Urdu News

اردو اکادمی، دہلی کا مقبول ترین پروگرام ”نئے پرانے چراغ“ کے موقع پر تیسری ”محفل شعر و سخن“ کا انعقاد

اردو اکادمی، دہلی کا مقبول ترین پروگرام ”نئے پرانے چراغ“ کے موقع پر تیسری ”محفل شعر و سخن“ کا انعقاد

نئی دہلی۔25جولائی2022

اردو اکادمی، دہلی کی جانب سے منعقد ہونے والا دہلی کے بزرگ اور جواں عمر قلمکاروں کامقبول ترین پروگرام ”نئے پرانے چراغ“ جاری ہے۔بروز اتوار مورخہ24جولائی کو ”قمررئیس سلورجوبلی آڈیٹوریم میں ”محفل شعر وسخن“ کا انعقادعمل میں آیا۔ جس میں متعدد شعرائے کرام نے اپنا کلام پیش کیا اور سامعین کو مسحور کیا۔ مشاعرے کا باضابطہ آغاز شمع روشن کرکے کیا گیا۔ مشاعرے کی صدارت جناب اسلم دہلوی نے کی جب کہ شہرت یافتہ شاعرامیرامروہوی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔اسلم دہلوی نے اپنے صدارتی خطبے میں کہا کہ گزشتہ دو برسوں سے تمام پروگرام کا سلسلہ تھم سا گیا تھا لیکن اللہ کا فضل و کرم ہے کہ اب اردو اکادمی دہلی متحرک وفعال ہوچکی ہے اورتمام پروگراموں کا انعقاد کیا جارہا ہے۔ میں اردو اکادمی کے وائس چیئرمین کا شکر گزار ہوں اور اردو اکادمی مبارک باد کی مستحق ہے کہ اس نے اس پروگرام کے انعقاد کو یقینی بنایا ہے۔ اور امید کرتا ہوں کہ تمام پروگرام معمول پر آجائیں گے۔

قارئین کے ذوق وشوق کے لیے منتخب اشعار پیش خدمت ہیں:

یہ مانا حسن ہے اپنے ہی جلوؤں کا تماشائی

مگر یہ بھی ذرا دیکھے کسی پر کیا گزرتی ہے

اسلم دہلوی

میں چپ ہوا تو بہت بولنے لگی دنیا

جو راز تھے بھی نہیں کھولنے لگتی دنیا

راشد جمال فاروقی

ترے خیال کے بعد میں بیٹھا رہتا ہوں

تمام وقت گزرتا ہے با وضو میرا

راشد حامدی

تیری موجودگی کے مظہر ہیں

چاند سورج گھٹا ہوا مٹی

سیف سحری

سانس لینے دے ابھی گردشِ ایّام ذرا

اپنی تہذیب کی میت کا نظارہ کر لوں

زیب حسنی

اکبھی حساب کریں گے اے زندگی تجھ سے

لیا ہے تجھ سے بہت کم دیا زیادہ ہے!

ڈاکٹر ایم۔آر۔ قاسمی

ہجرتوں نے بڑا احسان کیا ہے مجھ پر

یہ ہی دیتی ہے مری نقلِ مکانی ترتیب

خالد اخلاق

تاجِ اعزاز سروں پر جو سجائے ہوئے ہیں

اپنے ماضی میں بہت ٹھوکریں کھائے ہوئے ہیں

پیمبر نقوی

اس کے ستم پہ وہ بھی چپ ہے، وہ بھی چپ ہے، وہ بھی چپ

میں بھی گھر میں چپ بیٹھوں کیا لوگوں کی خاموشی تک

امیر امروہوی

دو سگی بہنوں سے دو گنجوں کی شادی ہوگئی

اور یہ بے زلف بھی ہم زلف کہلانے لگے

احمد علوی

آج کل یاد کم ہی کرتا ہے

گھر گیا ہوگا بال بچوں میں

عادل رشید

جو بھی گیا یہاں سے ہمیں روند کر گیا

ہم تھے عروجِ شہر، ہمی راستہ ہوئے

عادل حیات

یک ہی شخص تھا جہان میں ہاں!

نام جس کا ہے ہر اذان میں ہاں!

ڈاکٹر راحت مظاہری

وجود جاں کے سوا ملکیت نہیں کچھ بھی

اسی سبب سے مرا کوئی گوشوارا نہیں

ڈاکٹر خان رضوان

تمھیں میرے دریا، تمہی میری کشتی، تمہی ناخدا ہو

تمہی میری منزل تمہی ہم سفر ہو، تمہی راستہ ہو

انوار الوفا اعظمی

جب کوئی مقصد حیات نہیں

پھر تو وہ آدمی کی ذات نہیں

وحید عازم

بھی تک خالی خالی پھر رہے ہیں

تم آؤگے تو بھر جانا ہے ہم کو

سالم سلیم

اپنے مطلب سے بات کرتی ہے

کس قدر ہوشیار ہے دنیا

ابوذر نوید

بے وفائی کا نہ اختر پہ لگاؤ الزام

سر سے چل جائے اگر کام تو سر تک لے لو

اختر حسین اختر

ہم نے بنایا عزم کو جب رہنما اصول

دنیا میں کوئی کام بھی مشکل نہیں رہا

محمد صادقین

تیرے پلّے پڑی جو اس جنم میں

وہی ہر بار ہو تو کیا کرے گا

وجے متّل

نہیں صیاد کی خوبی پڑی ہے خو اسیری کی

کبوتر خود پلٹ کر اپنے زندانوں میں آتے ہیں

ساز دہلوی

تم طنز نہیں کرنا عصمت پہ کسی کی بھی

ویدو کے شلوکو پہ ایمان بھی ہوتا ہے

اسلم جاوید

تمہارے لمس کی خوشبو بدن میں رقص کرتی ہے

تمہاری یاد کے گُل جب بھی زلفوں میں لگاتی ہوں

ریتا ادا

موسی لگتی ہے کبھی لگتی ہے موسی کی طرح

یہ زبانِ اردو بھی میٹھی ہے ہندی کی طرح

کوئی بھی جذبہ جہاں میں پریم سے پاون نہیں

پیار پلتا ہے مرے آنگن میں تلسی کی طرح

منیش مدھوکر

بار بار آ رہی ہے کانوں میں

زندگی میں تری صدا ہے کیا

کرن یادو

خوبصورت نہیں کوئی تم سا

اتنا کہنے میں کیا برائی ہے

جاوید عبّاسی

اُس کا احساس جدا پیار جدا ہوتا ہے

ماں کے کردار میں کردار جدا ہوتا ہے

سنجیو نگم انام

تم کو رخصت ہی کہاں میں نے کیا ہے لیکن

چاک دامن وہ سلیقے سے سیا ہے لیکن

راجیش ترپاٹھی راج

یہ جوہر دن تجھے پڑھنے کے لیے کہتا ہوں

میرے بیٹے ترے اچھے کے لیے کہتا ہوں

ظفر کانپوری

دامن میں اپنے ڈال کے دوچار نیکیاں

بھٹکا گئے کہاں کہاں پھل کی تلاش میں

نورالعین قیصر

میری تقدیر میں لکھے تھے محبت کے گلاب

جھولیاں خاروں سے نفرت کی میں بھرتا کیسے

اختر حسین اختر

کس کی آہٹ کس کی صدا ہے کوئی ہے کوئی تو ہے

دل میں آخر کون چھپا ہے کوئی ہے کوئی تو ہے

ندھی بھارگو مانوی

مرنے کا خوف اور گھٹن اوڑھتا ہوں میں

سوتا ہے رات میں تو کفن اوڑھتا ہوں میں

اروند اثر

محلوں کے شاہی ٹکڑے امیروں بٹ گئے

فاقوں کے سارے لطف غریبوں میں بٹ گئے

شکیل بریلوی

چھوڑ بھاگا تجھ ہسبینڈ چلو رار کٹی

تو ہے بھارت میں وہ انگلینڈ چلو رار کٹی

عمران دھامپوری

ظاہری رکھ رکھاؤ اچھا ہے

لوگ ٹوٹے ہوئے ہیں اندر سے

سلیم کاشف

حق بیانی پر زباں کٹنے کا ڈر بھی ہے مجھے

اور چپ رہ جاؤں میری ایسی فطرت بھی نہیں

محمود عالم انصاری

تمہاری رسم الفت کی کمی ہی مانی جائے گی

نہیں ملتے اگر مرنے پہ کاندھے چار دنیا میں

گرچرن مہتہ رجت

سکوں سے جینے کا مذہب بنایا تھا ہم نے

یہ کیا پتا تھا کہ مذہب ہی مسئلہ ہوگا

پرمود شرما اثر

معصوم نگاہوں کا ہے اندازِ بیاں اور

کہتی ہے مگر آپ کی خاموش زباں اور

محمد وارث انصاری

میں ترے دل تلک نہیں پہنچا

اپنی منزل تلک نہیں پہنچا

امبر جوشی

میرے ہونٹوں پہ پھولوں کی ہنسی تو تم نے دیکھی

مگر دل میں بسے ویرانے نہیں دیکھے

علیم خاں

جو اب لگتے نہیں تم کو کسی بھی کام کے پتھر

اگر بن جائیں کل ہی وہ تمہارے نام کے پتھر

آر۔سی۔ ورما ساحل

مجھے سانسوں کی قیمت بھی پتا ہے

مرے والد غبارے بیچتے ہیں

بلال عابد

زندگی میں جس کو خوشیوں کا زمانہ چاہیے

اُس کے ماتھے پر پسینہ بھی تو آنا چاہیے

راجندر کلکل

اردو میں کی ہے مجھ سے کسی نے جو گفتگو

رعناؔ وجود پر مرے اک رس برس کیا

رعنا مظہری دہلوی

کل رات تیرا ذکر ہونٹوں پہ آیا تھا

اب تلک میری صبح تو خوشبو سی مہکتی ہے

رنجیتا سنگھ فلک

ظلمت ہجر ہوگئی کافور

آج گھر میرے آگیا سورج

مشفق بچھرایونی

اِن کو پہچان لو سارے سیاسی چہرے

ایک ہیں مندر و مسجد کو گرانے والے

دلدار دہلوی

مجھ کو دھوکا دے کر جانے والوں میں

مجھ کو اچھی طرح پتا ہے تم بھی ہو

رام شیام حسِین

ایسی ماں کی خوشی نہ پوچھو تم

جس کا لوٹا ہے لال برسوں میں

عاصم کرتپوری

مجھ کو مذہب کی سنک لے ڈوبی

میں کسی کام کا نہ ہو پایا

فخرالدین اشرف

آج ہی میں امیر ہو جاؤں

ہاں اگر بے ضمیر جاؤں

طاہر امین

بہتر ہے میرے ساتھ نہ چلنے کی سوچئے

حق کا فسانہ آپ سے بولا نہ جائے گا

ارشد سیفی

ہمدردیوں سے اس نے جیتا ہے میرے دل کو

بگڑی ہوئی بنا کے تقدیر دے گیا

زینت دہلوی

خطا میری بھلا کیا ہے ذرا مجھ کو بتا دینا

اگر میں بے وفا ہوں تو مجھے دل سے بھلا دینا

انشو کماری

ادوسروں کے درد لینا بھی فطرت ہوئی

بھیج دینا تم بھی مجھ کو اپنا حصّہ درد کا

رجنیش تیاگی راز

ہوا مکمل سفر تو ہم سفر ملا

بعد مرنے کے مجھے چارہ گر ملا

راج کمار گپتا

خوشی میں ہوتی ہے بیگم تو عید ہوتی ہے

نہیں تو روز پتیلی شہید ہوتی ہے

شاہد گڑبڑ

ہم سادگی سے رہتے ہیں سادہ مزاج نہیں

مفلس جو ہم کو سمجھے تو سمجھا کرے کوئی

شکیل ابنِ نظر

Recommended