Urdu News

بھگود گیتا کو اردو کے قالب میں ڈھالنے والے انور جلال پوری

قصر نظامت کا چوتھا ستون انور جلال پوری

 قصر نظامت کا چوتھا ستون انور جلال پوری 

 
ڈاکٹر شفیع ایوب
 
کسی مضبوط، مستحکم اور بلند عمارت کے لئے چار ستون بیحد اہم تصوّر کئے جاتے ہیں۔ ہندستان میں مشاعروں کی نظامت کو اگر ایک خوبصورت عمارت تصوّر کر لیں تو اِس کے چار ستونوں کے نام ہیں۔ ثقلین حیدر، عمر قریشی، ملک زادہ منظور احمد اور انور جلال پوری۔ ہندستان کے طول وعرض میں بے شمار مشاعرے منعقد ہوتے رہتے ہیں۔ ہر مشاعرے میں ایک ناظم ضرور ہوتا ہے۔ کبھی کوئی نوآموز تو کبھی کوئی کہنہ مشق شاعر نظامت کے فرائض انجام دیتا ہے۔ لیکن جن حضرات نے نظامت کو با قاعدہ ایک فن کا درجہ عطا کر دیا ہو ان میں سرِ فہرست یہی چار حضرات ہیں جن کا ذکر سطورِ بالا میں ہوا ہے۔سب سے پہلے محترم ثقلین حیدر اس دنیا سے رخصت ہوئے پھر دیار فراق و مجنوں گورکھپور کی علمی و ادبی فضا کو سوگوار چھوڑ کر عمر قریشی راہی ملک عدم ہوئے۔ چار برس پہلے پروفیسر ملک زادہ منظور احمد بھی داغ مفارقت دے گئے۔ اور سال  2018 کا ابھی آغاز ہی ہوا تھا، احباب ایک دوسرے کو نئے سال کی مبارکباد پیش کر رہے تھے کہ شہر آرزو لکھنؤ سے  2  جنوری 2018 کو یہ جانکاہ خبر آئی کہ انور جلال پوری بھی مالک حقیقی سے جا ملے۔  
انور جلال پوری کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں۔ لیکن مشاعروں میں ان کی نظامت نے ایسی چمک پیدا کی کہ باقی صلاحیتیں اور کارگزاریاں دھندھلی نظر آنے لگیں۔ فراق گورکھپوری، کلیم الدین احمد اور شمس الرحمٰن فاروقی کی طرح انور جلال پوری بھی اردو کے نہیں بلکہ انگریزی زبان و ادب کے استاد تھے۔ اودھ کے علاقے میں ضلع امبیڈکر نگر میں جلال پور ایک تاریخی قصبہ ہے۔ اسی تاریخی قصبے میں 06 جولائی  1947 کو حافظ محمد ہارون کے گھر ایک بچے نے جنم لیا جس کا نام والدین نے انوار احمد رکھا۔یہی انوار احمد انور جلال پوری بن کر دنیا بھر میں علم کی روشنی پھیلاتا رہا۔ ابتدائی تعلیم مقامی اسکول میں حاصل کرنے کے بعد گورکھپور یونیورسٹی سے گریجوایشن اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے انگریزی میں ایم اے کیا۔ وہ جلال پور کے این ڈی کالج میں انگریزی کے لکچرر مقرر ہوئے۔ بعد میں انھوں نے اودھ یونیورسٹی سے اردو میں بھی ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ انھوں نے نہ صرف انگریزی ادب کا مطالعہ کیا بلکہ اردو اور ہندی ادب کا مطالعہ بھی وسیع تھا۔ انھیں تینوں زبانوں پر یکساں عبور حاصل تھا۔ انور جلال پوری ایک خوش فکر شاعر تھے۔ انھوں نے صرف مشاعروں کی ضرورت کے لئے شاعری نہیں کی بلکہ جو دل پہ گزرتی تھی اسے رقم کرتے رہے۔ ان کی بیشتر شاعری مٹتی ہوئی تہذیب کا نوحہ ہے۔انھوں نے نعتیہ شاعری کے باب میں بھی بیش بہا اضافہ کیا ہے۔ ’ضرب لا الہ‘  ’بعد از خدا‘اور ’حرف ابجد‘ ان کے نعتیہ مجموعے ہیں۔ ’جمال محمد‘ کے نام سے سیرت محمد ﷺ کو منظوم کیا۔  ’راہروسے راہنما تک‘ سیرت خلفائے راشدین بھی ان کا ایک انمول تحفہ ہے۔ انھوں نے پارہ عم کا منظوم ترجمہ ’توشہ آخرت‘ کے نام سے کیا ہے۔ ’کھارے پانیوں کا سلسلہ‘ ’خوشبو کی رشتہ داری‘ اور دیو ناگری میں ”جاگتی آنکھیں“ کے نام سے ان کی غزلوں کا مجموعہ منظر عام پہ آیا اور پسند کیا گیا۔ انھوں نے گرودیو رابندر ناتھ ٹیگور کی شہرہ آفاق کتاب گیتانجلی کا منظوم اردو ترجمہ کیا۔ ’اردو شاعری میں گیتانجلی“ نام سے یہ کتاب شائع ہوئی تو عالمی سطح پر اس کی پذیرائی ہوئی۔ اور پھر بھگوت گیتا کے مفہوم کا منظوم اردو ترجمہ کر کے انور جلال پوری نے نہ صرف اپنی قادر الکلامی کا ثبوت پیش کیا بلکہ اپنے چاہنے والوں کے دائرے میں مزید وسعت پیدا کی۔ ادئے پرتاپ سنگھ، ڈاکٹر گوپال داس نیرج اور مراری باپو جیسی عظیم شخصیات نے انور جلال پوری کے فن کو تسلیم کیا اور انھیں اپنا آشیرواد دیا۔ 
جہاں تک انور جلال پوری کی نثر نگاری کا تعلق ہے تو انھوں نے اپنی نثر سے بھی اہل علم کو متاثر کیا۔ ان کے مضامین کے دو مجموعے شائع ہو کر مقبول خاص و عام ہوئے۔ اردو میں ’روشنائی کے سفیر‘ اور دیوناگری میں ’اپنی دھرتی اپنے لوگ‘ مضامین کا مجموعہ ہے۔ انور جلال پوری کی نثرمیں جادو ہے۔ 
انور جلال پوری نے بہت کم عمری میں شاعری شروع کر دی تھی۔ ان کے ہم عصر شاعر و ادیب ان کی پر گوئی کے قائل تھے۔ زبان پہ انھیں بھرپور دسترس حاصل تھی۔ وہ ایک بہترین خطیب تھے۔ کسی بھی موضوع پہ گھنٹوں تقریر کر سکتے تھے۔ ان کی خطابت میں پہاڑی ندی کی روانی تھی۔ اپنی فلسفیانہ گفتگو میں اَودھ کی شیرینی ملا کر پیش کرتے تو سامعین پر جادو کر دیتے تھے۔  انور جلال پوری حقیقت پسند تھے۔ شہرت کی بلندیوں پر پہنچ کر بھی قدم زمین پر رکھتے تھے۔ وہ سراپہ عاجزی و انکساری تھے۔ مطالعہ کے شوقین تھے۔ تمام مصروفیات کے باوجود پڑھنے کے لئے وقت نکالتے تھے۔ اور صرف اردو ادب نہیں پڑھتے بلکہ ہندی اور انگریزی ادب کا بھی مطالعہ خاصہ وسیع تھا۔ ٹیگور کی گیتانجلی کو پڑھنا، سمجھنا، اپنی فکر کا حصہ بنانا اور پھر منظوم ترجمہ کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ لیکن اس کام کو انور جلال پوری نے نہایت مہارت سے انجام دیا۔ایک طرف انھوں نے اسلامی تاریخ کا مطالعہ کیا تھا تو دوسری جانب قدیم ہندوستانی تہذیب پہ بھی ان کی گہری نظر تھی۔ جس ڈھائی ہزار سال کی تہذیبی تاریخ کو قرۃالعین حیدر نے شہرہ آفاق ناول ”آگ کا دریا“ میں سمیٹنے کی کوشش کی تھی، اس تاریخ پہ انور جلال پوری بھی گہری نظر رکھتے تھے۔ جنگ بدر، صلح حد یبیہ اور سانحہ کربلا پر نظر رکھنے والے انور جلال پوری مہابھارت کی جنگ پہ بھی نظر رکھتے تھے۔اسی لئے وہ نہ صرف گیتا کے مفہوم کو سمجھ سکتے تھے بلکہ گیتا کے اُپدیش کی گہرائی اور معنویت سے پوری طرح واقف تھے۔ انھیں زمانہ طالب علمی سے گیتا میں دلچسپی تھی۔ انھوں نے گیتا کے حوالے سے اپنی پی ایچ ڈی کا خاکہ بھی تیار کیا تھا جو کسی وجہ سے مکمل نہ ہو سکا۔ لیکن ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد انھوں نے ایک بار پھر گیتا کی تعلیمات کو اپنے مطالعہ کا موضوع بنایا۔ اور پھر دنیا نے دیکھا کہ انور جلال پوری نے شری مد بھگوت گیتا کے سات سو ایک شلوکوں کو کس فنی مہارت کے ساتھ1761  اشعار کے قالب میں ڈھال کر اردو کے شعری سرمائے میں گراں قدر اضافہ کیا۔                       
یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ قصر نظامت کے چار ستونوں میں تین ستون یعنی عمر قریشی، ملک زادہ منظور احمد اور انور جلال پوری کا تعلق کسی نہ کسی طور شہر گورکھپور سے ہے۔  بہر حال ہم تو انور جلال پوری کی نظامت کا جائزہ لے رہے ہیں۔ اور اس جائزے میں گورکھپور کا ذکر یوں آ جائے گا کہ انور جلال پوری نے اپنی تعلیمی زندگی کے کچھ برس گورکھپور میں گزارے تھے۔ اور اسی گورکھپور نے ملک زادہ منظور احمد کی بھی پرورش کی تھی۔ جہاں بھی ملک زادہ منظور احمد کا ذکر آتا انور جلال استاد محترم کہا کرتے تھے۔ اور ملک زادہ منظور احمد نے بارہا نظامت میں عمر قریشی کی استادی کو تسلیم کیا ہے۔اس طرح گورکھپور کی علمی ادبی فضاؤں نے بھی انور جلال پوری کی نظامت کو سنوارنے اور نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا۔   
نظامت کے جن چار ستونوں کی بات ابتدا میں کی ہے وہ چاروں اپنے اپنے انداز کے، اپنے اسلوب کے بادشاہ ہیں۔ اپنے لہجے اور آواز سے پہچانے جاتے ہیں۔جناب ثقلین حیدر اپنی نظامت کے دوران بے شمار اشعار سناتے تھے۔ انکا حافظہ زبردست تھا۔ برمحل اشعار سے محفل میں جان ڈال دیتے تھے۔ ہزاروں اشعار انکی نوکِ زبان پہ تھے۔ مشاعروں کا بڑا سے بڑا شاعر اپنا کلام پڑھ کے بیٹھتا اور ثقلین حیدر شروع ہو جاتے۔ شاعر نے جس مضمون کا شعر پڑھا تھا اسی مضمون کو میر انیس نے کیسے باندھا ہے یہ بتانا ثقلین حیدر کا کام تھا۔۔ ثقلین حیدر کی زبردست نظامت کا منفی پہلو یہ تھا کہ شاعر پھیکا پڑ جاتا تھا۔ نظامت چمک جاتی تھی۔ 
دوسرے کامیاب طرین ناظمِ مشاعرہ پروفیسر ملک زادہ منظور احمد تھے۔ جنھوں نے مشاعروں کو کسی حد تک ادبی وقار عطا کیا۔ 
تیسرے کامیاب ترین ناظم مشاعرہ عمر قریشی تھے۔ وہ ہندوستان کے تقریباً تمام اہم شہروں کی ادبی وراثت سے واقف تھے۔ ایک خاص بات انکے حوالے سے یہ ہے کہ وہ کبھی بھی مشاعروں میں اپنا کلام نہیں سناتے تھے۔ دورانِ نظامت اپنے لا تعداد اشعار بر محل سناتے تھے لیکن بطور شاعر مائک پہ آکر اپنا کلام نہیں سناتے تھے۔ 
 چوتھے کامیاب ترین اور عظیم ناظمِ مشاعرہ جنابِ انور جلال پوری تھے۔ ملک زادہ منظور احمد کی طرح انور صاحب بھی تدریس کے پیشے سے وابستہ رہے ہیں۔ لیکن آپ اردو کے نہیں بلکہ فراق گورکھپوری کی طرح انگریزی زبان و ادب کے استاد رہے ہیں۔ جلال پور کے کالج میں بھرپور تدریسی خدمات انجام دینے کے بعد آپ لکھنؤ میں سکونت پذیر تھے۔ انور جلال پوری اپنے خاص انداز میں کسی سنت یا ملنگ کی طرح مشاعرے کے اسٹیج پر نمودار ہوتے تھے۔ کسی محفل میں یا کسی اسٹیج پر خاموش بھی بیٹھے ہوں تو دیکھنے والا کہہ اٹھے گا کہ کوئی مفکر بیٹھا ہے۔ انکی سوچتی ہوئی دو ذہین آنکھیں اکثر بہت کچھ بیان کر دیتی تھیں۔ 
انور جلال پوری کو قریب سے جاننے والے بتاتے ہیں کہ وہ جتنے اچھے شاعر تھے  اس سے اچھے ناظمِ مشاعرہ تھے  اور اس سے اچھے انسان تھے۔ حالانکہ مشہور و معروف شاعر منور رانا کا خیال ہے کہ انور جلال پوری اول تا آخر شاعر تھے، نظامت تو وہ یوں ہی کر لیتے تھے۔ لیکن اس سچائی سے انکار ممکن نہیں کہ دنیا بھر میں انور جلال پوری کو انکی شاعری نہیں بلکہ انکی زبردست نظامت کے لئے جانا جاتا ہے۔ شانوں پہ ایک خاص ادا سے شال اوڑھے ہوئے وہ جس ٹھہرے ہوئے انداز میں گفتگو کرتے تھے اس کی سحر انگیز ی سے کون بچ سکتا تھا۔ وہ ایک زبردست خطیب تھے۔ وہ کسی موضوع پر بے تکان بول سکتے تھے۔ اردو سے نابلد کسی چینی، جاپانی یا فرانسیسی کے سامنے اگر انور جلال پوری گفتگو کر رہے ہوں تو کچھ نہ سمجھتے ہوئے بھی وہ گھنٹوں ان کی گفتگو سے لطف اندوز ہو سکتا تھا۔ انکے بولنے کا لہجہ، آواز کا زیر و بم،جملوں کی موسیقی جادو کر دیتی تھی۔ انکی گفتگو میں ایک خاص ٹھہراؤ  بڑی قاتل چیز تھی۔ مشاعروں کے اسٹیج پر انکی جادو بیانی کے ساتھ ساتھ انکی شخصیت کا جادو بھی جان لیوا ہوتا تھا۔ وہ غزل کے شعر کی طرح اپنے جملوں پر داد وصول کرتے تھے۔ صرف ہندوستان میں نہیں بلکہ دنیا میں جہاں جہاں اردو ہے وہاں مشاعرے منعقد ہوتے ہیں اور جہاں مشاعرے منعقد ہوتے ہیں وہاں جنابِ انور جلال پوری کے جلال و جمال کے شیدائی آج بھی موجود ہیں۔ 
مشاعروں میں فنِ نظامت کے چوتھے ستون انور جلال پوری کا رنگ سخن سب سے جدا تھا۔ ثقلین حیدر، ملک زادہ منظور احمد اور عمر قریشی سے بالکل الگ انداز تھا جنابِ انور جلال پوری کی نظامت کا۔ وہ عمر قریشی کی طرح شاعروں کا تعارف انکے شہروں کے حوالے سے نہیں کراتے تھے۔ وہ ثقلین حیدر کی طرح بے شمار اشعار نہیں سناتے تھے۔ اور ملک زادہ منظور احمد سے ذرا کم ادبیت کی راہ اختیار کرتے تھے۔ خدائے سخن میر تقی میر کی طرح وہ بھی جانتے تھے کہ اشعار ان کے خواص پسند ہیں مگر گفتگو عوام سے ہے۔ عوام سے بھی گفتگو کا ایک خاص سلیقہ تھا انور جلال پوری کے پاس۔ وہ سلیقہ تھا کہ عوام ان کی بات سمجھ جائیں اور خواص کے طبع نازک پہ گراں نہ گزرے۔ نظامت کا یہ سلیقہ انور جلال پوری کے ساتھ رخصت ہوا۔اگرچہ پروفیسر ملک زادہ منظور احمد اور انور جلال پوری کے بعد کی نسل میں مشاعروں کی نظامت کے حوالے سے بالکل سنّاٹا نہیں ہے۔ اپنے زمانے میں معراج فیض آبادی، ڈاکٹر بشیر بدر اور منور رانا بھی اچھی نظامت کیا کرتے تھے۔ لیکن معراج فیض آبادی اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ اور جہاں تک بشیر بدر اور منور رانا کا تعلق ہے تو اب ان کی صحت اور عمر اجازت نہیں دیتی۔ ڈاکٹر ماجد دیو بندی او ر جناب اقبال اشہر بھی نظامت کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں لیکن یہ دونوں بطور شاعر بھی خاصے مقبول ہیں۔ اس لئے عموماً مشاعروں میں نظامت سے گریز کرتے ہیں یا پھر منتظمین مشاعرہ ہی انھیں ناظم کے بجائے بطور شاعر ہی مدعو کرنا پسند کرتے ہیں۔ مرادآباد سے منصور عثمانی، گورکھپور سے کلیم قیصر، رامپور سے شکیل غوث رام پوری اور دہلی سے (وطن عزیز بجنور) شکیل جمالی و معین شاداب نے عالمی سطح پر بطور ناظمِ مشاعرہ اپنی پہچان قائم کی ہے۔
 
  (مضمون نگار ڈاکٹر شفیع ایوب، ہندوستانی زبانوں کا مرکز، جے این یو، نئی دہلی میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔) 


Recommended