی افرا تفری کا عالم ہوتا ہے۔ ناظمِ مشاعرہ مشینی ڈھنگ سے اپنا کام انجام دیتا رہتا ہے۔
گورکھپور کے آسمانِ ادب پہ جو چاند ستارے ہمیشہ جگ مگ کرتے رہے ہیں ان میں مہدی افادی، ریاض خیرآبادی، فراق گورکھپوری، مجنوں گورکھپوری، ہندی گورکھپوری، پروفیسر محمود الٰہی، پروفیسر احمر لاری، پروفیسر اختر بستوی، پروفیسر افغان اللہ خان، ڈاکٹر سلام سندیلوی، ماسٹر احمر گورکھپوری کے ساتھ عمر قریشی کا نام بھی شامل ہے۔ یہاں جن چند حضرات کا نام لیا گیا ہے وہ محض ایک مثال ہے ورنہ فہرست تو کافی طویل ہے۔ اس فہرست میں بابائے اردو افسانہ منشی پریم چند کا نام بھی شامل ہوگا کہ وہ نارمل اسکول میں ٹیچر تھے۔ گورکھپور سے منشی پریم چند کا بڑا گہرا تعلق رہا ہے۔ انکی بہت سی مشہور تخلیقات کا تعلق گورکھپور سے رہا ہے۔ نارمل اسکول کے احاطے میں جہاں منشی پریم چند قیام پذیر تھے وہاں سے فرلانگ بھر کی دوری پہ عید گاہ مبارک خاں شہید ہے۔ آپ کو منشی پریم چند کی کہانی ”عید گاہ“ تو یاد ہے نا؟
مہدی افادی جیسا نثر نگار اور انشا پرداز بھی اپنی ملازمت کے سلسلے میں گورکھپور میں مقیم تھے۔ گورکھپور کے نخاس چوک سے علامہ شبلی نعمانی کو خطوط لکھے جا رہے تھے۔ پروفیسر فیروز احمد کی کتاب’مہدی افادی‘پڑھ لیجئے۔ گورکھپور اور مہدی افادی جی اٹھیں گے۔ شاعرِ خمریات حضرت ریاض خیرآبادی گورکھپور میں سکونت پذیر تھے۔ باریش، نیک طینت، پرہیزگار ریاض خیرآبادی کی پوری شاعری شراب، میکدہ، میخانہ، جام و سبو، ساقی، صراحی، خم اور پیالہ سے عبارت ہے۔ انکا یہ شعر تو زبانِ زد خاص و عام ہے۔
جامِ مے توبہ شکن، توبہ میری جام شکن
سامنے ڈھیر ہے ٹوٹے ہوئے پیمانوں کا
یہاں تک کہ جب نعت پاک کہتے ہیں تب بھی بڑی خوبصورتی سے انھی لوازمات کو برت کر بات بنا لیتے ہیں۔ فرماتے ہیں،
؎ آبِ زم زم کے سوا کچھ نہیں کعبے میں ریاضؔ
میکدہ کہتے ہیں جس کو وہ مدینہ ہوگا
جناب عمر قریشی کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے اس پس منظر کا ذکر اس لئے ضروری تھا کہ انھی ادبی فضاؤں نے عمر قریشی کی فطری صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔
عمر قریشی کا بچپن مشکلوں اور پریشانیوں میں گزرا۔ آسودہ حال گھرانے جب وقت کی زد میں آ جاتے ہیں تو حساس افراد پہ قیامت ٹوٹ پڑتی ہے۔ سماج میں اپنی سفید پوشی کا بھرم بھی رکھنا ہوتا ہے اور اپنی معاشی تنگ حالی کا علاج بھی تلاش کرنا ہوتا ہے۔ کچھ یہی صورتِ حال جناب عمر قریشی کے ساتھ بھی پیش آئی۔ ایسی صورت میں کچھ لوگ ہمت ہار کے بیٹھ رہتے ہیں، کچھ لوگ زندگی سے ہی مایوس ہو جاتے ہیں۔ اور عمر قریشی جیسے حوصلہ مند لوگ ڈٹ کر حالات کا مقابلہ کرتے ہیں۔ بادِ مخالف کو اپنی کامیابی کی راہ میں حائل نہیں ہونے دیتے۔ عزمِ مصمم اور جہدِپیہم سے ہوا کا رخ موڑ دیتے ہیں۔کچھ ایسا ہی عمر قریشی نے کیا۔ چکی کی مشقت کے ساتھ مشقِ سخن بھی جاری رکھا۔
ماسٹر احمر گورکھپوری کا شمار استاد شعراء میں ہوتا تھا۔ حضرت داغ دہلوی اور نوح ناروی کی طرح ماسٹر احمر گورکھپوری کے شاگردوں کی بڑی تعداد تھی۔ شہر گورکھپور اور ملک کے دوسرے حصوں سے بڑی تعداد میں شعراء اصلاح سخن کے لئے ماسٹر احمر گورکھپوری سے رجوع کرتے۔ استاد شاعر ماسٹر احمر گورکھپوری کے عزیز شاگردوں میں ایک معتبر نام عمر قریشی کا ہے۔ عمر قریشی بھرپور شاعر تھے۔ لیکن انکی لافانی شہرت کا سبب انکی شاعری نہیں بلکہ انکی دلکش فنِ نظامت ہے۔
نظامت کے جن چار ستونوں کی بات ابتدا میں کی ہے وہ چاروں اپنے اپنے انداز کے، اپنے اسلوب کے بادشاہ ہیں۔ اپنے لہجے اور آواز سے پہچانے جاتے ہیں۔جناب ثقلین حیدر اپنی نظامت کے دوران بیشمار اشعار سناتے تھے۔ انکا حافظہ زبردست تھا۔ برمحل اشعار سے محفل میں جان ڈال دیتے تھے۔ ہزاروں اشعار انکی نوکِ زبان پہ تھے۔ مشاعروں کا بڑا سے بڑا شاعر اپنا کلام پڑھ کے بیٹھتا اور ثقلین حیدر شروع ہو جاتے۔ شاعر نے جس مضمون کا شعر پڑھا تھا اسی مضمون کو میر انیس نے کیسے باندھا ہے یہ بتانا ثقلین حیدر کا کام تھا۔ جس زمین میں شعر پڑھا گیا ہے اسی زمین میں مصحفی اور ناسخ کے شعر سنا دیتے۔ شاعر جس ردیف قافیہ کا استعمال کرتا اسی ردیف قافیہ میں کبھی داغ دہلوی تو کبھی علامہ اقبال کے اشعار برمحل سنا دیتے۔ مشاعرہ سن رہے ہزاروں سامعین جھوم اٹھتے، واہ واہ کی صدا بلند ہوتی، لوگ ثقلین حیدر کی سخن فہمی اور زبردست یادداشت کی داد دیتے۔ لیکن بیچارہ شاعر سر دھن کے رہ جاتا۔ جو داد و تحسین اس کے حصے میں آنی تھی وہ ناظم ِ مشاعرہ ثقلین حیدر لوٹ لیتے تھے۔ ثقلین حیدر کی زبردست نظامت کا منفی پہلو یہ تھا کہ شاعر پھیکا پڑ جاتا تھا۔ نظامت چمک جاتی تھی۔
دوسرے کامیاب طرین ناظمِ مشاعرہ پروفیسر ملک زادہ منظور احمد ہیں۔ جنھوں نے مشاعروں کو کسی حد تک ادبی وقار عطا کیا ہے۔ عمر قریشی کے شہر سے ملک زادہ منظور احمد کا بھی گہرا تعلق رہا ہے۔ ابتدائی اور اعلیٰ تعلیم گورکھپور میں حاصل کرنے کے بعدکچھ زمانے تک درس و تدریس کا سلسلہ بھی گورکھپور میں رہا۔ پھر اعظم گڑھ اور لکھنؤ میں تدریسی فرائض انجام دیتے رہے۔ ملک زادہ منظور احمد لکھنؤ یونیورسٹی میں اردو زبان و ادب کے استاد رہے۔ اردو اور انگریزی ادب کا گہرا مطالعہ ہے۔ دورانِ نظامت ایک خاص معیار سے گر کر کبھی گفتگو نہیں کرتے۔ کچھ خاندانی روایت، کچھ بزرگوں کی صحبت نے ملک زادہ منظور احمد کو ایک خاص طرزِ گفتگو عطا کیا ہے۔ شاعروں کی شان میں بیجا قصیدہ نہیں پڑھتے اور اول جلول لطیفے سنا کر سامعین کے ذوق کو خراب نہیں کرتے۔ آواز میں قدرتی بھاری پن اور کھنک ہے اسی لئے مائیکروفون پہ ملک زادہ منظور احمد کی آواز دوسروں کے مقابلے زیادہ بلند اور صاف سنائی دیتی ہے۔ شاعروں کو داد بھی ایک خاص کڑک دار آواز میں دیتے ہیں۔ شاعروں کا تعارف کراتے وقت بیجا طوالت سے عام طور پہ بچتے ہیں۔
تیسرے کامیاب ترین اور عظیم ناظمِ مشاعرہ جنابِ انور جلال پوری ہیں۔ ملک زادہ منظور احمد کی طرح انور صاحب بھی تدریس کے پیشے سے وابستہ رہے ہیں۔ لیکن آپ اردو کے نہیں بلکہ فراق گورکھپوری کی طرح انگریزی زبان و ادب کے استاد رہے ہیں۔ جلال پور کے کالج میں بھرپور تدریسی خدمات انجام دینے کے بعد اب آپ لکھنؤ میں سکونت پذیر ہیں۔ ابھی حال ہی میں گیتا کا منظوم ترجمہ شایع کر کے آپ اہلِ علم و ادب سے داد وصول کر چکے ہیں۔ انور جلال پوری اپنے خاص انداز میں کسی سنت یا ملنگ کی طرح مشاعرے کے اسٹیج پر نمودار ہوتے ہیں۔ کسی محفل میں یا کسی اسٹیج پر خاموش بھی بیٹھے ہوں تو دیکھنے والا کہہ اٹھے گا کہ کوئی مفکر بیٹھا ہے۔ انکی سوچتی ہوئی دو ذہین آنکھیں اکثر بہت کچھ بیان کر دیتی ہیں۔
انور جلال پوری کو قریب سے جاننے والے بتاتے ہیں کہ وہ جتنے اچھے شاعر ہیں اس سے اچھے ناظمِ مشاعرہ ہیں اور اس سے اچھے انسان ہیں۔ حالانکہ مشہور و معروف شاعر منور رانا کا خیال ہے کہ انور جلال پوری اول تا آخر شاعر ہیں، نظامت تو وہ یوں ہی کر لیتے ہیں۔ لیکن اس سچائی سے انکار ممکن نہیں کہ دنیا بھر میں انور جلال پوری کو انکی شاعری نہیں بلکہ انکی زبردست نظامت کے لئے جانا جاتا ہے۔ شانوں پہ ایک خاص ادا سے شال اوڑھے ہوئے وہ جس ٹھہرے ہوئے انداز میں گفتگو کرتے ہیں وہ سحر انگیز ہے۔وہ ایک زبردست خطیب ہیں۔ وہ کسی موضوع پر بے تکان بول سکتے ہیں۔ اردو سے نابلد کسی چینی، جاپانی یا فرانسیسی کے سامنے اگر انور جلال پوری گفتگو کر رہے ہوں تو کچھ نہ سمجھتے ہوئے بھی وہ گھنٹوں ان کی گفتگو سے لطف اندوز ہو سکتا ہے۔ انکے بولنے کا لہجہ، آواز کا زیر و بم،جملوں کی موسیقی جادو کر دیتی ہے۔ انکی گفتگو میں جو ٹھہراؤ ہے وہ بڑی قاتل چیز ہے۔ مشاعروں کے اسٹیج پر انکی جادو بیانی کے ساتھ ساتھ انکی شخصیت کا جادو بھی جان لیوا ہے۔ وہ غزل کے شعر کی طرح اپنے جملوں پر داد وصول کرتے ہیں۔ صرف ہندوستان میں نہیں بلکہ دنیا میں جہاں جہاں اردو ہے وہاں مشاعرے منعقد ہوتے ہیں اور جہاں مشاعرے منعقد ہوتے ہیں وہاں جنابِ انور جلال پوری کے جلال و جمال کے شیدائی موجود ہیں۔
مشاعروں میں فنِ نظامت کے چوتھے ستون کا نام عمر قریشی ہے۔ ثقلین حیدر، ملک زادہ منظور احمد اور انور جلال پوری سے بالکل الگ انداز تھا جنابِ عمر قریشی کی نظامت کا۔ وہ شاعروں کا تعارف انکے شہروں کے حوالے سے کراتے تھے۔ مالوہ کی ایک شاعرہ اپنا کلام سنا کے بیٹھی تو عمر قریشی گویا ہوئے خواتین و حضرات آئیے اب آپ کو مالوہ سے گلابی شہر جئے پور لئے چلتا ہوں جہاں سے تشریف لائے ہیں خاکِ پائے جگرجناب حسرت جئے پوری۔ جتنی دیر میں حسرت جئے پوری اپنی جگہ سے اٹھتے اور مائک پر آتے اتنی دیر میں عمر قریشی جئے پورکے جغرافیہ اور تاریخ پر بھرپور روشنی ڈال چکے ہوتے۔ ہر شہر کی ادبی تاریخ ان کے زبان پر تھی۔ مراد آباد سے تشریف لائے کسی شاعر کو زحمتِ سخن دے رہے ہیں تو قمر مراد آبادی، کیف مراد آبادی اور جگر مرادآبادی اور نہ جانے کس کس مرادآبادی شاعر کا نام لیتے اور انکا کلام بھی سنا دیتے تھے۔ اسی طرح کوئی شاعر بھوپال کا ہے تو نہ صرف کیف بھوپالی، اسعد بھوپالی اور شعری بھوپالی کا نام لیتے بلکہ بھوپال کی پہاڑیوں اور بھوپال کے چھوٹے تالاب اور بڑے تالاب کا ذکر بھی کرتے۔ وہ ہندوستان کے تقریباً تمام اہم شہروں کی ادبی وراثت سے واقف تھے۔ ایک خاص بات انکے حوالے سے یہ ہے کہ وہ کبھی بھی مشاعروں میں اپنا کلام نہیں سناتے تھے۔ دورانِ نظامت اپنے لا تعداد اشعار بر محل سناتے تھے لیکن بطور شاعر مائک پہ آکر اپنا کلام نہیں سناتے تھے۔ جبکہ دنیا کو معلوم ہے کہ وہ ایک بہترین شاعر تھے، انکے کئی مجموعے شائع ہوئے۔ شہرِ صدا، زخمِ صدا وغیرہ کو بے حد سراہا گیا۔ لیکن انکی عادت تھی کہ وہ مشاعروں میں صرف نظامت کرتے تھے۔ ایک اور بات انھیں اپنے ہم عصر ناظموں سے الگ کرتی ہے کہ وہ شاعر کی قابلیت پہ بہت غور نہیں کرتے تھے۔ شاعر کسی سطح کا ہو، بطور ناظمِ مشاعرہ وہ چاہتے تھے کہ شاعر اسٹیج سے کامیاب و کامران واپس جائے۔ شاعر اور شاعری کمزور ہو تو عمر قریشی کی نظامت اسے سہارا دینے کا کام کرتی تھی۔ کسی طرح شاعر کامیاب ہو جائے اور مجموعی طور پر مشاعرہ کامیاب ہو جائے یہ عمر قریشی کی کوشش ہوتی تھی۔
عمر قریشی کے بعد کی نسل میں حالانکہ ماجد دیو بندی اور اقبال اشہر بھی نظامت کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں لیکن مرادآباد سے منصور عثمانی اور دہلی سے (وطن عزیز بجنور) معین شاداب نے عالمی سطح پر بطور ناظمِ مشاعرہ اپنی پہچان قائم کی ہے۔ ادھر گورکھپور میں مرحوم عمر قریشی کے داماد اور انکی ادبی وراثت کے امین خورشیدعالم قریشی نے عمر قریشی اکیڈمی قائم کر کے انکی یادوں کو زندہ رکھنے کی کوشش کی تھی جسے اب ان کے لائق صاحب زادے شاداب قریشی سنبھال رہے ہیں۔
(ڈاکٹر شفیع ایوب، ہندوستانی زبانوں کا مرکز، جے این یو، نئی دہلی)