Urdu News

اردو ادب کے تین حنفی

خورشید اکرم

 اردو ادب کے تین حنفی

پچھلے سال بھر میں ہم نے اپنے بہت سے آ فتاب و مہتاب غروب ہوتے ہوئے اداس آنکھوں سے دیکھے۔ تاہم چند مہینو ں میں جو ہم نے اپنے دو نہایت اہم بزرگ ادیب ــ شمس الرحمن فاروقی اور شمیم حنفی اور دو نہایت فعال و سرگرم جوان ادیب آصف فرخی اور مشرف عالم ذوقی کھو ئے ہیں ان کی تلافی کسی طرح ممکن نہیں۔یہ چاروں ہی شخصیتیں ہر دل عزیز تھیں، اس لئے اردو ادب سے تعلق رکھنے والے ہر شخص نے ان کی وفات پر سوگ کا اظہار کیا، زبان سے قلم سے اور دل سے ۔ اس غمناک صورت حال سے قطع نظر مجھے ایک بات یاد آ گئی۔ ہندوستان میں ایک زمانے میں تین چند مشہور تھے۔ گوپی چند، گیان چند اور حکم چند۔ آخر الذکر دونوں اللہ کو پیارے ہوئے۔ گوپی چند صاحب بفضلہ حیات ہیں۔ اللہ انہیں حیات خضر دے۔ تین چند کی طرح اردو میں ایک زمانے میں تین حنفی بھی گزرے ہیں۔ عمیق حنفی، مظفر حنفی اور شمیم حنفی۔ ایک جیسے نام والے ان ادیبوں نے مجھے ابتدائے عمر میں بڑا کنفیوز کیا۔ میں کسی کی تحریر کسی اور کے کھاتے میں ڈال دیتا، پھر اپنی اصلاح بھی کرتا تو بھی غلط ہی رہتا ۔ ینی ۔۔۔ دھیرے دھیرے تینوں کا اختصاص جب ذہن میں واضح ہوا تب یہ کنفیوزن دور ہوا۔ کیا پتہ کسی اور کو یہ تجربہ ہوا کہ نہیں۔ بہرحال اب یہ تینوں ہی محترم عدم کے مکیں ہیں۔ یہ تینوں جدیدیت کے عروج کے زمانہ میں سامنے آئے تھے۔ ان میں عمیق حنفی عمر میں بڑے تھے۔ انہوں نے جدیدیت کی حمایت میں بڑی زبردست بحثیں کیں۔ احتشام حسین صاحب کے ساتھ ان کا خاصہ ادبی معرکہ رہا جس نے انہیں بڑی ادبی شناخت دی تھی۔ اعلی درجے کے تنقیدی مضامین لکھے۔ ایک کتاب' شعر چیزے دیگر است 'بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔ اگر چہ وہ بنیادی طور پر نظم کے شاعر تھے۔ جدید نظم نگاروں میں سر فہرست سمجھے جاتے تھے۔ آل انڈیا ریڈیو دہلی کی اردو سروس میں ملازم تھے۔ بے دماغ آدمی تھے۔ اکسٹھ سال کی عمر میں 1989 میں وفات پائی۔ بہت سے نئے لوگوں نے ممکن ہے ان کا نام توسنا ہو مگر انہیں پڑھا نہ ہو۔ وہ مدھیہ پردیش کے ضلع ا ندورکے باشندہ تھے۔(تفصیل کے لئے ریختہ کی سائیٹ دیکھیں)۔ مظفر حنفی کا تعلق بھی مدھیہ پردیش سے ہے ۔ وہ ضلع کھنڈوہ میں پیدا ہوئے تھے۔ مظفر صاحب بھی تنقید لکھتے تھے لیکن ان کا نثری کام اتنا وقیع نہیں ہے۔ انہوں نے زیادہ تر دوسروں کے پراجکٹ پر کام کیا۔ مگر بڑھے لکھاڑ آدمی تھے۔ غزل کے بہت اچھے شاعر تھے۔ افسوس کہ شایان شان پذیرائی نہیں ہوئی۔ ان کا ایک شعر ہے: دلی میں ہیں دو ہی شاعر۔ ڈیڑھ مظفر آدھا بانی ۔ تعلی کا ایسا شعر اس زمانے میں کہنا جب دہلی میں جدید غزل گویوں کی ایک کہکشاں موجود تھی، ان کی خود اعتمادی کا مظہر کہا جا سکتا ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ شعبہ اردو میں استاذ تھے۔ پھر کلکتہ یونیورسٹی میں اقبال چئیر پر فائز ہوئے۔ ملازمت کے بعد دہلی واپس آ گئے تھے۔ اب سے چند ماہ پہلے اکتوبر 2020 میں بعمر 84 سال ان کا انتقال ہوا۔ آخر ی عمر میں کچھ اتنے سر گرم نہیں رہ گئے تھے۔ کتابوں کی تعداد بہت زیادہ ہےمگر شاعری کے علاوہ شاید کوئی بڑا کام نہیں کر سکے۔ افسوس کہ شاعری میں بھی ان کی اتنی بڑی امیج نہ بن سکی جتنی اچھی ان کی شاعری تھی۔
شمیم حنفی صاحب کا تعلق سلطانپور ( اتر پردیش ) سے تھا۔ الہ آباد میں تعلیم حاصل کی جہاں انہیں احتشام حسین، اعجاز احمد اور فراق گورکھپوری جیسے بڑے لوگوں سے کسب علم حاصل کرنے کا موقع ملا۔ مدھیہ پردیش سے ان کا بھی تعلق یوں بن گیا کہ اندور کے ایک کالج میں کچھ دنوں لیکچر ر رہے۔ اوائل عمری میں انہوں نے اہما ل کی منطق نامی ایک معرکۃالآرا مضمون لکھا جس نے ان کی ادبی حیثیت کو پہلی بڑی پہچان دی۔ پھر وہ علی گڑھ یونیورسٹی میں لیکچرر ہوئے اور اس کے بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ ، دہلی آ گئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد پروفیسر ایمریٹس بنائے گئے۔ ان تینوں حنفیوں میں نام کے علاوہ شاعری اور تنقید مشترکہ صفات تھیں۔ اگرچہ شمیم صاحب نے شاعری سے جلدکنارہ کشی کر لی تھی پھر بھی ایک مجموعہ یادگا ر چھوڑا۔ شمیم صاحب نے سب سے زیادہ کام نثر میں کیا۔ جدیدیت کی فلسفیانہ اساس جس پر انہیں ڈی لٹ ملی تھی، کے علاوہ ان کی درجن بھر سے زیادہ ایسی کتابیں ہیں جو ہند و پاک میں یکساں مقبول ہیں۔ ان تینوں میں وہ قلمی طور پر سب سے زیادہ فعال رہے۔ تنقید کے علاوہ ڈرامے بھی لکھے اور صحافتی کالم بھی۔ نہایت نفیس و نستعلیق شخصیت کے مالک تھے۔ خوش خلقی اور انکساری طبیعت میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ہر کسی سے مہر و شفقت کے ساتھ پیش آ تے تھے ۔ملنساری اور وضع داری کا یہ عالم تھا کہ کسی نے اگر ان کے خلاف کچھ سخت سست کہہ دیا تو بھی کچھ نہیں کہتے تھے۔ سامنے مل جائے تو بھی نہیں۔ انہوں نے سب سے زیادہ لکھا اور اپنی شرطوں پر لکھا۔ مکتبی تنقید نہیں لکھی۔ اپنے عہد کے انسان اور سیاست سے بہت سرگرم دلچسپی رکھتے تھے اسی لئے بقول خالد جاوید ان کی تنقید متبادل تنقید کا نمونہ ہے جو نہ محض تاثراتی ہے اور نہ نظریاتی۔ ادب کے علاوہ فنون لطیفہ کے دیگر شعبوں مثلا پینٹنگ، موسیقی وغیرہ میں خاصا درک رکھتے تھے۔ اردو کے یہ واحد ادیب تھے جو ہندی ادیبوں سے بھی بہت قریب تھے، حالانکہ ہندی میں شاید ہی کبھی کچھ لکھا ہو۔ ان کے انتقال کے بعد ایک ہندی ادیب نے تعزیت کے طور پر لکھا کہ' اردو ہندی کی دنیا اور اداس ہو گئی ہے۔ ' اہل پاکستان نے شمیم صاحب کو جو عزت دی وہ شاید حالیہ دنوں میں کسی اور کو نہیں ملی۔ شاید اب اور کسی کو ملے گی بھی نہیں۔ کوئی دوسرا شمیم حنفی اب نہیں آئے گا۔ کیا پر نور چہرہ پایا تھا۔ خدا ان کے مرقد کو بھی نور سے بھر دے۔ آمین۔
 
 

Recommended