مقبول ترین شاعروں میں شامل،برصغیر کے ممتاز فلم نغمہ نگار، اپنی غزل ’ گرمیٔ حسرتِ ناکام سے جل جاتے ہیں‘ کے لیے مشہور اور معروف شاعر” قتیلؔ شفائی صاحب“ کے یومِ وفات پر خاص تحریر
اورنگ زیب خاں نام اور قتیلؔ تخلص تھا۔ 24؍دسمبر 1919 کو ہری پور، ضلع ہزارہ (صوبۂ سرحد) میں پیدا ہوئے۔ حکیم یحییٰ خاں شفاء کے شاگرد تھے۔اسی مناسبت سے شفائی کہلاتے تھے۔ ’’ادبِ لطیف‘‘ اور ’’سنگِ میل‘‘ کے مدیر رہے۔ انھوں نے گیت بھی لکھے، نظمیں بھی اور غزلیں بھی۔ ان کی فلمی گیتوں نے برصغیر کے سامعین کو بہت متأثر کیا۔تمغہ برائے حسن کارکردگی او رآدم جی ادبی ایوارڈ کے علاوہ کتنے ہی اعزازات حاصل کیے۔ اس کے علاوہ متعدد ایوارڈ بہترین نغمہ نگاری پر ملے جن میں نیشنل فلم ایوارڈ، نگار ایوارڈ،مصور ایوارڈ وغیرہ شامل ہیں۔11؍جولائی 2001 کو لاہور میں انتقال کرگئے۔
ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں۔
ہریالی‘، ’گجر‘، ’جلترنگ‘، ’روزن‘ ، ’جھومر‘، ’مطربہ‘، ’گفتگو‘، ’چھتنار‘، ’آموختہ‘، ’پیراہن‘، ’ابابیل‘، ’برگد‘، ’گھنگرو‘، ’رنگ ،خوش بو، گیت‘(شاہ کار گیت) ، ’مونالیزا‘، ’سمندر میں سیڑھی‘ ۔
معروف نغمہ نگار قتیلؔ شفائی صاحب کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت
حالات کے قدموں پہ قلندر نہیں گرتا
ٹوٹے بھی جو تارا تو زمیں پر نہیں گرتا
—–
فرازِ بے خودی سے تیرا تشنہ لب نہیں اترا
ابھی تک اس کی آنکھوں سے خمارِ شب نہیں اترا
—-
کیا عشق تھا جو باعثِ رسوائی بن گیا
یارو تمام شہر تماشائی بن گیا
—-
اس پر تمہارے پیار کا الزام بھی تو ہے
اچھا سہی قتیلؔ پہ بدنام بھی تو ہے
—-
افق کے اس پار زندگی کے اداس لمحے گزار آؤں
اگر مرا ساتھ دے سکو تم تو موت کو بھی پکار آؤں
—-
بے خودی میں پہلوئے اقرار پہلے تو نہ تھا
اتنا غافل وہ بُتِ عیار پہلے تو نہ تھا
—-
چاندی جیسا رنگ ہے تیرا سونے جیسے بال
اک تو ہی دھنوان ہے گوری باقی سب کنگال
—-
حدودِ جلوۂ کون و مکاں میں رہتے ہیں
نہ جانے اہل نظر کس جہاں میں رہتے ہیں
—-
ستم کے بعد کرم کی ادا بھی خوب رہی
جفا تو خیر جفا تھی وفا بھی خوب رہی
—-
گریباں در گریباں نکتہ آرائی بھی ہوتی ہے
بہار آئے تو دیوانوں کی رسوائی بھی ہوتی ہے
—-
صدمہ تو ہے مجھے بھی کہ تجھ سے جدا ہوں میں
لیکن یہ سوچتا ہوں کہ اب تیرا کیا ہوں میں
—-
حسن کو چاند جوانی کو کنول کہتے ہیں
ان کی صورت نظر آئے تو غزل کہتے ہیں
—-
نہ کوئی خواب ہمارے ہیں نہ تعبیریں ہیں
ہم تو پانی پہ بنائی ہوئی تصویریں ہیں
—-
دل پہ آئے ہوئے الزام سے پہچانتے ہیں
لوگ اب مجھ کو ترے نام سے پہچانتے ہیں
—-
انگڑائی پر انگڑائی لیتی ہے رات جدائی کی
تم کیا سمجھو تم کیا جانو بات مری تنہائی کی
—-
تم پوچھو اور میں نہ بتاؤں ایسے تو حالات نہیں
ایک ذرا سا دل ٹوٹا ہے اور تو کوئی بات نہیں
—-
گرمیٔ حسرتِ ناکام سے جل جاتے ہیں
ہم چراغوں کی طرح شام سے جل جاتے ہیں
—-
جب بھی آتا ہے مرا نام ترے نام کے ساتھ
جانے کیوں لوگ مرے نام سے جل جاتے ہیں
—-
دل پہ آئے ہوئے الزام سے پہچانتے ہیں
لوگ اب مجھ کو ترے نام سے پہچانتے ہیں
—-
رابطہ لاکھ سہی قافلہ سالار کے ساتھ
ہم کو چلنا ہے مگر وقت کی رفتار کے ساتھ
—-
وہ دل ہی کیا ترے ملنے کی جو دعا نہ کرے
میں تجھ کو بھول کے زندہ رہوں خدا نہ کرے
—-
کیا مصلحت شناس تھا وہ آدمی قتیلؔ
مجبوریوں کا جس نے وفا نام رکھ دیا
—-
سرِ بام بھی پکارا ، لبِ دار بھی صدا دی
میں کہاں کہاں نہ پہنچا تری دید کی لگن میں
—-
یوں لگے دوست ترا مجھ سے خفا ہو جانا
جس طرح پھول سے خوشبو کا جدا ہو جانا
—-
آیا ہی تھا ابھی مرے لب پہ وفا کا نام
کچھ دوستوں نے ہاتھ میں پتھر اٹھا لیے
—-
پڑ گئی پاؤں میں تقدیر کی زنجیر تو کیا
ہم تو اس کو بھی تری زلف کا بل کہتے ہیں
—-
گرتے ہیں سمندر میں بڑے شوق سے دریا
لیکن کسی دریا میں سمندر نہیں گرتا
—-
ترکِ وفا کے بعد یہ اس کی ادا قتیلؔ
مجھ کو ستائے کوئی تو اس کو برا لگے