ذکی طارق بارہ بنکوی
سعادت گنج، بارہ بنکی،یوپی،بھارت
ذکی طارق کی شاعری ان کی دِلی کیفیات اور رومان کی گل پوش و گل افروز وادیوں کے سفر کی منظوم خود نوشت ہی نہیں بلکہ وہ عصری معاشرت کے نشیب و فراز اس کی زبوں حالی، مسائل اور رجحانات و محرکات کا منظر نامہ پیش کرتے ہوئے اپنے عہد کی سچّائیوں کی آئینہ داری اور ترجمانی کا فریضہ بھی بخوبی انجام دیتی ہے ۔ان کے اشعار میں تہذیبی زوال ،مردہ ضمیری ،بے حسی، طبقاتی کشمکش ،دہشت گردی ،رِشتوں کی لاتعلقی ، ظلم و ستم ،جبر و استبداد ،عدم تحفظ اورعدم انصاف کی جھلکیاں صاف طورپردیکھی جاسکتی ہیں۔ انھو ں نے نہ صرف متنوع زمینیں خلق کی ہیں بلکہ ان میں فکر و خیال کے گلستاں آباد کرکے ان میں معنی کے گلاب کھلائے اور مہکائے ہیں(ادارہ)
نظم
اے خدا دیکھ تو بیکسی عید کی
کس قدر مضمحل ہے گھڑی عید کی
ہر برس جو ہوا کرتی تھی عید کی
اب کے غائب ہے وہ دلکشی عید کی
دھن میں ہو آدمی آدمی عید کی
کاش کہ رقصاں ہو زندگی عید کی
اے خدا اس تفکر سے دیدے نجات
چھین لی جس نے ہم سے خوشی عید کی
چاند سورج نے غنچوں نے اور پھولوں نے
سب نے ہی تہنیت ہم کو دی عید کی
کس قدر سونی سونی ہے آمد خدا
تیری انعام میں دی ہوئی عید کی
جس کا شدت سے کرتے تھے ہم انتظار
آ گئی آ گئی و ہ گھڑ ی عید کی
دل سے دل بھی ملیں اِن گَلوں کی طرح
کا ش کہ لاج رکھ لیں سبھی عید کی
جب و ہ آ کر ہمار ے گلے لگ گئے
ہو گئی پھر خوشی دو گنی عید کی
دشمنوں کو بھی بڑھ کر لگائے گلے
کہ روایت ہے بس اک یہی عید کی
میرے گھر آج تشریف لائے ہیں وہ
بڑھ گئی اور بھی دلکشی عید کی
جیسی اب کے ہے کی مفلسی نے مری
دیکھی حالت نہ ایسی کبھی عید کی
کوئی محروم رہنے نہ پائے ”ذکی“
آؤ آپس میں بانٹیں خوشی عید کی