Urdu News

ان چراغوں میں اندھیروں کو للکارنے کی قوتیں پوشیدہ ہیں: پروفیسرانور پاشا

تحقیقی و تنقیدی اجلاس میں دائیں سے اکادمی کی گورننگ کونسل کے ممبر جاوید رحمانی، وائس چیئرمین اکادمی حاجی تاج محمد،جناب منصور آغا اور اظہارِ خیال کرتے ہوئےپروفیسر انورپاشا

اردو اکادمی دہلی کے زیراہتمام”نئے پرانے چراغ“ کا دوسرا دن

اردو اکادمی، دہلی کی جانب سے دہلی کے بزرگ اور جواں عمر قلمکاروں کامقبول ترین پانچ روزہ ادبی اجتماع ”نئے پرانے چراغ“ کا سلسلہ جاری ہے۔آج بروز ہفتہ مورخہ 23جولائی کو ”تحقیقی وتنقیدی“کے پہلے اجلاس کا اکادمی کے قمررئیس سلورجوبلی آڈیٹوریم میں آغاز ہوا۔ دہلی کی تینوں یونیورسٹیوں کے ریسرچ اسکالرز نے منتخب موضوعات پر تحقیقی و تنقیدی مقالات پیش کیے۔ ان موضوعات میں ”دکن کی قدیم اردو شاعری اور اہم شعراء“، ”غزل کے بدلتے رجحانات“، ”اردو تحقیق اور اہم محققین“، ”قدیم اردو نثر اور اہم تصانیف“، ”اردو صحافت:ماضی، حال اور مستقبل کے امکانات“ شامل ہیں۔

اجلاس کی صدارت معروف ادیب پروفیسر انور پاشا اور سینئر صحافی منصور آغا نے کی۔ جب کہ نظامت کے فرائض ڈاکٹر شہنواز ہاشمی نے انجام دیے۔اس اجلاس میں دہلی یونیورسٹی کی اسکالرڈاکٹر فرحت کمال نے ”غزل کے جدید رجحانات“، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اسکالر محمد فرید نے ”ممتاز مفتی کا سوانحی ناول الکھ نگر ایک جائزہ“، دہلی یونیورسٹی کے اسکالر غفران حکیم نے ”مظفر حنفی کی طنزیہ غزل گوئی ایک جائزہ“، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کی ریسرچ اسکالر عائشہ ضیاء نے ”ادبی تاریخ نویسی میں تذکرون کی نا گزیریت کا سوال اور حنیف نقوی“، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے محمد مبین آصف نے ”دکن کی قدیم اردو شاعری ماخذ اور امتیازات“،جامعہ ملیہ اسلامیہ کی اسکالر سفینہ نے ”تنویر احمد علوی کی کتاب اصولِ تحقیق و ترتیب متن کا تجزیاتی مطالعہ“،  دہلی یونیورسٹی کے اسکالر شاہد اقبال نے ”اردو صحافت ماضی اور حال“، جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ریسرچ اسکالر عظمت النساء نے ”قدیم اردو نثر کا شاہکار سب رس“، دہلی یونیورسٹی کی کی ریسرچ اسکالر ہما نے ”قدیم اردو نثر اور اہم تصانیف“،دہلی یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر معاذ نے ”مشترکہ ہندوستانی تہذیب اور محمد قلی قطب شاہ“ نے اپنے مقالات پیش کیے۔

مقالات کے بعد صدر اجلاس منصور آغا نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ نئے پرانے چراغ کے سلسلے کا مقصد نوجوانوں میں تحقیق کے جذبے کو پروان چڑھانا ہے۔آج جو مقالے پیش کیے گئے وہ معیاری اور محنت سے لکھے گئے ہیں۔انہوں نے کہاکہ کوئی بھی تحریر حرف آخر نہیں ہوتی اور ہمیشہ گنجائش موجود رہتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے اساتذہ کو یاد رکھیں اور ان کا ذکر بھی کرتے رہیں۔ انہوں نے مزید کہاکہ مجھے اس بات کا اطمینان ہے کہ اردو ڈوب نہیں رہی ہے بلکہ نئی نسل کے ہاتھوں میں محفوظ ہے۔ انہوں نے موجودہ اردو صحافت کی صورت حال پر بھی روشنی ڈالی اور کہاکہ ہماری اردو صحافت تقسیم ہوچکی ہے۔

پروفیسر انور پاشا نے اپنی صدارتی گفتگو میں کہاکہ آپ تعلیم و تحقیق کی اس منزل پر کھڑے ہیں، جہاں آپ کی حیثیت ایک اصلاح کار کی ہے، معمولی طالب علم نہیں ہیں۔ آپ ریسرچ اسکالرز ہیں۔آپ محقق ہیں، کاندھوں پر بڑی ذمہ داری ہے۔ آپ سبھی اپنے دل سے پوچھیں کہ کیا آپ نے مقالات میں حق ادا کیا ہے، میں قطعی مطمئن نہیں ہوں، دس مقالے پڑھے گئے،ان مین دو تین مقالے ضرور ایسے تھے جو کسی حد تک بہتر کہے جاسکتے ہیں۔بیشتر مقالے بہت رواروی میں لکھے گئے ہیں۔ ہم آپ سے اس منزل پہ ایسے مقالات کی توقع نہیں کرتے۔ پروفیسر پاشا نے تلفظ کی خامیوں کی جانب بھی توجہ دلائی۔ انہوں نے مزید کہا کہ یقینا آپ چراغ ہیں کل کے، پرانے چراغ تو اپنی روشنی بکھیر کر ایک خاص منزل پر آگئے، انہوں نے اپنی ذمہ داریاں پوری کردیں۔آپ سب چراغ ہیں، جس طرح کا اندھیرا پھیل رہا ہے، آپ سب اندھیرے کو چیلنج کرنے والے چراغ ہیں۔ادب، تہذیب اور دانش کے چراغ ہیں، زبان کیا ہے، زبان مجموعہ ہے ان تمام خصوصیات کا اور ادب ان سب کا مجموعہ ہے۔ ان چراغوں میں اندھیروں کو للکارنے کی قوتیں پوشیدہ ہیں،لیکن اور بہتر شکل میں چراغوں کی لو کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔پروفیسر پاشا نے صحافت کی صورت حال پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ صحافت ایک زمانے میں مشن ہوا کرتی تھی، آزادی اور روشن ضمیری کا مشن۔

ظہرانے کے بعد ”تخلیقی اجلاس“ کا آغاز ہوا۔ جس کی صدارت پروفیسر ابن کنول اور جاوید اختر وارثی نے کی جب کہ نظامت کے فرائض ڈاکٹر عالیہ نے انجام دیے۔اس سیشن میں افسانہ/انشائیہ/ خاکہ وغیرہ پیش کیے گئے۔اس موقع پر پروفیسر ابن کنول نے بھی اپنا انشائیہ”میں صحافی بننا چاہتا تھا“، اورڈاکٹر شعیب رضا خاں وارثی نے بھی انشائیہ پیش کیا۔ان کے علاوہ ڈاکٹر محمد نظام الدین نے”ماچس اور لائٹر“، ڈاکٹرنشا ں زیدی نے ”نیک انسان“،ڈاکٹرذاکر فیضی نے ”میرا کمرہ“، محمد علم اللہ نے ”دو کہانیاں“، نشاط حسن نے ”چار کاندھے“، محمد عرفان خان نے ”پرواز تخیل“،فیصل نظیر نے ”غریب شیر“،  مسرور فیضی نے ”روٹی کا ایک حصہ“،مینا خان نے ”خواب جزیرے“،اور نوازش مہدی نے”آتماؤوں کا قتل“ کے عنوانات سے افسانے پیش کیے۔ پروفیسر ابن کنول نے صدارتی خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ خوشی اس بات کی ہے کہ آج کا افسانہ نگار بیدار ہے، وہ اپنے سماج سے کٹا ہوا نہیں ہے، اس نے بغیر کسی خوف کے عہد کے درد کو پیش کیا۔ خدا کرے نئے قلم کاروں کا قلم ترو تازہ رہے۔تحقیقی و تنقیدی اور تخلیقی اجلاس کے فوراً بعد ”محفل شعر وسخن“ کا آغاز ہوا۔ محفل مشاعرہ کی صدارت بزرگ شاعر ڈاکٹر جی۔آر۔ کنول کی اور نظامت کے فرائض معروف ناظمِ مشاعرہ معین شاداب نے انجام دیے۔ مشاعرہ میں تقریباً 76 شعرا نے شرکت کی۔

Recommended