جنگِ آزادی کے اَمر سپاہی پنڈت رام پرساد بسمل کیوں بہت خاص تھے؟
پنڈت رام پرساد بسمل اور شاہ جہاں پور کے پٹھان اشفاق اللہ خان کی دوستی یوں ہی نہیں تھی۔ وہ دوستی ملک کی گنگا جمنی تہذیب کی پروردہ تھی
ہندوستان کی جنگِ آزادی میں جن بہادر سپوتوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے صبح آزادی کی عبارت لکھی، ان میں ایک بہت اہم نام پنڈت رام پرساد بسمل کا ہے۔ زندگی کی صرف تیس بہاریں دیکھنے والے اردو کے اس شاعر پر ہم جس قدر ناز کریں کم ہے۔ 11جون 1897 کو شاہجہاں پور میں پیدا ہوئے رام پرساد بسمل اردو اور ہندی میں لکھتے تھے۔ ہندی میں وہ اگیات اور اردو میں بسمل کے نام سے لکھتے تھے۔ اردو شاعری سے انھیں بے حد لگاؤ تھا۔ اسی شاہجہاں پور سے تعلق رکھنے والے شہیدِ آزادی اشفاق اللہ خان کے بڑے بھائی ریاست اللہ خان پنڈت رام پرساد بسمل کے ہم جماعت تھے۔ بسمل جب مین پوری کانڈ میں ملزم بنائے گئے تو ریاست اللہ خان اپنے چھوٹے بھائی اشفاق اللہ خان کو پنڈت رام پرساد کی بہادری کے قصے سنایا کرتے تھے۔ نوجوان اشفاق اللہ خان کے دل و دماغ پر پنڈت رام پرساد ایک ہیرو کی طرح چھا چکے تھے۔ اشفاق اللہ خان پنڈت رام پرساد سے عمر میں تین سال چھوٹے تھے۔ بسمل کی طرح اشفاق اللہ خان بھی شاعری کرتے تھے اور وارثی و حسرت تخلص رکھتے تھے۔ گنیش شنکر ودیارتھی کی تحریروں کے مطابق اشفاق اللہ خان اپنا کلام پنڈت رام پرساد بسمل کو دکھاتے تھے۔ سرفروشی کی تمنا رکھنے والے یہ دو نوجوان شاعر مادر وطن پہ اپنا سب کچھ قربان کر دینے کو ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔ پنڈ ت رام پرساد آریہ سماجی تھے، اور اشفاق اللہ خان ایک راسخ العقیدہ مسلمان۔ لیکن دونوں کا نصب العین ایک تھا۔ ملک کی آزادی۔ اور انکی کاوشوں کو ایک سکھ نوجوان سردار بھگت سنگھ کی حمایت حاصل تھی۔
رام پرساد بسمل نے ابتدائی تعلیم ایک مکتب میں حاصل کی۔ زمانے کی روایت کے مطابق انھوں نے ایک مولوی صاحب سے اردو اور فارسی کی ابتدائی کتابیں پڑھیں۔ بعد میں ان کے گھر والوں نے انھیں ایک مندر کے پجاری کے حوالے کر دیا۔ جہاں وہ پوجا پاٹھ میں زیادہ وقت لگاتے۔ لیکن ان کے اندر ایک طوفان پوشیدہ تھا۔ انھوں نے بہت جلد یہ فیصلہ کر لیا کہ انگریز آسانی سے ہمیں آزادی نہیں دینے والے۔ وہ گاندھی جی کی اس بات سے اتفاق نہیں رکھتے تھے کہ اہنسا کے راستے پر چل کر بات چیت سے انگریز اس ملک کو آزاد کر دیں گے۔ اس لئے انھوں نے ہندوستان ریپبلیکن ایسوشیسن بنائی۔ ان کی تنظیم میں اشفاق اللہ خان ان کے سب سے بھروسے مند ساتھی تھے۔ اس میں راجندر ناتھ لاہری اور روشن سنگھ جیسے نوجوان بھی تھے۔ اپنی تنظیم کو چلانے کے لئے اور ملک بھر میں انگریزوں کے خلاف ماحول بنانے کے لئے پیسوں کی ضرورت تھی۔ ان لوگوں نے ٹرین سے سرکاری خزانہ لوٹنے کا ارادہ کیا۔ سہارن پور سے لکھنؤ جانے والی پیسنجر ٹرین سے سرکاری خزانہ لایا جا رہا تھا۔ شاہجہاں پور کے پاس کاکوری میں یہ ٹرین لوٹ لی گئی۔ بعد میں انگریز حکومت نے ان نوجوانوں پر بہت ظلم ڈھایا۔ جو نوجوان اس کاکوری کانڈ میں شامل نہیں تھے، ان کی بھی گرفتاری کی گئی اور سخت سزائیں دی گئیں۔
رام پرساد بسمل، اشفاق اللہ خان، راجندر ناتھ لاہری اور روشن سنگھ پر مقدمات چلے۔ بحثیں ہوئیں۔ لیکن جب حکومتیں طاقت کے نشے میں ہوتی ہیں تو انصاف کا ترازو بھی انکی طرف جھک جاتا ہے۔ عدلیہ کا انصاف اکثر حکومتوں کی مرضی کے مطابق ہوتا ہے۔ یہاں بھی یہی ہوا۔ 19 دسمبر 1927کو ان چاروں کو پھانسی دینے کا اعلان ہوا۔ انگریز افسران نے الگ الگ مقامات پہ انھیں پھانسی دینے کا فیصلہ کیا۔ تاکہ عوام بغاوت نہ کر سکیں۔ راجندر سنگھ لاہری کو وقت مقررہ سے دو دن پہلے ہی یعنی 17 دسمبر1927 کو گونڈہ جیل میں پھانسی دے دی گئی۔ روشن سنگھ کو الہ آباد جیل میں اور اشفاق اللہ خان کو فیض آباد جیل میں 19دسمبر 1927 کو پھانسی دے دی گئی۔ اسی دن گورکھپور جیل میں پنڈت رام پرساد بسمل کو پھانسی دی گئی۔ فیض آباد جیل میں پھانسی دئے جانے سے پہلے جب ۷۲ سال کے نوجوان اشفاق اللہ خان سے آخری خواہش پوجھی گئی تو کہا، کوئی خواہش نہیں، خواہش ہے تو بس یہ ہے۔ لاکے رکھ دے کوئی تھوڑی سی خاکِ وطن میرے کفن میں۔ یہی حال گورکھپور جیل میں بسمل کے ساتھ پیش آیا۔ ان سے آخری خواہش پو جھی گئی تو کہا کہ بس ملک کو آزاد دیکھنا میری آخری خواہش ہے۔ انکا یہ شعر تو گھر گھر میں پڑھا جاتا رہا کہ: سر فروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے۔ دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے۔ حالانکہ بعد کی تحقیق یہ بتاتی ہے کہ یہ شعر بسمل عظیم آبادی کا ہے۔ لیکن چونکہ زمانہ ایک ہی ہے۔ اور رام پرساد بسمل اپنی شاعری اور اپنی سر فروشی دونوں کے لئے مشہور تھے۔ اس لئے شعر ان کے نام سے ہی مشہور ہوا۔ گورکھپور جیل میں جب ان کو پھانسی دی گئی تو پھانسی کے بعد انگریز افسران نے بڑے گپ چپ طریقے سے راپتی ندی کے کنارے ان کی آخری رسومات ادا کر دیں۔ وہ جگہ راج گھاٹ کہلاتا ہے۔ آج بھی گورکھپور شہر میں وہ مقام ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ شہر گورکھپور کے رہنے والے بھی کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ جس مقام پہ راپتی ندی کے کنارے اردو کے اس شاعر رام پرساد بسمل کی آخری رسومات ادا کی گئی تھی اسے ہی راج گھاٹ کا نام دیا گیا۔ شہر گورکھپور کے درمیان اردو بازار میں جامع مسجد کے بالکل پاس میں تاریخی گھنٹہ گھر ہے۔ اس گھنٹہ گھر پہ پنڈت رام پرساد بسمل کی بڑی سی تصویر لگی ہوئی ہے۔ جس اردو بازار میں یہ گھنٹہ گھر موجود ہے اس اردو بازار کا نام بدل کر کچھ لوگ ہندی بازار کر چکے ہیں۔ اردو دشمنی میں انھیں یہ بھی نظر نہیں آیا کہ پنڈت رام پرساد بسمل خود اردو کے شاعر تھے۔ اور یہ بھی دھیان دینے کی بات ہے کہ ملک کو آزاد کرانے کی اس جنگ میں پنڈت رام پرساد بسمل کے ساتھ بنگال کے رہنے والے راجندر ناتھ لاہری بھی تھے اور شاہجہاں پور کے پٹھان اشفاق اللہ خان بھی تھے۔ پنجاب کا ایک سکھ نوجوان سردار بھگت سنگھ بھی انکا
ساتھی تھا۔ آخر1931 میں راج گرو، سکھدیو اور سردار بھگت سنگھ کو بھی پھانسی دی گئی۔ پنڈت رام پرساد بسمل، اشفاق اللہ خان کی طرح سردار بھگت سنگھ نے بھی ملک کی آزادی کے لئے ہنستے ہنستے پھانسی کے پھندے کو چوم لیا تھا۔ یہ ہماری ساجھی وراثت تھی، یہ ہماری ساجھی شہادت تھی۔ آج اسی ساجھی وراثت اور ساجھی شہادت کو کچھ لوگ نظر انداز کرنے اور جھٹلانے میں لگے ہوئے ہیں۔ ہمیں نئی نسل کو بتانا ہے کہ ساجھی شہادت اور ساجھی وراثت ہی ہماری طاقت ہے۔ ہم نے مل کر ملک کو آزاد کرایا۔ ہم مل کر ملک کی آزادی کی حفاظت کریں گے۔ انقلاب زندہ باد۔ ہندوستان زندہ باد۔ ہماری ایکتا زندہ باد۔
(مضمون نگار ڈاکٹر شفیع ایوب جے این یو، نئی دہلی میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں)