ڈھولو دگڑو ڈوم از غیاث الرحمان سید
تبصرہ وتجزیہ؛ محمد علم اللہ، نئی دہلی
ایسا بہت کم ہوتا ہے جب آپ کچھ پڑھنا شروع کرتے ہیں اور پڑھتے ہی چلے جاتے ہیں، کہانی کی بنت، جادو بھرے الفاظ، تجسس اور روانی آپ کو اس قدر بہائے لئے چلی جاتی ہے کہ آپ کتاب کو ختم کرکے ہی دم لیتے ہیں اور جب آپ ٹھہرتے ہیں تو سرد آہ بھرتے ہیں اور یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ واقعی لکھنے والے نے کیا فن کاری کا مظاہرہ کیا ہے۔ غیاث الرحمان سید کا ناول "ڈھولی دگڑو ڈوم” انھیں میں سے ایک ہے، جس کا سحر پڑھنے والے پر دیر تک باقی رہتا ہے۔ ناول کی زبان اس قدر شستہ، دلچسپ اور رواں ہے کہ قاری عش عش کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
یہ ناول کرونا وبا پر مبنی ایک ایسی کہانی ہے جسے المیہ اور رومان میں گوندھ کر لکھا گیا ہے، جس کو پڑھتے ہوئے کئی جگہ قاری کی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ سبھی جانتے ہیں کہ محبت ایک لازوال رشتہ ہے اور کب، کس کو، کہاں، کس سے ، کیسے محبت ہوجائے کوئی نہیں جانتا، شاید اسی لئے کہا گیا ہے، عشق نہ دیکھے دین دھرم، عشق نہ دیکھے ذات۔ مصنف نے اپنی کہانی میں اس کو خوب نبھایا ہے اور کہانی کو اس انداز سے بُنا ہے کہ پڑھنے والا بہتا چلا جاتا ہے۔
نچلی ذات کے ایک لڑکے اور اونچی ذات کی ایک لڑکی کے درمیان پریم کی یہ کہانی صرف محبت کے فلسفہ کو ہی نہیں درشاتی بلکہ اس ناول سے ہندوستان کے دیہی سماج اور امرا کے طبقہ کے درمیان کھائی کو بھی سمجھنے میں مدد ملتی ہے، ساتھ ہی ساتھ ثقافت، مذہب، رہن سہن، رشتہ ناطہ، سیاست تعلیم ،کھان پان اور زندگی کے مختلف رنگوں کا بھی علم ہوتا ہے۔
اس کہانی میں دگڑو جو اس کہانی کا ہیرو ہے اگر ایک ڈوم ہے تو سرلا جو اس کہانی کی ہیروئن ہے بنارس ہندو یونیورسٹی سے سوشل ورک کی پڑھائی کرنے والی ایک پنڈت کی لڑکی ہے۔ ایسے میں محبت کو جس انجام سے دو چار ہونا چاہئے اس کہانی میں بھی وہی ہوتا ہے مگر محبت کے ساتھ ساتھ ایک انہونی طاقت بھی عود کر آتی ہے دونوں کے ساتھ بھی ویسا ہی ہوتا ہے، ایک طرف سِرلا کے گھر والے اس کے دشمن ہو جاتے ہیں، پورا سماج اس کا مخالف ہوتا ہے تو دوسری جانب دگڑو بھی عشق کی خاطر سرلا کے لئے جان تک کی قربانی دینے کو تیار ہوجاتا ہے، اس کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب سرلا کو کورونا ہوجاتا ہے اور دگڑو انجکشن کی کالا بازاری میں امرت کی طرح اسے حاصل کرنے کے لئے اپنا جمع پونجی نکال کر اور بھینس بیچ کر شہر کے لئے روانہ ہوجاتا ہے، مگر جب لوٹتا ہے تو موت اس کے سرلا کو لیجا چکی ہوتی ہے۔
قلم کار نے کہانی میں ادب کے جملہ فن کاریوں جیسے استعارات، کنایات اور تلمیحات اور امثال وغیرہ کا بڑی خوبصورتی سے استعمال کیا ہے جو کہانی میں چار چاند لگانے کا کام کرتے ہیں، مشتے نمونہ از خروارے کے طور پر کچھ چیزیں ملاحظہ ہوں، سرلا کی خوبصورتی کو ناول نگار کچھ اس انداز میں بیان کرتے ہیں اور یہ دگڑو کے الفاظ ہیں جو ایک ڈوم ہے، ظاہر ہے اس کی زبان سے لکھنؤ یا دہلی کی ٹکسالی زبان تو نہیں بلوائی جا سکتی تھی، مگر پھر بھی کس خوبصورتی سے انھوں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا دیکھیں:
” دگڑو نے دیکھا، سرلا ان بچوں میں سب سے زیادہ سندر تھی، بہت گوری، موٹی موٹی، بڑی بڑی آنکھیں، رنگین پھولوں والی فراک پہنے، دو چوٹیوں میں لال ربن بندھے ہوئے، آواز میں چڑیوں کی سی چہچہاہٹ، ہنسی تو ایسے جیسے پورنا ندی میں بہتا کل کل پانی”۔
ایک اور جگہ وہ کہتے ہیں:
"اس کی آواز میں ٹافی سے زیادہ مٹھاس تھی، پورن پولی سے زیادہ نرمی اور پیڑے سے زیادہ لذت، اس کی آواز سن کر دگڑو کو ایسا لگا، جیسے ندی کے کنارے بہت ساری چھوٹی چھوٹی مچھلیاں پھڑ پھڑائی ہوں۔ دگڑو کا جی چاہا کہ وہ یونہی اس سے باتیں کرتی رہے اور ندی کنارے اتھلے پانی میں ننھی مچھلیاں پھڑ پھڑاتی رہیں۔”
کورونا وبا کے دوران کی عکاسی ملاحظہ فرمائیں:
"پھر اچانک مہاماری کی دوسری لہر نے سر ابھارا، یہ بیماری ودیشوں سے دیش میں آئی، پہلے بڑے شہروں میں، پھر قصبوں اور دیہاتوں میں بھی اس کا پر کوپ چھانے لگا، اسکول، کالج، ہوسٹل، ہوٹل، دوکانیں، بازار، سب بند ہونے لگے۔ مرنے والوں کی تعداد بڑھنے لگی۔ شمشان اور گھاٹ کم پڑ گئے۔ لاشوں کے ڈھیر بڑھ گئے۔ لکڑیوں کے انبار ختم ہونے لگے۔ ڈوم جاتی کو یہ آدیش ہے کہ بنا پیسے لئے وہ کوئی چتا نہ جلائیں ورنہ پاپ پڑے گا اور مرنے والے کو شانتی نہ ملے گی— لوگ اپنے رشتے داروں کی لاشیں یونہی پھینک کے چلے جاتے یا گنگا کی ریت میں دبا جاتے۔ پانی میں ہزاروں لاشیں سڑنے لگیں، کتے، گدھ اور دوسرے مردہ جانور انسانی لاشوں کی کھینچ تان کرتے رہے، شہر سنسان، بستیاں ویران ہو گئیں، کارخانے بند، بس، ریل، ہوائی جہاز، ناؤ، کشتیاں ، سب رک گئیں۔ پھر مزدوروں کا سیلاب بڑے شہروں سے قصبوں اور دیہاتوں کی طرف امڈ پڑا۔ حکم ہوا” جو جہاں ہے وہیں رک جائے” لیکن کال کا پہیہ چلتا رہا—”
یہ اور اس طرح کے بے شمار اقتباسات یہاں پیش کئے جا سکتے ہیں، جس سے مصنف کی قادر الکلامی اور کہانی کہنے کے سلیقے کا اندازہ ہوتا ہے، لیکن ایک چھوٹے سے مضمون میں اس کی گنجائش نہیں ہے۔ اس لئے ہم اسی پر اکتفا کرتے ہوئے، قاری کو براہ راست کہانی پڑھنے کی دعوت دیتے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ غیاث الرحمان سید کا یہ ناول ان کے دیگر تخلیقات سے کہیں زیادہ پذیرائی حاصل کرے گا اور ادب کے دلدادہ اس کو ہاتھوں ہاتھ لیں گے۔