ملک کے معروف فکشن نگاروں اور دانشوروں کا معاصر فکشن کے فکری سروکار پر اظہار خیال
مدھیہ پردیش اردو اکادمی ،محکمہ ثقافت کے زیر اہتمام "افسانے کا افسانہ" کے تحت "معاصر افسانوی ادب کے فکری سروکار" موضوع پر پروگرام کا انعقاد 30 جولائی، 2022 کو دوپہر 3 بجے سے ٹرائبل میوزیم آڈیٹوریم، شیاملہ ہلس، بھوپال میں ہوا۔
پروگرام کی شروعات میں اردو اکادمی کی ڈائریکٹر ڈاکٹر نصرت مہدی نے تمام مہمانان کا استقبال کرتے ہوئے پروگرام اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی۔ انھوں نے کہا کہ اردو اکادمی کے ذریعے ہر سال فکشن پر مبنی پروگرام" افسانے کا افسانہ" کا انعقاد کیا جاتا ہے، اس سال یہ پروگرام "معاصر افسانوی ادب کے فکری سروکار" موضوع پر مبنی ہے۔ یہ پروگرام طلبا، ریسرچ اسکالروں کے لیے نہایت اہم ہے کیونکہ آجکل نوجوانوں کا رجحان شاعری کی طرف تو بڑھ رہا ہے مگر نثر کی طرف بہت کم نوجوان آرہے ہیں۔اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے مدھیہ پردیش اردو اکادمی نے آج کا یہ پروگرام معاصر افسانوی ادب کے فکری سروکار کے عنوان سے منعقد کیا ہے جس میں ملک کے معروف فکشن نگار اور ناقدین معاصر فکشن پر گفتگو کریں گے جس سے یقیناً ہم سبھی استفادہ کریں گے۔
پروگرام کی صدارت بھوپال کے بزرگ افسانہ نگار نعیم کوثر نے فرمائی معاصر فکشن پر گفتگو کرتے ہوئے ہندی کے معروف ادیب اور ناقد سنتوش چوبے نے کہا کہ لفظ معاصر کے تعارف میں ہی ایک چیلنج پنہاں ہے۔ میرے لیے ہندی کا معاصر ادب وہ ہے جو بھارتیندو سے شروع ہوکر موجودہ دور کے تخلیق کاروں تک آتا ہے کیونکہ یہی وہ معاصر ادب ہے جس میں ہندی کو فروغ ملا ہے، ہندی کہانیوں کو فروغ ملا ہے اور ہندی کے تخلیق کاروں کو فروغ ملا ہے۔
علی گڑھ سے تشریف لائے معروف ادیب و ناقد پروفیسر شافع قدوائی نے معاصر فکشن پر اپنے مخصوص انداز میں گفتگو کی۔ انھوں نے کہا کہ ایم پی اردو اکادمی نے ایک اہم موضوع کا انتخاب کیا ہے اور اس کے ذریعہ ہم آج کے افسانے کے فکری سروکار کو سمجھ سکیں گے۔ پروفیسر شافع نے اپنے خطاب میں کہا کہ افسانے کا افسانہ ہم حقیقت یا ریالٹی کہتے ہیں وہ بھی ایک طرح کا افسانہ ہوتی ہے جس کو ہم زبان کے ذریعے خلق کرتے ہیں۔ تو اس پورے پیرائے کو جس کو ہم حقیقت کی عکاسی کہتے ہیں، حقیت کوئی آسمان سے نہیں اترتی بلکہ زبان کے ذریعے ہم چیزوں کو سامنے لاتے ہیں اور افسانہ بناتے ہیں۔ موجودہ منظر نامہ میں جو تبدیلی آئی ہے اورکس طرح سے ایک نیا معاشرہ ہمارے سامنے آیا ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جو میڈیا اور ڈیجیٹل ورلڈ کے ذریعہ ہمارے سامنے آرہا ہے تو اس نے کس طرح سے ہمارے افسانے کو متاثر کیا ہے۔ ایک نیا معاشرہ جسے ہماری میڈیا اور ٹیکنالوجی پیش کر رہی ہے، وہ انسان دوست ہے کہ نہیں اسے بھی مختلف پہلوؤں سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔
دلی سے تشریف لائے معروف فکشن نگار ڈاکٹر خالد جاوید نے کہا کہ موجودہ صدی فکشن کی صدی ہے کیونکہ آجکل فکشن میں نئے نئے تجربات ہورہے ہیں. اس موقع پر انھوں نے معاصر اردو ناولوں پر سیر حاصل گفتگو کرتے ہوئے سید محمد اشرف کے ناول آخری سواریاں، اشعر نجمی کے ناولوں اس نے کہا تھا اور صفر کی توہین، محسن خان کے ناول اللہ میاں کا کارخانہ اور رضوان الحق کے ناول خودکشی نامہ پر بھی تبصرہ کیا۔انھوں نے ناول کے حوالے سے کہا کہ ناول کا اصل کام تو یہی ہے کہ وہ وجود کا تجزیہ کرنے لگے نا کہ اس کا بیان کرے۔
دلی یونیورسٹی کی شعبہ اردو کی صدر ڈاکٹر نجمہ رحمانی نے اپنے خطاب میں خواتین فکشن نگاروں کے حوالے سے گفتگو کی. انھوں نے ذکیہ مشہدی کی کہانیوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہ ان کی کہانیاں معاصر افسانوی ادب کی بہترین مثال ہے کیونکہ وہ اپنے افسانوں میں کھل کر تمام باتوں کا اظہار کرنے کی جرات رکھتی ہیں۔
پریاگ راج سے تشریف لائیں ہندی کی مشہور فکشن نگار ڈاکٹر منجری شکلا نے ادب اطفال اور بچوں کی کہانیوں کے حوالے سے اپنا خطاب پیش کیا۔ اس موقع پر بھوپال کے افسانہ نگاروں چندر بھان راہی نے افسانہ منت اور مظفر اقبال صدیقی نے تم میری ہو پیش کیے۔پروگرام کی نظامت کے فرائض اقبال مسعود نے بحسن خوبی انجام دیے۔پروگرام کے آخر میں ڈاکٹر نصرت مہدی تمام شرکا کا شکریہ ادا کیا۔