Urdu News

بزمِ افقر بارہ بنکی کے زیرِ اہتمام معروف شاعر ذکی طارق کے شعری مجموعہ ’الفاظ نگر‘کا اجرا اور شعری نشست

بزمِ افقر بارہ بنکی کے زیرِ اہتمام معروف شاعر ذکی طارق کے شعری مجموعہ ’الفاظ نگر‘کا اجرا اور شعری نشست

بارہ بنکی(پریس ریلیز)

قدیم ترین ادبی تنظیم ”بزم افقر:“ کے زیر اہتمام ایک ادبی نشست اور تقریب اجرا کاانعقاد شیخ فززند علی میوموریل اسکول پیر بٹاون میں ہوا۔جس کی صدارت بزم کے صدر استاد الشعراءرہبر تابانی نے اور نظامت ا میر حمزہ اعظمی نے کی جب کہ خلیل احسن اور طارق جیلانی نے بہ حیثیت مہمان خصوصی شرکت کی۔

اس دوران بزم افقر کے جنرل سکریٹری مرحوم رضوان انصاری بارہ بنکوی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے انھیں اردو ادب کا خاموش خدمت گار قرار دیا گیا اور ان کے برادر خورد اخلاق انصاری ، ارشاد انصاری اور جلال محمود کے ہاتھوں ”الفاظ نگر “ کے مصنف ذکی طارق کو یادگاری نشان اورشال دے کر اعزاز سے نوازا گیا۔

 اس ادبی تقریب میں معروف شاعر ذکی طارق کے شعری مجموعہ ”الفاظ نگر“ کا اجرا عمل میں آیا اور ذکی ظارق کی ادبی خدمات اور ان کے شعری مجموعہ کے حوالے سے مقررین نے اپنے تاثرات کا اظہار کیا اور معروف ادیب وشاعر خلیل احسان نے”ادبی نگر“کے حوالے سے ایک مقالہ پیش کیا جس میں انھوں نے ذکی طارق کی ادبی اور شعری خدمات کا اجمالی تذکرہ کرتے ہوئے فراق گورکھپوری کے اس شعر سے گفتگو شروع کی ۔

 ہزار بار زمانہ ادھر سے گزرا ہے

 نئی نئی سی ہے کچھ تیری رہ گزر پھر بھی

انھوں نے اپنے مقالہ کے تمہیدی کلمات میں اس نئی نئی سی رہگزر کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صنف سخن کی اس رہ گزر کو ہر زمانے میں شعرا نے اپنے تخیل اور انداز بیاں کے گل بوٹوں سے سجایا ہے ،سنوارا ہے ہر دور کے فنکاروں نے اس شاہراہ کی مختلف فکری وفنی جہات میں نہ صرف چہل قدمی کی ہے بلکہ تیز رفتاری سے اپنا شعری سفر بھی تمام کیا ہے یہ سلسلہ آج تک جاری ہے مگر بہ قول فراق غزل کی یہ رہ گزر آج بھی نئی نئی سی ہے فرسودگی اور قدامت اس پر حاوی نہیں ہوئی ،کب کون فنکار غزل کی اس رہ گزر پر اپنی شناخت ثبت کر دے اور اس کے حسن میں چار چاند لگا دے۔

پہلے سے متعین نہیں کیا جا سکتا شاہراہ غزل کے اس خوبصورت تاریخی سفر کا ایک مسافر جو اس راہ میں گزشتہ پچیس تیس برسوں سے محو سفر ہے ،ذکی طارق کے نام سے مشہور ومعروف ہے اس نے اپنے شعری سفر کے دوران شاہراہ غزل پر ایک جگمگاتا خوبصورت ادبی شہر ”الفاظ نگر کے نام سے آباد کیا ہے جس کی رونمائی کے لئے آج ہم سب یہاں جمع ہوئے ہیں ۔

 ذکی طارق نے یہ شعری سفر مستند ومعتبر استاد شاعر طارق انصاری کی رہنمائی میں طے کیا ہے جو ابھی حال میں ہمیں داغ مفارقت دے گئے ،ذکی طارق کے مجموعہ کا نام ہی شاعر کی جدت طبع کا مظہر ہے میرا خیال ہے کہ ہندی اردو دونوں زبانوں میں ساتھ ساتھ اس مجموعہ کلام کوپیش کرنے کے باعث یہ نام دیا گیا ہے ۔مجموعہ میں شاعر اور اس کے کلام کے سلسلے میں سب سے اہم تعارف ان کے استاد طارق انصاری کی تحریرہے۔

جنھوں نے لکھا ہے کہ ذکی طارق اپنے نام کے تناسب سے نہایت ذہین فنکار ہیں ان کی شاعری میں روایت اور جدت کا حسین امتزاج ہے یہ ہمارے شاگرد رشید ہیں اور ان کو یہ شرف حاصل ہے کہ ہمارے تمام شاگردان عزیز میں سب سے پہلے انھوں نے مجھ سے شرف تلمذ حاصل کیا اور مسلسل اپنی مشاقی کی بدولت پختہ کاری کی دولت سے مالا مال ہو کر بہترین اور عدیم المثال شعر کہنے کا ملکہ حاصل کیا ۔

 اس دوران مسٹرخلیل احسن نے حوالے کے طور پر ذکی طارق کے بہت سے اشعار کو بھی اپنے مقالہ کا حصہ بناتے ہوئے ان کی فنی خوبیوں اور انفرادیت پر روشنی ڈالی ۔

 اپنی نظامت کے دوران امیر حمزہ اعظمی نے بتایا کہ ذکی طارق انصاری کی شعری جہات اور پرواز تخیل کے وہ کم از کم تین دہائیوں کے گواہ ہیں جب انھوں نے نہ صرف اپنی شعری صلاحیتوں کا لوہا منوایا بلکہ اپنے صحافتی شعور کے ذریعہ بھی اردو کی خاموش خدمت کا بیڑہ اٹھائے رکھا اور ان کی اس جہد مسلسل ہی کا ثمرہ ہے کہ آج ہم ”ایک نئی ادبی دنیا سے روشناس ہو رہے ہیں اور ”الفاظ نگر “ کے شہری بن کر اس کے گلی کوچوں اور بازاروں کی رونقوں کا مشاہدہ کر رہے ہیں ۔

مسرت کی بات یہ ہے کہ ذکی طارق کے والد محترم محمد شفیع صاحب اور ذکی طارق کے صاحبزادے ابوشحمہ سلمہ ایک ابھرتے ہوئے صحافی کی حیثیت سے اس محفل میں موجود ہیں ایسے میں فن شاعری اپنے قدیم امتیازات کی طرف ایک خوبصورت استعارہ بنتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے ۔ہم اس موقع کو اس منظر کو آنکھوں میں بسائے ہوئے ایک عجیب کیفیت محسوس کر رہے ہیں اور اردو کے مستقبل کے لئے ہماری فکر اپنی جگہ لیکن ہماری فکر کو اوڑھ لینے والے اور کچھ کر دکھانے کا جذبہ رکھنے والے نئے چہرے نئے لوگ نیا خون ،نیا ولولہ اپنی جگہ ،ہمیں مستقبل کی امیدوں کے چراغ کا ایندھن بنتا دکھائی دے رہا ہے۔

بزم افقر کے اراکین اس بزم آرائی کے لئے قابل مبارکباد ہیں اور اس کے شرکاجن میں معروف سماجی کارکن ، طارق جیلانی ،جناب رہبر تابانی ، جناب خلیل احسن ،ذکی طارق ، شعیب انور ، سلیم تابش ،عدیل منصوری ، ابو ذر، مشتاق ، بزمی ،علی بارہ بنکوی ،مقصود پیامی ،اثر سیدن پوری ، زاہد بارہ بنکوی ، فیض خمار،آفتاب جامی ،شمیم بارہ بنکوی،نفیس بارہ بنکوی ، ڈاکٹر فرقان ،سحر ایوبی ،آدرش بارہ بنکوی ،عبید اشو کے علاوہ جو بھی اس محفل کی زینت رہے وہ قابل مبارکباد ہیں۔

آخر میں بزم افقر کے صدر رہبر تابانی نے سبھی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے یاد رفتگاں کے حوالے سے بزم کو مزید فعال بنانے کے لئے بزم کی طرحی نشستوں کے قدیمی سلسلے کے آغاز کی غرض سے مصرعہ طرح ؛”درد میں کیسے مسکراتے ہیں“ خدام ادب کے حوال کیا اور کہا کہ ہر ماہ کے پہلے اتوارکو بزم کی طرحی نشست یہیں شیخ فرزند علی میموریل اسکول میں منعقد ہو ا کرے گی پوری دلجمعی کے ساتھ بزم کی نشستوں میں شرکت کریں اردو کو پہلے سے زیادہ آپ کی توجہ کی ضرورت ہے تاکہ ااردو کی تہذیبی روایات کا شجر سایہ دار خزاں رسیدہ نہ ہو پھولے پھلے اور تبابندہ و پائندہ رہے ۔

 اتر پردیش اردو اکادمی کے رکن راجہ قاسم نے ”الفاظ نگر“کے مصنف ذکی طارق کی گلپوشی کرتے ہوئے مبارکباد دی اورامید کی کہ جلد ہی ان کا دوسرا شعری مجموعہ منظر عام پر آئے اور ان کی کاوشیں اسی طرح رنگ لاتی رہیں ،معروف سماجی کارکن طارق جیلانی نے بھی ذکی طارق کی کاوشوں کی ستائش کی اور کہا کہ فن کار ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے فن پاروں سے لوگوں کو روشناس کرانا بھی انتہائی ضروری ہے اور اس کے لئے مشاعرے نہیں بلکہ کتابیں ہی ممد ومعاون ہیں اور کتابوں کے ذریعہ ہی ہمیں قدیم شعرا کے فن پارے دیکھنے سننے اور برتنے کو ملتے ہیں ۔

اس ادبی پروگرام کے کچھ منتخب اشعار نذر قارئین ہیں ۔

وفا کا جانے کیا معیار ٹھہرے

وفاداری کے پیمانے بہت ہیں

رہبر تابانی

منزل صبر ورضا سب کے مقدر میں کہاں

کوئی آسان نہیں پیٹ پہ پتھر رکھنا

خلیل احسن

مجھ کو آیا ہی نہیں تیری عبادت کرنا

میرے اللہ مرے ساتھ رعایت کرنا

امیر حمزہ اعظمی

فرمان خدا ہے کہ عبادت میں اٹھیں گے

جتنے بھی قدم گھر کی کفالت میں اٹھیں گے

شعیب انور

بوڑھے شجر کو بار اذیت یوں بھی اٹھانا پڑتا ہے

اپنے زندہ ہونے کا حساس دلانا پڑتا ہے

سلیم تابش

مجھ کو تنہا کرنے سے پہلے اے میرے ہم نفس

کیسے کاٹوں گا میں تیرے ہجر کی راتیں سکھا

ذکی طارق

یاالٰہی خیر ہواب خیر ہو

 ہوگئے ہیں حاشیہ بردار سب

عدیل منصوری

سنورتا ہے وہ کیسے خلوتوں میں

یہ راز آئینہ سارا جانتا ہے

 مشتاق بزمی

چھوڑ آئے مجھے وہاں کوئی

فکر دنیا نہ ہو جہاں کوئی

اثر سیدن پوری

بچھڑتے وقت تیرے آنکھوں میں دیکھے تھے کچھ آنسو

 مجھے رکنے کو کہتا تھا ترا بھیگا ہوا چہرہ

آدرش بارہ بنکوی

سارے عالم پر ہے تیرا اختیار

قبضہ قدرت میں تیرے کیا نہیں

نفیس بارہ بنکوی

مری انا نے اجازت یہ مجھ کو دی ہی نہیں

 قصیدہ گوئی ستم گر کی میں نے کی ہی نہیں

زاہد بارہ بنکوی 

فیصلے جب یہاں سنائے گئے

 نیتوں میں فتور پائے گئے

شمیم بارہ بنکوی

ترک تعلقات کی مجھ سے قسم نہ کھا

اک پل نہ جی سکوں گا تری بے رخی کے بعد

مقصود پیامی

جاﺅ جاﺅ ڈرو نہ اے بھائی

 اس کا غصہ اتر گیا ہوگا

آفتاب جامی

زخم دل جب ہرا نہیں ہو گا

عشق میں کچھ مزا نہیں ہوگا

 سحر ایوبی

میں صداقت کی حویلی میں بھٹکتا ہی رہا

 وہ سراسر جھوٹ بولا اور رہبر ہو گیا

علی بارہ بنکوی

 اس کے علوہ ریحان رونقی ،رضوان سلطان (منتری ) ، جلال محمود ،حاجی بدر الدجی ٰ، ارشاد انصاری، اخلا ق انصاری ، محمد شفیع ،فرحان بارہ بنکوی،ابو شحمہ انصاری کے علاوہ اسکول کے مینیجر عبید اشو نے اس پروگرام کے انعقاد اور اس کو کامیاب ترین بنانے میں اہم رول ادا کیا ۔بزم کا مصرعہ طرح ”درد میں کیسے مسکراتے ہم “ تجویز کیا گیا ہے۔

Recommended