Urdu News

گیت سنگیت کی دنیا کا ایک اور ستارہ ڈوب گیا: آہ پنڈت بھجن سوپوری

سنتور نواز پنڈت بھجن سوپوری

 گیت سنگیت کی دنیا کا ایک اور ستارہ ڈوب گیا: آہ پنڈت بھجن سوپوری 

سنتور خاموش ہے: الوداع پنڈت بھجن سوپوری 
دو جون 2022کو سنتور نواز پنڈت بھجن سوپوری بھی اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ وہ 73سال کے تھے۔ گزشتہ کچھ دنوں سے بیمار تھے۔ گروگرام کے فورٹس اسپتال میں بھجن سوپوری نے زندگی کی آخری سانس لی۔ وہ کافی دنوں سے بیمار چل رہے تھے۔ انھیں کولن کینسر کی شکایت تھی۔پنڈت بھجن سوپوری بہت خوبصورت اور پیارے انسان تھے۔ 
بھجن سوپوری دہلی میں سکونت پذیر تھے۔ خاکسار (شفیع ایوب) کو نیاز حاصل تھا۔ وہ لودھی کالونی میں رہتے تھے۔ میں کئی بار ان سے ان کی رہائش پر ملا۔ میں ان خوش نصیب لوگوں میں سے ہوں جنھیں پنڈت بھجن سوپوری نے اپنے ہاتھوں سے چائے بنا کر پلائی ہے۔ بڑے مہذب اور پیار کرنے والی شخصیت تھی۔ مسکرا کر ملتے تھے۔ انکساری بہت تھی ان میں۔ ہماری اور پنڈت بھجن سوپوری کی ملاقات پنڈت رمیش چند گنجو کی وجہ سے ممکن ہوئی۔ پنڈت آر سی گنجو میرے بڑے بے تکلف دوست ہیں۔ ساکیت میں رہتے ہیں۔ اکثر مجھ سے ملنے جے این یو آ جایا کرتے تھے۔ کبھی ترنگ میں ہوں تو کہتے چلو لودھی کالونی چلتے ہیں۔ بھجن سے کچھ کھاتے پیتے ہیں۔ جموں کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبد اللہ کے بھانجے اور سابق وزیر اعلیٰ جی ایم شاہ کے بیٹے مظفر شاہ بھی مجھے عزیز رکھتے ہیں۔ مظفر شاہ سے بھجن سوپوری کے بڑے اچھے رشتے تھے۔ مظفر شاہ اور پنڈت رمیش چند گنجو کی وجہ سے پنڈت بھجن سوپوری مجھے عزیز رکھتے تھے۔ اکثر فون پر باتیں ہوا کرتی تھیں۔ شاعری مجھ سے سنتے تھے۔ ہم کشمیری صوفی روایات پر گھنٹوں باتیں کیا کرتے تھے۔ جن دنوں میں دور درشن کے کاشر چینل سے بطور ایکسپرٹ وابستہ تھا تب بھی پنڈٹ بھجن سوپوری سے اکثر ملاقاتیں ہوتی تھیں۔ منڈی ہاؤس میں ہم کئی بار روڈ سائڈ ڈھابہ پر کھڑے کھڑے چائے پیتے اور باتیں کرتے۔ وہ ملنے والے کو احساس نہیں ہونے دیتے کہ وہ اتنے بڑے آدمی ہیں۔ ہاں انا پرست تھے۔ کوئی وزیر یا بڑا افسر ٹھیک سے نہ ملے تو برا مان جاتے تھے۔ دوردرشن میں جی ڈی طاہر، ایس کے سنگھ، اننیا بنرجی وغیرہ کو وہ ملاقاتیں اب بھی یاد ہوں گی۔  
بیٹے ابھے رستم سوپوری اور سوربھ سوپوری بھی والد کے نقش قدم پہ چل کر گیت سنگیت کے لئے خود کو وقف کر چکے ہیں۔دونوں بیٹے ابھے اور سوربھ بھی والد کی طرح سنتور نواز ہیں۔ پنڈت بھجن سوپوری کی اہلیہ پروفیسر اپرنا سوپوری اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی میں پروفیسر تھیں۔ انھوں نے وی آر ایس لے لیا تھا۔ پنڈت بھجن سوپوری کو سنگیت کی تعلیم اپنے والد سے ملی تھی۔ بھجن لعل سوپوری کے والد کا نام پنڈت شمبھو ناتھ سوپوری تھا۔ بھجن لعل سوپوری 1948میں سری نگر میں پیدا ہوئے۔ سری نگر کے قریب سوپور ان کا آبائی وطن تھا۔ سوپور کا علاقہ اپنے رسیلے سیبوں کے لئے مشہور تھے۔ کہا جاتا ہے کہ کشمیر میں سب سے اچھے کوالیٹی کے سیب سوپور میں ہوتے ہیں۔ اسی سوپور سے سنتور نواز پنڈت بھجن سوپوری کا تعلق تھا۔ پنڈت بھجن سوپوری نے مغربی سنگیت کی تعلیم واشنگٹن یونیورسٹی سے حاصل کی تھی۔ انھیں پدم شری کے اعزاز سے بھی نوازا گیا تھا۔ انھیں سنگیت ناٹک اکیڈمی ایوارڈ اور جموں کشمیر اسٹیٹ لایو ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ بھی ملا تھا۔  
انھیں ’سنتور کے سنت‘کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔ بھجن سوپوری نے کلاسیکی سنگیت میں تین راگوں کی رچنا کی تھی۔ 
پنڈت بھجن سوپوری کے خاندان میں چھہ پشتوں سے سنتور بجانے کا چلن رہا ہے۔ سنتور کا کشمیر سے بڑا گہرا تعلق رہا ہے۔ صوفیانہ موسیقی کے لئے سنتور مناسب ترین ساز مانا جاتا ہے۔ کشمیری لوک گیتوں کو سنتور کے ساتھ گانے کا چلن بہت قدیم ہے۔ سنسکرت کی قدیم کتابوں میں اسے ”شاتھا تنتری وینا“ یعنی سو تاروں کی وینا کہا جاتا تھا۔ سنتور نواز ایک خاص آسن میں بیٹھ کر سنتور بجاتے ہیں جسے”اردھ پدماسن“ کہتے ہیں۔ 2جون 2022کی شام گرو گرام (گڑگاؤں) کے فورٹس اسپتال میں بھجن سوپوری کے انتقال سے سنتو ر اداس ہے۔ سنتور خاموش ہے۔ اور بھجن سوپوری کا مسکراتا چہرہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔ (تحریر: ڈاکٹر شفیع ایوب) 

Recommended