تہذیب و ثقافت

بھلا پاندان کا بھی کوئی خاندان ہوتا ہے؟ : پاندان کا خاندان

پاندان کا خاندان۔۔
تحریر: شاذیہ مقصود
بھلا پاندان کا بھی کوئی خاندان ہوتا ہے؟ ہوتا ہے بلکل ہوتا ہے ململ کے صاف ستھرے گیلے کپڑے میں بنگلہ سانچی پان کے گیلے پتے جن کو نمی میں شاید اس لیے رکھا جاتا تاکہ وہ نم رہ کہ اپنی تازگی بر قرار رکھ سکیں۔ کتھے کی ڈلیاں جنھیں چور کر پانی ملانا ہمیشہ بہت دلچسپ لگتا تھا۔ ویسے تو خاندان کے کئی بزرگوں کے پاس پاندان دیکھا لیکن میرے ابو بھی کافی عرصے تک پان کے شوقین رہے۔ جی تو بات پاندان کے خاندان کی ہو رہی ہے۔ چونا پان کا اہم جز ہے جس کی زیادتی سے ہمیشہ ہی زبان پہ کٹ لگ جاتا تھا یہ اتنا ہی تیز ہوتا ہے جیسا کہ خاندان کا کوئی تیز بدتمیز سا بچہ ، یقینی طور پہ اس کی تیزی کی وجہ سے ہی یہ بات مشہور ہوئی کہ دیکھو چونا لگ گیا یا فلاں نے چونا لگا دیا وغیرہ وغیرہ۔ اس کے بعد چھالیہ اور سروتے کی باری آتی ہے جن کا ساتھ لازم و ملزوم ہوتا تھا. خاندان میں کئی بزرگ خواتین تو بلاوجہ ہی چھالیہ کترتی رہتی تھیں گویا یہ ان مشغلہ تھا بات کرتی جاتیں چھالیہ کترتی جاتیں کبھی جو کسی ناپسندیدہ ہستی کا ذکر خیر آجاتا تو چھالیہ کی ڈلی کی شامت ہی آجاتی تھی۔
پاندان کا خاندان۔۔
خاندان کی اکثر ناس پیٹیوں پہ اسی سروتے کے ذریعے دل کی بھڑاس نکالی جاتی۔۔ سادہ پان سے اکثر مہمان کی تواضع کی جاتی جب تک چاۓ کھانے کی نوبت آتی تب تک جھٹ پٹ پان کی کھلی (گلوری) بنائی اور مہمان کو پیش کر دی۔ پان کے پروانے جی ہاں پرانے پان کھانے والے سیدھا بادشاہوں کے دربار میں پہنچ جاتے۔ تمباکو والا پان کھانا بھی ایک لطف ایک تواضع ہوتا۔
تمباکو کے نام بھی تو ایسے ہی ہوتے تھے! راجہ جانی یا شہزادی تیز پتی اللہ جانے اتنے مغلیہ نام کس نے رکھ دیے ۔شہزادی تیز پتی بلکل اپنے نام کی طرح تیز تھی۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ ایک بار ننا کے پاندان سے سادہ پان بنایا اور یوں ہی شغل میں ایڈونچر میں نیلے ڈبے سے راجہ جانی اور پیلے ڈبے سے یہ تیز ترار شہزادی پتی کے چند دانے چھڑک لیے ۔۔
میری ایک نک چڑھی کزن ہمیشہ میری بات کی نفی کرتی
۔یہ پان منہ میں رکھا ہی تھا کہ دنیا گھوم گئی اور اس دن کے بعدکبھی پاندان چپکے سے چھالیہ یا سونف کھانے کو بھی نہیں کھولا !اس شہزادی نے اتنا ڈرا دیا تھا کہ کافی عرصے تک لفظ پان سے لرزہ طاری ہو جاتا تھا حتی کہ کافی عرصے تک میٹھے پان کی پیشکش بھی ٹھکرا دیتے۔ نہیں جی میں پان نہیں کھاتی دانت خراب ہوجاتے ہیں ناں !جی نہیں کبھی کبھار پان کھانا چاہیے دانت مضبوط ہوتے ہیں۔ میری ایک نک چڑھی کزن ہمیشہ میری بات کی نفی کرتی۔ ابا کو دیکھ لو ساری زندگی پان کھاۓ اور لقمانی منجن سے دانت دھوۓ مجال ہے کہ ایک بھی دانت ٹوٹا ہو !(وہ اپنے ابا کے عجیب و غریب تجربے بڑے فخر سے بیان کرتی) خیر کافی عرصے بعد اس پان فوبیا سے باہر آۓ۔
اس پاندان کے خاندان سے کئی خوبصورت یادیں وابستہ ہیں۔ خاندان کی بزرگ خواتین پاندان کو کسی قیمتی متاع کی طرح سنبھال کر رکھتی تھیں۔ پاندان کے خاندان میں چونی اٹھنی کے سکے اور ایک اور دو روپے کے مڑے تڑے نوٹ بھی اکثر پڑے مل جاتے تھے . جن پہ جا بجا کتھے کے دھبے پڑے ہوتے۔اکثر قلفی والے پاپڑ والے گڑیا کے بال والے یا فالسے والے کو ایمرجنسی پیمنٹ انہی پاندان والے پیسوں سے کی جاتی تھی۔
پاندان کا خاندان ہمارے بزرگوں کے ساتھ ہندوستان سے ہجرت کر کے آیا۔
پاندان کا خاندان ہمارے بزرگوں کے ساتھ ہندوستان سے ہجرت کر کے آیا۔ اس خاندان کی تاریخ نہایت دلچسپ ہے جس کی بنیادیں مغلیہ سلطنت کے شاہی خاندان سے جا کر ملتی ہیں۔۔پان کا استعمال سب سے پہلے جہانگیر صاحب نے اپنی زوجہ محترمہ نور جہاں کو کروایا۔ نور جہاں کو امور سلطنت میں ٹانگ اڑانے کا بہت شوق تھا۔جہانگیر کو اپنی خیریت مطلوب تھی اس لیے ناں صرف مشورہ لینا پڑتا بلکہ اس پہ عمل بھی کرنا پڑتا تھا ۔ویسے تو نور جہاں کو بننے سنورنے اور میک اپ وغیرہ کا بہت شوق تھا لیکن وہ دانت برش کرنے پہ بلکل یقین نہیں رکھتی تھی (نور جہاں سے معذرت کے ساتھ اب کہا سنا معاف کیجیے گا انٹر نیٹ پہ پڑھا تو یہی ہے ) خیر جناب اب جہانگیر کو اپنی شامت تھوڑی لانی تھی جو اسے بولتا کہ بیگم کبھی کبھار منہ بھی دھو لیا کرو۔۔
جب اس نے شاہی طبیبوں سے مشورہ کیا تو انہوں نے اس کا حل پان کی صورت میں نکالا ۔پان جسے فارسی میں سبز برگ بھی کہتے ہیں جو ہندوستان میں دہلی سے سفر کرتا ہوا کراچی آ کر ٹھہر گیا۔ طبیبوں نے پان میں چونا پیٹ کے کیڑوں کے لیے (آج کل لوگوں کو لگانے کے لیے )کتھا منہ کی لالی کے لیے ،چھالیہ الائچی گلقند سونف وغیرہ سے پان کو سجایا اور نور جہاں صاحبہ کو پیش کیا جو انہوں نے استعمال کیااس طرح سانپ بھی مر گیا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹی ۔ویسے جہانگیر تھا بہت چالاک نورجہاں سے لڑے بغیر اور اسکو بتاۓ بغیر کتنا بڑا مسلہ حل کر لیا اور ہاں بعد میں پان کا گھر یعنی چاندی کا جڑاؤ پاندان بھی گفٹ کیا۔تو صاحبو! یہ تھا پاندان کے خاندان کا دلچسپ سفر
Dr. S.U. Khan

Dr. Shafi Ayub editor urdu

Recent Posts

رجنی کانت کی فلم ’جیلر‘ پر شائقین کا ردعمل

رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…

1 year ago

کشمیر میں’میری ماٹی، میرا دیش‘مہم کے تحت متعدد تقریبات منعقد

مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…

1 year ago

یُگ پریورتن: جموں و کشمیر کا تبدیلی کا سفر

جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…

1 year ago

بھارت کے نقشے کی تصویر کا قالین بُننے والا کشمیری قالین باف محمد مقبول ڈار سے ملیں

شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…

1 year ago

زعفران کی آسمان چھوتی قیمت کشمیر کے کسانوں کے چہروں پر لے آئی مسکراہٹ

زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…

1 year ago

لال چوک پر تجدید شدہ کلاک ٹاور سری نگر کے قلب میں لندن کی جھلک کررہا ہے پیش

سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…

1 year ago