Urdu News

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام بہ اشتراک نظامت فاصلاتی تعلیم، کشمیریونیورسٹی دوروزہ قومی سمینار اختتام پذیر

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام بہ اشتراک نظامت فاصلاتی تعلیم، کشمیریونیورسٹی دوروزہ قومی سمینار اختتام پذیر

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام ، نظامت فاصلاتی تعلیم، کشمیر یونیورسٹی، سری نگر کے اشتراک سے دو روزہ قومی سمینار بعنوان ’غالب اور جشن زندگی‘ اختتام پذیر ہوا۔ سمینار کے دوسرے روز صبح 10بجے سے شام 5بجے تک چار اجلاس ہوئے جس میں مدعو مقالہ نگاروں نے مقالات پیش کیے۔ پہلے اجلاس کی صدارت ڈاکٹرالطاف انجم نے فرمائی۔

 اپنے صدارتی خطاب میں انھوں نے کہا کہ غالب کو مختلف نظریات اور فکری تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے آج کا سمینار بھی اسی سمت میں ایک قدم ہے۔ لیکن قابل غور یہ ہے کہ کلام غالب کو جس زاویے سے بھی دیکھیے اس کی معنویت برقرار رہتی ہے بلکہ یہ ہماری سخن فہمی کا امتحان لیتی ہے۔

 اس اجلاس میں ڈاکٹر محمد یونس ٹھوکر نے غالب اور اقبال کا شعور حیات، ڈاکٹر اقبال افروز نے غالب اور میر کا تصور غم، ڈاکٹر نصرت جبیں نے غالب کامعشوق انفرادیت و افتراق، ڈاکٹر محضر رضا نے غالب کا تصور حیات،ڈاکٹر کوثر رسول نے غالب کا تصور کائنات، خدا کائنات اور انسان کے حوالے سے اور ڈاکٹر محی الدین زور نے غالب کا وطیرہَ زندگی کے موضوعات پر مقالات پیش کیے۔

 اس اجلاس کی نظامت جناب جاوید احمدنجار نے کی۔ دوسرے اجلاس کی صدارت پروفیسر نظیر احمد ملک اور شفیع سنبھلی نے فرمائی۔ اپنے صدارتی خطاب میں پروفیسر ملک نے کہا کہ مجھے سمینار کاموضوع بہت پسند آیا اس موضوع کے سہارے ہم زندگی کے بہت سے گوشوں پر غور کر سکتے ہیں اور یہ جان سکتے ہیں کہ غالب نے زندگی کے کون کون سے مواقع کا جشن منایا یا کن کا نہیں منایا۔

 جناب شفیع سنبلی نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ کشمیر میں جو بھی سمینار ہوتے تھے ان پر اقبالیات کا غلبہ رہتا تھا لیکن یہ ایک اچھا موقع ہے کہ ہم غالبیات کو موضوع بنا رہے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ اس سے غالبیات کی روایت مزید مستحکم ہوگی۔

اس اجلاس میں ڈاکٹر توصیف احمد نے مرزا اسد اللہ خاں غالب اور غم زندگی، ڈاکٹر مسرت گیلانی نے مرزا اسد اللہ خاں غالب اور غم روزگار، داکٹر امتیاز احمد نے غالب اظہار درد میں تجرید کی تجسیم اور ڈاکٹر محمد یوسف وانی نے غالب کی شاعری میں رقیب کے موضوع پر مقالات پیش کیے۔ اس اجلاس کی نظامت محترمہ صوبیہ رفیق نے کی۔

 تیسرے اجلاس کی صدارت پروفیسر شفیقہ پروین نے فرمائی۔ انھوں نے اپنے صدارت خطاب میں کہاکہ غالب انسٹی ٹیوٹ غالبیات کے تعلق سے سب سے زیادہ فعال ادارہ ہے لیکن کشمیر میں اس سمینار کا انعقاد اس ادارے کی تاریخ میں خوبصورت اضافہ ہے میں غالب انسٹی ٹیوٹ اور نظامت فاصلاتی تعلیم کے ذمہ داروں کو مبارکباد پیش کرتی ہوں۔ غالب نے اپنی شاعری میں ایسے پہلو پیدا کیے جن سے اردو شاعری کی رویت میں غیر معمولی وسعت پیدا ہوئی۔

اس اجلاس میں ڈاکٹر سہیل سالم نے غالب کی شاعری میں زندگی کا تصور، داکٹر مصروفہ قادر نے غالب: زندگی کے رمز شناس اور ڈاکٹر ریاض احمد کمار نے ہم نے غالب سے کیاسیکھا کے موضوع پر مقالات پیش کیے۔

چوتھے اجلاس کی صدارت پروفیسر جوہر قدوسی صاحب نے فرمائی۔ انھوں نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا کہ انسانی عظمت کے عناصرکو پیش کیا ہے۔ غالب نے قنوطیت میں رجائیت کے چراغ روشن کیے ہیں۔ وہوبائے عام میں بھی مرنا نہیں چاہتے۔ ان کے نظریہَ زندگی کالب لباب رجائیت ہے۔ اس اجلاس میں محترمہ اسما بدر نے غالب کی آشفتہ نوائی، ڈاکٹر الطاف انجم نے ہوا ہے شہ کا مصاحب کلام غالب کا نو تاریخی جائزہ کے موضوع پر مقالات پیش کیے۔

Recommended